وزیراعظم ہاؤس میں میٹنگ جاری تھی۔ اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں زیادہ تعداد قانونی مشیروں کی تھی۔ ہماری جان پہچان والے کچھ دوست بھی اس اہم میٹنگ میں شریک تھے۔ میاں صاحب نے ہر ایک کی بات غور سے سنی اور ماسوائے چند ایک مختصر جملوں کے باقی وقت خاموش رہے۔ سیاسی اور قانونی مشیروں کی یہ میٹنگ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی اور اس میٹنگ کے تقریباً اسی فی صد افراد نے ایک ہی مشورہ دیا کہ ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ جو اکتوبر کے وسط میں ریٹائرڈ ہونے والے ہیں، کی مدت ملازمت میں توسیع کریں اور کہانی ختم کریں۔ میٹنگ میں شریک ایک صاحب نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں انکشاف کیا کہ میاں صاحب نے ایک مختصر مگر انتہائی اہم جملہ بولا کہ "حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن اصول پر سمجھوتا نہیں ہو گا”۔ مزید گویا ہوئے "یہ توسیع کیوں مانگی جارہی ہے؟ تاکہ مزید کچھ کرنے کا وقت مل جائے”۔ میاں صاحب کے اس جملے پر حاضرین مجلس پر خاموشی طاری ہو گئی۔ اس کے بعد مزید مشاورت میں وکلاء رہنماؤں سے رابطے کیے گیے اور ان کو فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر اور سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضی نے بھی فیصلے کو سراہا۔ یہ توصرف پورے معاملے کا ایک پہلو ہے۔
میاں صاحب نے ایک مختصر مگر انتہائی اہم جملہ بولا کہ "حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن اصول پر سمجھوتا نہیں ہو گا”۔
دوسری طرف ن لیگ کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرنے کے حربے بھی جاری ہیں؛ ہائیکورٹ کا فیصلہ جو کہ متوقع تھا، کو بطور حربہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ جولائی کے وسط میں میاں برادران کو ان کی وکلا کی ٹیم نے تفصیل سے آگاہ کر دیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ درج ہونا اٹل ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سترہ جون کو ہونے والے اس واقعے کی پہلی درج شدہ ایف آئی آر میں پولیس نے چودہ ہلاکتوں کا ذکر ہی نہیں کیا۔ عجلت میں کی گئی یہ ایف آئی آر حکومت کے گلے پڑنا ہی تھی۔ اس ضمن میں حکومت کی حکمت عملی بھی پہلے سے طے تھی۔ اطلاعات کے مطابق میاں برادران اور وزرا کو تفتیش میں ہی بے گناہ قرار دے کران کی حد تک مقدمہ خارج کر دیا جانا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوئی؟ جواب ہے رانا ثنااللہ! رانا ثنااللہ کے عہدے سے ہٹنے کے بعد ان کے مخالف کیمپ کے رانا مشہود کو وزیر قانون کی مسند دے دی گئی جس کے باعث رانا ثنااللہ کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے ایف آئی آر کی مخالفت شروع کر دی۔
ایف آئی آر کے معاملے پر میاں صاحب اس وقت دوقانونی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ ایف آئی آر درج نہ کروانے والوں کی دلیل میں زیادہ وزن نہیں۔ گو جسٹس آف پیس کے آرڈر میں اختیارات سے تجاوز کیا گیا لیکن وہ اتنا زیادہ نہیں کہ چودہ مرنے والوں کی ایف آئی آر ہی درج نہ ہو۔ حکومت کے اکثریتی ماہرین قانون ایف آئی آر کے خلاف اپیلوں میں نہ جانے کا کہہ رہے ہیں لیکن اقلیتی رائے جس کی سربراہی رانا ثنا اللہ کرہے ہیں وہ انٹرا کورٹ اپیل اور پھر سپریم کورٹ میں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایف آئی آر کے معاملے پر میاں صاحب اس وقت دوقانونی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ ایف آئی آر درج نہ کروانے والوں کی دلیل میں زیادہ وزن نہیں۔ گو جسٹس آف پیس کے آرڈر میں اختیارات سے تجاوز کیا گیا لیکن وہ اتنا زیادہ نہیں کہ چودہ مرنے والوں کی ایف آئی آر ہی درج نہ ہو۔ حکومت کے اکثریتی ماہرین قانون ایف آئی آر کے خلاف اپیلوں میں نہ جانے کا کہہ رہے ہیں لیکن اقلیتی رائے جس کی سربراہی رانا ثنا اللہ کرہے ہیں وہ انٹرا کورٹ اپیل اور پھر سپریم کورٹ میں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ن لیگ شریف برادران کے استعفوں اور ایک ایجنسی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے مطالبات کوماننے کے لیے بالکل تیار نہیں اور اس حوالے سے وہ بہت ہی واضح ہیں۔
حکومت کو مشورہ دینے والے ثالث اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عوامی تحریک کو کسی طریقے سے ایف آئی آر اور شہباز شریف کا استعفیٰ لے کر اس کہانی سے نکالا جائے تو خان صاحب سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ایسے میں کئی دلچسپ فارمولے بھی پیش کیے جارہے ہیں جن میں خان صاحب کو شریک اقتدار کرنے کی باتیں بھی شامل ہیں لیکن یہ ساری آفرز حکومتی کیمپ سے نہیں بلکہ ثالث فریقوں کی طرف سے آرہی ہیں۔
ڈیڈلاک کے اصلی مسئلے کے حوالے سے آرمی چیف کے ساتھ حالیہ تین ملاقاتوں میں میاں صاحب سکرپٹ رائٹرز کا گلہ کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سے میاں صاحب کو ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ ہماری طرف سے بے فکر رہیں لیکن آئینی طور پر سکرپٹ رائٹرز کے باس آپ ہی ہیں لہذا یہ معاملہ آپکو ہی حل کرنا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ن لیگ شریف برادران کے استعفوں اور ایک ایجنسی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے مطالبات کوماننے کے لیے بالکل تیار نہیں اور اس حوالے سے وہ بہت ہی واضح ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام جمہوری قوتوں کی صف بندی بھی مکمل کر لی ہے۔
جمہوری قوتوں کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے بھی سکرپٹ رائٹرز تابڑ توڑ حملے شروع کر چکے ہیں۔ اس حوالےسے جوپہلا خطرہ نواز کیمپ پہ منڈلا رہا ہے وہ ایم کیو ایم ہے۔ اسی حوالےسے جمہوری فرنٹ کا یہ کنارہ بچانے کے لیے نواز شریف خاص توجہ دے رہے ہیں۔
اس صورت حال سے ایک بات واضع ہے کہ کہانی جوں کی توں ہے اور کوئی بھی فریق اس بات پر واضع نہیں کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نکلے گا۔
ڈیڈلاک کے اصلی مسئلے کے حوالے سے آرمی چیف کے ساتھ حالیہ تین ملاقاتوں میں میاں صاحب سکرپٹ رائٹرز کا گلہ کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سے میاں صاحب کو ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ ہماری طرف سے بے فکر رہیں لیکن آئینی طور پر سکرپٹ رائٹرز کے باس آپ ہی ہیں لہذا یہ معاملہ آپکو ہی حل کرنا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ن لیگ شریف برادران کے استعفوں اور ایک ایجنسی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے مطالبات کوماننے کے لیے بالکل تیار نہیں اور اس حوالے سے وہ بہت ہی واضح ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام جمہوری قوتوں کی صف بندی بھی مکمل کر لی ہے۔
جمہوری قوتوں کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے بھی سکرپٹ رائٹرز تابڑ توڑ حملے شروع کر چکے ہیں۔ اس حوالےسے جوپہلا خطرہ نواز کیمپ پہ منڈلا رہا ہے وہ ایم کیو ایم ہے۔ اسی حوالےسے جمہوری فرنٹ کا یہ کنارہ بچانے کے لیے نواز شریف خاص توجہ دے رہے ہیں۔
اس صورت حال سے ایک بات واضع ہے کہ کہانی جوں کی توں ہے اور کوئی بھی فریق اس بات پر واضع نہیں کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نکلے گا۔
مگر کیا ملازمت میں توسیع اس سارے کھیل کا واحد محرک ہے؟ اور جو صاحب توسیع چاہتے ہیں، ان کے دوسرے مشن کیا ہیں؟
Establishment is behind these marches and dramas to down Nawaz as always. http://online.wsj.com/articles/pakistani-leader-sharif-nears-pact-with-military-1409186231?tesla=y&mg=reno64-wsj&url=http://online.wsj.com/article/SB10001424052970203937904580117993977956322.html
مدت ملازمت میں توسیع کوئی اہم معاملہ نہیں ہے.
بہت اچھا تجزیہ ہے رائے شاہنواز۔
Lanat teray tajziye tay … time he waste kita eee lafafay
haha @ BinFAR
The issue of extension has been over exaggerated here, the whole thing does not revolve around extension