ہمارے ہاں انتخابات محض عوامی نمائندوں کا چناو نہیں رہتے بلکہ ایک معرکے، ایک جنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہارنے والا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور جیتنے والے سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں وہ غل غپاڑہ کرتے ہیں گویا دشمن کی فوجوں کو تہس نہس کر دیا گیا ہو۔ 21جولائی جمععرات رات گئے تک پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نون لیگ کا جشن بھی روایتی طوفانِ بدتمیزی کا مظہر تھا۔ یہ جشن تھمے نہ تھمتا تھا۔ 22 جولائی کی صبح کیا ہوئی کہ لیگی کارکنان کچی پکی سڑکوں پر پہلے بپھرے اور پھر بکھر پڑے۔ شارع عام سے اپنے بے قابو ہجوم کو گزارتے ہوئے ہر لنک روڈ کی چھاتی روندنا بهی ضروری سمجھا گیا، راستے میں آنے والے پھول بوٹے روند دیے گئے۔ باجوں، سیٹیوں اور نعرہ بازی کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اس ہجوم سے باری باری کوئی ایک بلند آواز نوجوان معدے کی گہرائیوں سے "رگڑے تے رگڑا” کا بے ہنگم نعرہ بلند کرتا تو پورا ہجوم "دے رگڑا” پکارتا اور کود پڑتا۔ اسی منہ زور چیخ کاری میں جبڑے حتی الامکاں کشادہ کیے گئے اور زبانیں امکان بهر دراز کی گئیں اور پھر لٹکائی گئیں۔

ہارنے والا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور جیتنے والے سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں وہ غل غپاڑہ کرتے ہیں گویا دشمن کی فوجوں کو تہس نہس کر دیا گیا ہو۔
اس بے رحم کارروائی کے بعد کسی چیخ کار سے گفتگو کا موقع ملا تو اس کا گلا صاف آواز فراہم کرنے سے مکمل قاصر ہو چکا تها۔ حلق کی نرم و ملائم شریانیں زخمی کر دینے والی خوشی کے اس انوکھے انداز کو دیکھنے فرشتے قطار اندر قطار اترنے لگ گئے تھے۔ قبروں کے مکین لاحول پڑھتے اٹھ بیٹھے اور آسمان سے حورو ملائک حیرت سے زمین کو تکنے لگے۔ یہ سلسلہ اذان جمعہ تک نہ تھمتا تو مبادا خدا کی دھرتی فرشتوں سے بھر جاتی. لوگ روح القدس کو مصافحہ کرتے یا میکائیل آمین سے گلے ملتے۔

میں بتانا بھول گیا کہ یہ خوشی ہمارے حلقے سے ایک نون لیگی عمر رسیدہ بزرگ کے الیکشن جیتنے کی خوشی تھی۔ میں عرصہ سے خدا کے بندوں کو متوجہ کر رہا ہوں کہ ہم انسانی شرافت، وضع داری اور رکھ رکھاو بھول چکے ہیں۔ انسانی شرافت و وقار مدت ہوئی ہم سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہم وہ لوگ بن چکے ہیں کہ قابل بھروسہ رہے نہ قابل اعتماد۔ جھوٹ ہمارا شعار اور اخلاقی پستی ہماری پہچان بن چکی ہے۔ خوشی کا موقع ہو یاغمی کا، اخلاقی پستیوں تک اتر جانے میں ہم ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ پیارے شیرو! تم نے محنت کی امیدیں باندھیں توقعات کا سماں باندھا سو رب نے تمہاری لاج رکھی تمہارا نمائندہ کامیاب ٹھہرا، اب تمہیں یہ حق ہے کہ اپنی بے قابو خوشی کو کہیں ظاہر ہونے کا موقع دو۔

خوشی کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں کہ غلاظت کی طرح چھپا لی جائے۔ یہ خدا کی ایسی نعمت ہے جو جتنی ظاہر ہو خدا کی دهرتی پہ مایوس بندوں کے لبوں پر بهی تبسم بکهیردیتی ہے۔
خوشی کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں کہ غلاظت کی طرح چھپا لی جائے۔ یہ خدا کی ایسی نعمت ہے جو جتنی ظاہر ہو خدا کی دھرتی پہ مایوس بندوں کے لبوں پر بھی تبسم بکھیر دیتی ہے۔ کسی روتے انسان کو دیکھ کر آپ اتنے جلدی آنسو نہیں بہا سکتے جتنے جلدی کسی ہنستے چہرے کو دیکھ کر آپ بهی اس کی ہنسی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ آس پاس 3 انسان ہنس رہے ہوں تو باقی 7 بھی ہنسی روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یعنی خوشی ظاہر ہوتی ہے تو گرد و پیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مگر یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب خوشی کا صدور کسی مہذب وجود سے ہو رہا ہو۔ بد تہذیبی کے مجسمے خوش ہوں بھی تو اپنی جیت پر نہیں دوسروں کی ہار پر خوش ہوتے ہیں۔ انسانی شرف سے محرومی کے بعد آپ کی خوشی کا اس سے بہتر سبب اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ آپ کا حریف پریشانی میں ہے۔ میرے قصبے کے نون لیگی جوان (چند کے استثناء کے ساتھ) خوش تھے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن آج مایوس ہیں۔ اپنے مایوس حریفوں کو چڑانے بارودی گولوں کے ہمراہ اس ہجوم کا رخ پی پی ورکرز کے گھروں کو ہو لیا۔ جہاں کسی پی پی ورکر کا گھر نظر آیا وہیں بارودی گولے داغ ڈالے گئے اور ساتھ میں نعرے بلند ہوتے اور شدت پکڑتے چلے گئے۔ یہ ہجوم ایک ایک پی پی کارکن کے گھر رکا رہتا اور اخلاق و مروت کو مکمل روند لینے سے قبل آگے نہ بڑھتا تها۔ پی پی ورکرز کے نام لے لے کر "دھر رگڑا” کی قوالی چھیڑی جاتی اور اور پورا ہجوم محو رقص ہو کر”دے رگڑا” کہہ اٹھتا تھا۔ سردارمنور صاحب، ماسٹر عبدالحمید صاحب، کامران صاحب اور طارق محبوب و طارق اعوان صاحبان جیسے علاقہ کے لائق احترام انسانوں کے نام لے لے کر خوشی کے جوتے مارے گئے۔ پی پی کے کئی شریف انسان اس روز گھر اور دکانیں چھوڑ کر خوشی سے بے قابو ہجوم کی نظروں سے اوجھل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس ہجوم کی نظروں سے اوجھل ہوئے بغیر پی پی ورکرز کے لیے اپنی عزت نفس کو بچا لینا ممکن نہ رہا تھا۔

ایک نون لیگی عزیز کا کہنا تھا یہ گولے ماسٹرحمید کے گھر پھاڑ کر دل کو ٹھنڈا کروں گا۔ پی پی سپوٹر ماسٹر عبدالحمید صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ہجوم میری تلاش میں تھا۔ میں نظریں بچاتے ہوئے گزر رہا تھا کہ اس نے میرا احاطہ کر ڈالا۔ یوں علاقہ کے ایک معزز استاذ کی عزت نفس کو روندنے میں بھی یہ ہجوم کامیاب رہا۔ ہم شرمندہ کر کے اور دوسروں کو نیچا دکھا کر ہی اپنی برتری کا احساس مزید پختہ کرتے ہیں۔

ویسکوٹس میں ملبوس معزز معمر لیگی خاموش تائید کی راہ سے اس کارروائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اب کس کی ہمت جو کسی ادنی جرم کی نسبت کسی بزرگ ہستی کی طرف کر پائے۔ نون لیگ کا کہنا ہے وہ سڑکیں بنا لے گی میں پر امید ہوں کہ وہ ایسی شہرت ضرور رکھتی ہے، دهرتی پہ نظر آ سکنے والے کاموں میں نون لیگ کا کوئی ثانی ہماری سیاسی جماعتوں میں کم از کم میری نظر میں کوئی اور نہیں۔

خوشی میں بے قابو ہجوم کو خوش ہونے کے بہانے علاقہ کے شریف انسانوں کی عزت نفس روندے کی اجازت دے دی جائے گی؟
تو کیا سٹرکیں بنانے کی شہرت اور وعدوں کے عوض، اخلاق و مروت کو کچل لینے کا حق بهی نون لیگ کو دے دیا جائے گا؟ خوشی میں بے قابو ہجوم کو خوش ہونے کے بہانے علاقہ کے شریف انسانوں کی عزت نفس روندے کی اجازت دے دی جائے گی؟

میرے عزیزالمرتب ان شیروں کے جذبات مجھے بخدا بھاتے ہیں پر مگر دکھ ہوتا ہے جب یہی شیر اخلاقیات کو پنجے مارتے، انسانی شرافت کو پھاڑتے اور عزت نفس کو چیر ڈالتے ہیں۔

میرا کہا، ڈر ہے کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی غلط سمجھنے والے نون لیگ کی صفوں سے برآمد ہو کر رہیں گے، مجھے مگر امید ہے نون کی صفوں میں غیاث خان، طیب باسم، سہیل فیاضی اور سالک انور جیسے سنجیدہ بھائیوں جیسے دوستوں سے، وہ معاملہ کی سنگینی کو سمجھیں گے اور نوجوانوں کے اس بے ہنگم طرزِ عمل اور انسانی شرافت کے انتقال کے دکھ میں میرے ساتھ شریک رہیں گے۔ ٹوٹی ہوئی اور پھر کھنڈرات میں بدلی ہوئی سڑکیں بخدا بری ہیں پر ٹوٹی ہوئی کھنڈر شخصیتیں بد ترین ہیں۔ ہمیں مل کر خدا کے بندوں کواخلاقی پستی کی گہرائیوں میں گرنے سے بچانے کی اپنی سی کوشش کرنی ہے۔ یقیناً اس سب کا کسی اور سے پہلے مخاطب میں خود ہوں۔ یوں تو ہمارے نوجوان پڑھتے لکھتے کم ہی ہیں مگر اس تحریر کے مدعا تک پہنچنے میں ناکام دماغ کچھ بعید نہیں کہ تحریر کا برا مناتے ہوئے مزید بپھر جائیں، ان کے پنجے تیز اور داڑهیں زہر آلود ہیں، انسانی شرافت خطرے میں ہے ،خدایا بس تجهی سے رحم کی اپیل ہے۔

Leave a Reply