1965 کی جنگ میں گائے گئے گیت” جنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دا”کا سب سے تکلیف دہ پہلو اس گیت کے بول” جنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دا”کا خواتین سے ہی گوایا جانا ہے۔ یہ گیت اس مخصوص پس منظر میں مزید اہم ہوجاتا ہے جب 1965 کی جنگ سے چند ماہ قبل فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب ہرانے کے لئے عورت ہونے کی وجہ سے ان کے حکمران بننے کو شرعی نقطہ نگاہ سے غلط قرار دیا گیا تھا۔ عورت کی سیاست اور حکومت میں شمولیت کو جس مردانہ نقطہ نظر سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم معاشروںمیں دیکھا جاتا ہے اس کا کھل کر اظہار فاطمہ جناح کے انتخاب لڑنے سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ ہی پاکستانی سیاست میں ہوتا آیا ہے۔ نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، کلثوم نواز، مریم نواز،شیری رحمان، حنا ربانی کھر اور شمائلہ فاروقی سمیت ہر عورت کو سیاست میں حصہ لینے پر ان کے عورت ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں طاقت ور خاتون سیاستدانوں کی موجودگی کے باوجود اب تک ان ممالک میں عورت کے سیاسی کردار پر مذہب اور جاگیردار معاشرہ کی روایات کی بنیاد پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ ان اعتراضات کے باعث عورتوں کی سیاست میں شمولیت محض جلسوں، دھرنوں اور اجلاسوں کی رونق بڑھانے تک محدود ہو چکی ہے۔ تکلیف دہ امر خاتون سیاستدانوں کو ان کی کشش اور خوب صورتی بنیاد پر پرکھنا ہے، کشمالہ طارق، ماروی میمن اور مریم نواز سمیت تمام خوبرو خاتون سیاستدانوں کو مردوں کی طرف سے جس شہوت انگیز اور ہوس پرست رویہ کا نشانہ بنتی ہیں وہ شرمناک ہے۔
بلاول کے ڈھنگ اور چلن پر خواجہ سرا ہونے یا ہم جنس پرست ہونے کے الزامات کے تحت اعتراضات نہ صرف گھٹیا بلکہ معاشرے میں ہم جنس پرست مردوں، خواجہ سراوں اور عورتوں کے مقام اور مرتبہ کی پستی کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔
مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر عورت کو سیاست اور سیاسی عمل سے دور رکھنے کا عمل ابھی رکا نہیں، بلکہ مسلم معاشروں میں عورت کی سیاسی شمولیت کی راہ میں رکاوٹیں بڑھی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات کے دوران انتخاب لڑنے اور اسمبلی تک پہنچنے والی خواتین کی تعداد کم ہوئی ہے اور بعض مقامات پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا بھی گیا ہے۔تحریک انصاف کے جلسوں اور دھرنوں میں خواتین کی شرکت اور ان کے ناچنے گانے پر اعتراضات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں، ہم عوامی مقامات اور سرکاری اور عہدوں پر عورت خصوصاً ایک کامیاب اور ہنستی، مسکراتی، پر اعتماد عورت کو دیکھنے اور برداشت کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔
حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کی چال ڈھا ل اور بول چال کو نسوانی ہونے کی بناء پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ تضحیک محض لطائف نہیں بلکہ اس مردانہ ذہنیت کا اظہار ہیں جس کے تحت عورت اور عورت جیسا طرزعمل رکھنے کو کم تر اور کم زور سمجھا جاتا ہے۔ لطائف یقیناً سماجی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ انہیں اگلی نسلوں کو منتقل بھی کرتے ہیں۔بلاول کے ڈھنگ اور چلن پر خواجہ سرا ہونے یا ہم جنس پرست ہونے کے الزامات کے تحت اعتراضات نہ صرف گھٹیا بلکہ معاشرے میں ہم جنس پرست مردوں، خواجہ سراوں اور عورتوں کے مقام اور مرتبہ کی پستی کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔ پاکستانی معاشرہ کی قدیم، مذہبی اور جاگیردارانہ روایات مردوں کوعورتوں جیسا طرزعمل اختیار کرنے سے محض اس لئے منع کرتی ہیں کیوں کہ اس معاشرہ میں عورت مرد سے کم تر ہے اور سمجھی جاتی ہے ہمسایہ ملک ہندوستان میں راہول گاندھی پر بھی ایسے ہی اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں۔ہر مرد اور عورت کو اپنے ظاہری حلیہ کے انتخاب کا حق ہے اور سیاستدانوں کو ان کے حلیہ کی بجائے ان کی کارکردگی پر پرکھنے کی روایات ڈالنا بہت ضروری ہے۔
بےنظیر بھٹومرحومہ کا خود کو بےنظیر زرداری اور مریم نواز کا خود کو مریم صفدر قرار نہ دینا ایک ایسا فیصلہ ہے جو ہر عورت کو کرنا چاہئے۔ یہ صرف سیاسی فیصلے ہی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ عورت کسی کی ملکیت نہیں اور شوہر یا باپ کی شناخت عورت کو پہچان نہیں دیتے بلکہ عورت اپنی پہچان کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔
ایک طرف جہاں معاشرہ مردوں کو "عورت جیسا” لگنے سے منع کرتا ہے وہیں عورت کو "مرد جیسا” لگنے سے بھی روکتا ہے۔ ایسی تمام عورتیں جو خود فیصلہ کرنے، اپنی شناخت بنانے، مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے اور مردوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ "مرد” نہیں ہو سکتیں کیوں کہ وہ کم تر صلاحیت، عقل اور اہلیت کی حامل ہیں، صنف (Gender) سےمتعلق ایسے منجمد رویے جو عورت کو ایک کم تر عورت اور مرد کو ایک برتر مرد بنائے رکھنے پر مُصر ہیں،عورت اور مرد کی برابری اور عورتوں کو حقوق کی فراہمی میں اصل رکاوٹ ہیں۔ ایسے رویہ اور رواج یقیناً تبدیل کئے جانے چاہئیں اور اجتماعی اور انفرادی سطح پر رد کئے جانے چاہئیں۔
بلاول پر اپنی ماں کی ذات بھٹو استعمال کرنے اور مریم نوازپر اشادی کے بعداپنا نام مریم صفدر نہ کرنے پراعتراض کیا جاتا ہے جو قطعی بے جا ہے۔ یہ امر قابل ستائش ہے کہ ایک مرد اپنے باپ کی بجائے اپنی ماں اور نانا کی شناخت کو اپنانا چاہتا ہے اور ایک عورت اپنے اصل نام کو شادی کے بعد تبدیل کرنا نہیں چاہتی۔ اگرچہ یہ سیاسی فیصلہ ہیں لیکن ان کی حوصلہ افزائی مزید مردوں اور عورتوں کو اپنی ماں یا اپنے وجود کا شناخت بنانے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا خود کو بھٹو کہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک ماں کااپنی اولاد پر باپ سے کم نہیں بلکہ زیادہ حق ہے اور اپنی ماں کو شناخت بنانا کوئی قباحت نہیں۔اسی طرح بےنظیر بھٹومرحومہ کا خود کو بےنظیر زرداری اور مریم نواز کا خود کو مریم صفدر قرار نہ دینا ایک ایسا فیصلہ ہے جو ہر عورت کو کرنا چاہئے۔ یہ صرف سیاسی فیصلے ہی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ عورت کسی کی ملکیت نہیں اور شوہر یا باپ کی شناخت عورت کو پہچان نہیں دیتے بلکہ عورت اپنی پہچان کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔

4 Responses

  1. Jahangir

    there is now doubt that homosexuals are the worst of their kind. even animals don’t that disgusting stuff what human beings are doing now days, and people who support homosexuality are simply shameless.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: