Laaltain

سیاسی اسلام کی ناکامی

6 اگست، 2016

[blockquote style=”3″]

عبدالمجید عابد کا یہ مضمون دی نیشن کی ویب سائٹ پر شائع ہو چکا ہے، جسے ترجمہ کر کے لالٹین قارئین کے لیے پیش کیا جا ریا ہے۔

[/blockquote]

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو (تادمِ تحریر) دوہفتے سے زائد وقت گزر چکا ہے، صدر اردگان کی قیادت میں اقتدار پر اے کے پارٹی کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے۔ گزشتہ تین برس (2013 میں غازی پارک احتجاج سے 2016 میں نکام ترک فوجی بغاوت تک) کے دوران یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ابتدائی اندازوں کے برعکس اے کے پارٹی کا ترقیاتی ماڈل بہت زیدہ کامیاب نہیں رہا۔ نو گیارہ کےبعد کی دنیا میں یورپی طاقتیں اور امریکہ ایسے مسلم اتحادیوں کے تلاش میں تھے، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغربی تصورات کو تسلیم کرتے ہوں اور سرمایہ دارانہ نظم میں شریک ہوں۔ مسلم اکثریتی آبادیوں پر مشتمل ممالک کی اکثریت پر حکمران بادشاہتوں اور مفلوج جمہوریتوں کے باعث ایسے اتحادیوں کا ملنا آسان نہیں تھا۔اسی عرصےمیں ترکی تبدیلی کے ایک بڑےعمل سے گزر رہا تھا۔ اسلام پسند جماعت اے کے پارٹی نے 2002 کے عام انتخابات باآسانی جیت لیے تھے۔ مصطفیٰ کمال نے 1924 میں ترکی کو 1924 میں ایک سیکولر جمہوریی ریاست قرار دیا تھا۔ عثمانی خلافت کے خاتمے پر ریاستی سرپرستی میں سیکولر اقدر کی ترویج کا عمل شروع کیا گیا۔ 1950 اور 1960 کی دہائی میں محنت کش طبقات سیاسی دھارے کا حصہ بنے اور (سی آئی اے کے تعاون سے قائم ہونے والی) فوجی حکومت نے بائیں بازو کی جماعتوں اور عہدیداران کو بری طرح تہ تیغ کیا۔ اس فوجی حکومت نے بائیں بازو کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام پسندوں کی بھی سرپرستی کی۔ اے کے پارٹی کا ظہور بھی 1980 کی دہائی کی اسلام پسند جماعتوں کے بطن سے ہوا ہے۔ اے کے پارٹی ملک کو کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار جمہوری راستے پر آگے بڑھانے کی داعی ہے۔

 

نوگیارہ کےبعد کی دنیا میں یورپی طاقتیں اور امریکہ ایسے مسلم اتحادیوں کے تلاش میں تھے، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغربی تصورات کو تسلیم کرتے ہوں اور سرمایہ دارانہ نظم میں شریک ہوں۔
‘مغربی’ طاقتوں کے لیے یہ ترقی بے حد متاثر کن تھی اور انہوں نے اس ‘ترکی ماڈل’ کو مسلم اکثریتی ممالک کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2004 میں اسنتبول میں ایک تقریر کرتے ہوئے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی حمایت کی۔ یورپی تھنک ٹینکس کی جانب سے تُرک جمہوریت کی مدح میں متعدد رپورٹیں شائع کی گئیں۔ رابرٹ کپلن نے 2014 میں لکھا کہ، ‘مراکش سے انڈونیشیا تک کے مسلمانوں کی اکیسویں صدی کے سماجی اورسیاسی حقائق سے مفاہمت کے لیے اردگان کا جدید اصلاح پسند اسلام واحد امید ہے’۔تیونس اور مصر میں 2011 کی عوامی تحریکوں کے بعد متعدد مقامی اور بین الاقوامی مبصرین نے ان علاقوں میں ترکی کی طرز پر جمہوری حکومتوں کے قیام کی امید ظاہر کی۔ 2011 میں اکانومسٹ کے ایک اداریے میں یہ دعویٰ کیا گیا: ‘شمالی افریقہ سے خلیج تک، پورا خطہ تُرک لمحے سے گزر رہا ہے۔”تاہم عرب بہار سے متاثر ہونے والا کوئی بھی ملک ترکی کے نقشِ قدم پر نہیں چل سکا۔

 

پروفیسر جیہان توگل نے اپنی کتاب، ‘The Fall of Turkish Model: How the Arab Uprisings brought down Islamic Liberalism’ میں تُرک ماڈل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جیہان توگل نے تُرکی کے ترقیاتی ماڈل کی ابتدائی کامیابی اور دیگر مسلم ممالک میں اس پر عملدرآمد میں ناکامی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں اسے اسلامی لبرل ازم قرار دیا ہے، انہوں نے اسلامی لبرل ازم کے اس تُرک ترقیاتی ماڈل ‘رسمی جمہوریت، آزاد منڈی اور روایتی اسلام کے مابین بندھن’ سے تعبیر کیا ہے۔ ملائیشیا جیسے ممالک کے برخلاف یہ ماڈل ‘آزاد معیشت اور لبرل جمہوریت’ کا کامیاب امتزاج تھا۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ترک سیاسی و ترقیاتی ماڈل کو ابتداء سے ہی ایران کے نیم ملائیت پر مبنی نظم کے رد کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ایران اور ترکی تاریخی طور پر عثمانی خلافت کے زمانے سے ہی مشرقِ وسطیٰ میں عسکری اور اقتصادی بنیادوں پر ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔

 

ایران اور ترکی تاریخی طور پر خلافتِ عثمانیہ کے زمانے سے ہی مشرقِ وسطیٰ میں عسکری اور اقتصادی بنیادوں پر ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔
اس ترقیاتی ماڈل میں بنیادی عامل کا کردار اے کے پارٹی کا ہے۔ اے کے پارٹی ‘آئین کے سیکولر اصولوں سے مطابقت برقرار رکھتے ہوئے سیاسی اسلام کے، ایک قدامت پرست جمہوری جماعت میں ڈھلنے’ کی مظہر ہے۔ یہ تجربہ بہت حد تک ترکی کے سیاسی و سماجی ماحول سے مخصوص ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک میں اسے اس کامیابی سے دہرایا نہیں جا سکا۔ پروفیسر توگل اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ‘نیو لبرل ازم اور جمہوریت بذریعہ اسلام اسی (ترُک) سیاق و سباق سے مخصوص ہے اور دیگر ممالک میں برآمد نہیں کیا جا سکتا’۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ دنیا نے اس ترقیاتی ماڈل کی پذیرائی ایرانی طرز حکمرانی کا متبادل پیش کرنے کے لیے کی جو سرکاری تجارتی اداروں کے قیام اسلامی انقلاب کا آمیزہ ہے۔ اپنی ابتداء سے ہی تُرک ترقیاتی ماڈل ترکی کے حالات سے مخصوص رہا ہے اور اس میں مذہبی اور ثقافتی کا مقامی تسلسل موجود تھا۔

 

پروفیسر توگل تُرک ترقیاتی ماڈل اور اس کے زوال کا مطالعہ اطالوی مفکر انتونیو گرامشی کے وضع کردہ اصولِ ہائے شرح کے تحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ گرامشی کے مطابق ‘انفعالی انقلاب’ ایک طرح کا تجدیدی انقلاب ہوتا ہے، جس میں میں تحریک اور جمود کی قوتوں کا امتزاج کارفرما ہوتا ہے۔ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے درمیانی عرصے (1918 تا 1938) میں سابق سرخوں، سرکاری اہلکاروں اور متوسط طبقات، محنت کش طبقے اور اشتراکیت پسندوں کا پیچھا شکاری کتوں کی طرح کرتے رہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ اطالوی انقلاب نے پہلے پہل غالب طبقات کی شیرازہ بندی کی اور بعد ازاں جمود کے شکار اطالوی سرمایہ دارانہ نظام کو رواں کیا۔ اور بالآخر پورے ملک کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ تُرکی نے اس انفعالی انقلاب کا زمانہ عروج دیکھ لیا ہے اور اب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کے راستے پر گامزن ہے۔

 

عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد مولانا مودودی اور حسن بناء کا وضع کردہ ‘سیاسی اسلام’ کا نظریہ متنوع سیاسی اور سماجی حالات کے حامل متعدد ممالک میں ناکام ہو چکا ہےاور اب اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کی ضرورت ہے۔
کارنیگی انڈوومنٹ کے زیراہتمام شائع کیے گئے ایک مقالے میں بہارِ عرب کے نتیجے میں ابھرنے والی اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے: ‘مقابلتاً لبرل اسلام پسند تحریکیں (تیونس،اردن اور مصر) بڑی سرمایہ کارانہ قوتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کو قبول کرنے میں اے کے پی پارٹی کی نسبت سست رہیں، ان تحریکوں کی تمام تر توجہ درمیانے اور چھوٹےدرجے کے کاروباری طبقات پر رہی۔ حالانکہ بہارِ عرب سے پیدا ہونے والی لبرل قوتوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ اے کے پی کی طرز پر ایک گہرے، مسلسل اور خالص نیولبرل ترقیاتی ماڈل کو اپنانا تھا۔ پاکستان اور مصر کی اسلام پسند سیاسی جماعتیں (جماعتِ اسلامی اور اخوان المسلمون) طویل عرصے سے اپنے اپنے ملکوں میں ترکی کے سیاسی و ترقیاتی ماڈل کی طرز پر حکومتیں قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ تازہ ترین شواہد کے مطابق یہ خواب مستقبل قریب میں پورا ہونے والا نہیں۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد مولانا مودودی اور حسن بناء کا وضع کردہ ‘سیاسی اسلام’ کا نظریہ متنوع سیاسی اور سماجی حالات کے حامل متعدد ممالک میں ناکام ہو چکا ہےاور اب اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *