Laaltain

سیانے شاعر کی گاتھا

30 ستمبر، 2015

tasneef-haider-siyaanay-shair-ki-gataaha-3

تحریر کا رواج جب سے ہوا ہے
تب سے کاغذ نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے
اور لفظ کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں
اناج بھرپور ہے
یہ لفظ تانبے کے، پیتل کے، سونے کے یا پھر کسی اور دھات کے
کیسے اگائے جاتے ہیں
یا پھر کہاں بوئے جاتے ہیں

 

میں بھی نہیں جانتا کہ لفظ کی تاریخ کتنی پرانی ہے، وہ تاریخ جو کُن سے شروع ہوئی یا پھر اس سے بھی پہلے،یا پھر تب جب خدا بولنا سیکھ رہا تھا۔میرے لیے ہمیشہ کُن سے پہلے کا وقت ایک سوال ہے اور یہ سوال بجائے خود اتنا چمکدار لفظ ہے کہ اس کی روشنی سے میری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔
میں بھی نہیں جانتا کہ لفظ کی تاریخ کتنی پرانی ہے، وہ تاریخ جو کُن سے شروع ہوئی یا پھر اس سے بھی پہلے،یا پھر تب جب خدا بولنا سیکھ رہا تھا۔ میرے لیے ہمیشہ کُن سے پہلے کا وقت ایک سوال ہے اور یہ سوال بجائے خود اتنا چمکدار لفظ ہے کہ اس کی روشنی سے میری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔میں بنیادی طور پر ایک شاعر ہوں،مجھے یاد ہے جب میں وسئی (تھانہ، مہاراشٹر)میں رہا کرتا تھا، ہم لوگ ایک نہائی دھوئی اور تازہ بلڈنگ میں شفٹ ہوئے تھے تو اس کے چھت پر میں کاغذ قلم لے کر سرمئی شاموں کو کس طرح زبردستی شاعری کرنے کی دھن میں ڈوبا رہتا تھا۔میں نے بچپن سے ہی جو روحانی یا صوفیانہ ماحول پایا تھا، اس کے زیر اثر مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میں ایک خالی ڈائری کے صفحات لیے ناک کی سیدھ میں بہتے سمندر کے آگے دامن پسار کر بیٹھ جاؤں گا اور شاعری سے میری عقیدت،غروب آفتاب سے پہلے ہی سمندر کے فرشتے خضر کو مجھ پر مہربان کردے گی۔وہ اپنی سفید نورانی داڑھی اور اجلی، دمکتی ہوئی قبا میں ایک گھوڑے پر سوار ہوکر سمندر سے نمودار ہوں گے اور سرو کے لمبے لمبے درختوں کو عبور کرتے ہوئے کسی شہباز کی صورت میری چھت پر اتر آئیں گے اور میرے پسرے ہوئے دامن میں الفاظ کے لعل و زمرد انڈیل دیں گے۔سب کچھ ایک طلسم سا لگتا تھا، حیران ہوتا تھا میں ان لوگوں پر جو اچھے شعر کہتے تھے، جن کے پاس صلاحیت تھی لفظوں کو اپنی آزادی سے برتنے کی، جن کو آتا تھا وہ ڈھنگ، جس سے سماعتوں کے طائروں کو اپنی بانسری کے سرے پر بٹھایا جاسکے۔میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ شاعری کسی دیوتا کا وردان ہے، کسی کرن کا کوج ہے، کسی عمرو کی زنبیل ہے یا کسی شاہجہان کے تعمیری خواب ہیں جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتے۔مون(موت) تھی ساری سچائی اور گویا تھا بس ایک طلسم، ایک نشہ جس کے جھلملاتے، سفید پانی پر میرے ننھے ہاتھوں کی بطخیں تیرتی رہتی تھیں مگر حاصل کچھ نہ ہوتا۔بس کچھ اوٹ پٹانگ لفظ، ادھر ادھر کی آڑھی ترچھی لکیریں اور کاٹ چھانٹ۔وہ ڈائری آج بھی کہیں میری والدہ نے سینت کر رکھی ہوئی ہے۔کہیں آج بھی ان سنہری شاموں کا وہ جھنجھلانا، وہ اٹکنا یا کسی کسی شعر کے اچانک وزن میں ڈھلتے ہی رقص کی سی کیفیت طاری ہوجانا۔وہ سب کیا تھا!

 

میرا بس چلے تو پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالوں، لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی کے بہانے ہر وہ گناہ، ہر وہ لذت قبول کرنے کی اجازت دے ڈالوں جس سے مجھے اطمینان نصیب ہونے کا امکان ہے۔ایک ایسی دنیا تخلیق کروں،ایک ایسی بستی بساؤں جہاں کی تہذیب ہی غیرتمدنی اور غیر ثقافتی رویے کی قائل ہو۔
لیکن آج یہ سب کھوکھلا سا لگتا ہے، وہ ساری حیرتیں، وہ سارے الفاظ، وہ ساری مشقیں، وہ ساری خوشیاں۔۔۔۔سب ادھر ادھر کہیں اوٹ میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کسی صاحب مکان کی چاپ سنتے ہی چوہے فوراً کونوں کدروں میں چھپ جاتے ہیں۔نہ میں انہیں باہر بلاتا ہوں، نہ وہ کبھی میری موجودگی میں باہر نکلتے ہیں۔یہ کون سی الجھتی سلجھتی کیفیت ہے، جس میں سب کچھ ایک فراڈ سا لگتا ہے، معلوم ہوتا ہے جیسے شاعری کرتے رہنے کے باوجود اس تجربے کی دنیا میں سوائے ایک بے چینی اور بد حواسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگنا ہے۔میں ہر اس چیز کا انکار کررہا ہوں جو کسی نہ کسی بہانے سے مجھے تکمیل یا معراج کی طرف لے جاتی ہے، میرے ہونے کے معراج کی طرف۔اس انتہا کی طرف جس کی طرف میں اپنے بچپن میں تیزی سے بھاگ رہا تھا۔جس کی جانب سے اب میں ایسا متنفر ہوا ہوں کہ میرا بس چلے تو پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالوں، لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی کے بہانے ہر وہ گناہ، ہر وہ لذت قبول کرنے کی اجازت دے ڈالوں جس سے مجھے اطمینان نصیب ہونے کا امکان ہے۔ایک ایسی دنیا تخلیق کروں،ایک ایسی بستی بساؤں جہاں کی تہذیب ہی غیرتمدنی اور غیر ثقافتی رویے کی قائل ہو۔جہاں لوگ کسی بھی اصول، کسی بھی قاعدے اور کسی بھی کھونٹے سے بندھے نہ ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے اس لیے میں نے اپنے باطن کے سماج میں اس نظام کو عائد کردیا ہے۔میں نہتا ہوں مگر بدن کی جنگ کو جیت لینے پر میرا اپنا یقین پختہ ہے اور میں جیت بھی جاؤں گا، بلکہ جیت گیا ہوں۔مگر لفظ ابھی پھیکے ہیں، فن کی دنیا میں جو میں چاہتا ہوں وہی نہیں کرپایا ہوں،وہ جو ایک لفظ ہے، جسے میں جالینا چاہتا ہوں، سورج اتنا بڑا میری آنکھوں کے آگے چمک رہا ہے مگر میں اسے حاصل نہیں کرپا رہا ہوں۔اس آگ میں تو اتر گیا ہوں جس کو کبھی شام کنارے بیٹھ کر بڑی حسرت سے دیکھا کرتا تھا مگر اس سورج میں اتر کرپانی پانی چیخ رہا ہوں۔

 

میری ساری بغاوتیں میرے باطن سے زیادہ میرے ظاہر کی الجھنوں میں ڈوبی ہوئی ہیں، بالآخر میرا مسئلہ فن ہے اور فن میری رگوں سے چٹخ کر جب پھوٹ پڑے، جب لہو کی طرح آنکھوں میں اتر آئے تو میں تھک کر اس دشت میں گرپڑوں، مگر یہ مرحلہ کون طے کرسکا ہے، وہ کیا شے ہے،جس کی مجھے طلب ہے، آخر وہ کون سا شعر ہے، وہ کون سی نظم ہے، وہ کون سی بات ہے جو ادا ہوجائے تو قصہ ختم ہو؟ مگر میں اسے کہاں ڈھونڈنے جاؤں؟ کس طرف نظریں دوڑاؤں؟ سو میری حالت پانی کی تلاش میں ایک پھیلے ہوئے دشت پر بھاگتی ہوئی ہاجرہ کی سی ہوگئی ہے اور بس دور تک ایک تنہائی کا سیلاب ہے، انتظار کی چیخیں ہیں اور نہ وہ دھول ہے جو کسی کارواں کے اس طرف نکل آنے کی خبر سنائے، نہ وہ اندھیرا ہے جو کسی بدری کے بھولے بھٹکے اس جانب نکل آنے کا پیش خیمہ ہو۔

 

ابد تک لفظ کی صورت پکارا جاؤں
میں کس جنگل پہ اے مولیٰ اتارا جاؤں
خوشی ہوگی مری تخلیق کاری کو
خدا ہونے کی کوشش میں جو مارا جاؤں

 

میں اب اپنے آس پاس شاعروں کا ہجوم دیکھتا ہوں تومجھے اس بھیڑ میں ایک ذرا سی اکتاہٹ ہوتی ہے، میں ان جیسے لوگوں میں شمار نہیں ہونا چاہتا جو بس لفظوں کی جوڑ توڑ کو شاعری کا نام دے دیتے ہیں، شاعری دنیا کا مشکل ترین فن ہے، اس کا آسیب جس شخص پر اترتا ہے،وہی اس کی چیخوں کو سن سکتا ہے، وہی سمجھ سکتا ہے کہ استعارے کو خلق کرنا دراصل ایک چوڑی چکلی تاریخ کے سیال کو شکل دینے جیسا ہے، جس کے لیے کچھ عرصہ درکار ہے، لوگ نہیں سمجھتے اور شاید سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی شخص فنکار کیسے بنتا ہے، فنکار ہونا دراصل اپنی تربیت کرتے رہنے کے کرب سے عبارت ہے اور یہ کرب سب کے حصے میں نہیں آتا، ہر شخص Perfect ہونے کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے اور فنکار Perfection سے اتنا ہی بعد رکھتا ہے، جتنا موت کو زندگی سے ہے، دریا کو ٹھہراؤ سے اور ہوا کو حبس سے۔

 

شاعری دنیا کا مشکل ترین فن ہے، اس کا آسیب جس شخص پر اترتا ہے،وہی اس کی چیخوں کو سن سکتا ہے، وہی سمجھ سکتا ہے کہ استعارے کو خلق کرنا دراصل ایک چوڑی چکلی تاریخ کے سیال کو شکل دینے جیسا ہے، جس کے لیے کچھ عرصہ درکار ہے۔
میں ایک جمے ہوئے منظر میں بیٹھا ہوں، جہاں رومی کی ابیات مشرق سے مغرب تک کے منظر نامے پر ایک سحر پھونک رہی ہیں، سعدی کی حکایتیں موسم کی تپتے یا جمتے ہوئے رنگوں کا سبب دریافت کررہی ہیں، حافظ کی غزلیں عشق کا بار امانت سنبھالے ہوئے ہیں، فردوسی کی تیز نظریں محمود غزنی کے دوڑتے ہوئے لشکر سے اڑنے والے دھول کے حسن پر مرکوز ہیں، جائسی اپنے من کے آئنے سے پدماوت کی چھاتیوں کو( جو کہ سلوٹیں تراشتے ہوئے تنگ کپڑوں سے ابلی پڑرہی ہیں)تکے جارہا ہے،سورداس کے بول اس کی روشنی کو ہلکی ہلکی ہوائیں عطا کررہے ہیں، میر کا ملگجا تصوف کسی باریش لونڈے باز صوفی کے تکیے سے ٹک کر بیٹھا ہوا ہے، غالب اپنے سامنے پڑی ہوئی مایوس اور سڑتی ہوئی اموات سے زندگی کے ریشے چن چن کر نکال رہا ہے، اقبال کا اسلوب اپنی تنگ نظری کے باوجود آسمان سے اترا ہوا صحیفہ معلوم ہورہا ہے۔میری نظروں کے آگے سے کلاسیکی شاعروں کا ایک لشکر گزرنا چاہتا ہے، مگر وقت کی باگیں اس کے ہاتھ میں آتے آتے رہ سی گئی ہیں، ترقی پسندوں کے نعرے ان کی حلقوں میں اٹک کر رہ گئے ہیں، رومانویت پسند شاعر کسی عورت کی ساق سیمیں پر نظریں گرا کر خود کو بھول چکے ہیں، جدیدیت آواز کی دیوار سے اپنے حصے کی مٹی کھرچ کھرچ کر الگ کررہی ہے اور باقی بچے لوگ سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں کہ ان کی شناخت خود ان کے اپنے شعروں میں ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، مگر اس جمے ہوئے ماحول میں، میں ہوں کہ مستقل پگھلتا جارہا ہوں۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

پس نوشت: یہ مضمون سیانے شاعر کی گاتھا(سرگزشت) تصنیف حیدر کے شعری مجموعے نئے تماشوں کا شہر کا دیباچہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *