Laaltain

سکاٹش علیحدگی ریفرنڈم: اقتصادی پس منظر اور بایاں بازو

23 ستمبر, 2014
Picture of ڈاکٹر امجد ایوب مرزا

ڈاکٹر امجد ایوب مرزا

18 ستمبر 2014ء کا دن سکاٹش سیاست میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے طلوع ہوا۔ اس دن سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا جس میں ووٹروں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یونائیٹڈ کنگڈم کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ریفرنڈم کے حوالے سے یو کے میں دو متحارب سیاسی کیمپ تشکیل پائے۔ ایک یس (Yes) کیمپین اور دوسرا نو (No) کیمپین کے نام سے ریفرنڈم پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی مہمات چلانے لگے۔ ریفرنڈم کے لیے چلائی جانے والی مہم میں برطانیہ کی لیبر پارٹی، حکمران ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ نے ‘ساتھ ہی بھلے’ (Better Together) کے نام سے سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ جبکہ سکاٹش نیشنل پارٹی، سکاٹش سوشلسٹ پارٹی، ریڈیکل انڈی پنڈنٹ پارٹی اور دیگر چھوٹے سیاسی گروپس کو ساتھ ملا کر یس مہم کا محاذ ترتیب دیا۔
18، 19 ستمبر کی شب کو آنے والے نتائج میں No مہم نے 55 فیصد اور Yes نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یوں ریفرنڈم کے نتیجے کے طور پر سکاٹش عوام نے یو کے کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دے کر سکاٹش قوم پرستوں کو شکست دے دی۔ ان سطور میں ہم سکاٹش قوم پرستی، ایس این پی کی تاریخ اور ریفرنڈم کے نتائج پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ ریفرنڈم کا مطالبہ کیوں زور پکڑنے میں کامیاب ہوا اور اس میں حصہ لینے والے ووٹرز کی طبقاتی حیثیت کے حوالے سے کیا تصویر سامنے آئی اور کس طرح سکاٹ لینڈ میں سیاسی بیداری کے ساتھ ساتھ ایس این پی کی مصالحت پسندانہ پالیسیوں نے عوام کے ایک بڑے حصے کو No
ستر کی دہائی میں پیٹرول کی قیمت ڈرامائی طور پر دوگنی ہو گئی۔ سکاٹ لینڈ میں اسی عرصہ میں دریافت ہونے والے تیل کی وجہ سے سیاسی طور پر سکاٹ لینڈ کو پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا کہ وہ بعد از جنگ عظیم جاری خوشحالی میں آنے والی رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں۔
کی طرف دھکیل دیا۔
ایس این پی کا قیام 1935ء میں اس وقت عمل میں آیا جب پورے یورپ کے سیاسی افق پر فاشزم کے گھنے بادل چھا رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور سکاٹش، ویلش، انگلش اور آئرش سبھی برطانوی سامراج کی لوٹ مار میں سلطنت کے معاونین تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ کا سامراجی کردار ان تمام قوموں کے درمیان ایک مشترکہ قومی شناخت کی بنیاد بنا۔ لیکن جنگ عظیم کے بعد جب برطانوی سلطنت سکڑی تو مذکورہ بالا قوموں کو جوڑنے والی سامراج کی اکائی، نوآبادیاتی جنگوں کے بارودی دھوئیں میں تحلیل ہو گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا اجراء کر کے برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد رکھی۔ مفت علاج کے لیے نیشنل ہیلتھ سروس، یا بے روزگاری الاؤنس، کونسل مکانوں کی تعمیر کے ذریعے سستے گھروں کی فراہمی، مفت تعلیم اور مستقل روزگار ایسی اصلاحات تھیں جن کے باعث بعد از جنگ برطانوی عوام کا معیار زندگی تیزی سے بلند ہونا شروع ہوا اور یہ سلسلہ 1970ء کی دہائی تک جاری رہا۔ 1970ء کی دہائی میں برطانیہ کو کئی معاشی دھچکے لگے۔ مثلا 1973ء میں پیٹرول کی قیمت ڈرامائی طور پر دوگنی ہو گئی۔ سکاٹ لینڈ میں اسی عرصہ میں دریافت ہونے والے تیل کی وجہ سے سیاسی طور پر سکاٹ لینڈ کو پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا کہ وہ بعد از جنگ عظیم جاری خوشحالی میں آنے والی رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ اکتوبر 1974ء کے جنرل الیکشن میں پہلا سکاٹش قوم پرست امیدوار برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بننے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں سے SNP کی ممبر شپ میں زبردست اضافہ شروع ہوا اور یہ بحث شروع ہوئی کہ سکاٹ لینڈ تیل، خوشحالی اور آزادی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ 1970ء کے اقتصادی بحران کی وجہ سے سکاٹش عوام کو یوں محسوس ہوا جیسے ویسٹ منسٹر نے ان کی پروا کرنا چھوڑ دی ہو۔ لہذا ابتدا ہی سے سکاٹش قومی آزادی کی تحریک نہ تو ثقافتی استحصال اور نہ ہی لسانی سوال کے گرد ابھری۔ بلکہ خالصتاً اقتصادی مسائل کے حل کے حوالے سے اس نے جان پکڑی۔
1979ء میں ایک ریفرنڈم ہوا، جس کے زریعے سکاٹ لینڈ میں پارلیمنٹ قائم کرنے کا فیصلہ ہونا تھا۔ لیکن اس ریفرنڈم میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اور قومی سوال کچھ عرصہ کے لیے ایک مرتبہ پھر پیچھے چلا گیا۔ 1974ء میں SNP نے جو 10 نشستیں جیتی تھیں، 1979ء تک وہ ان سے محروم ہو چکے تھے۔ الٹا 1979ء کے انتخابات میں مارگریٹ تھیچر دراصل برطانوی معیشت کو درپیش بحران کے حل کے نام پر اقتدار میں آنے والی وزیراعظم تھیں جنہوں نے 1950ء کی دہائی کے معروف معیشت دان ملٹن فریڈمین کے اصولوں کو اپنایا۔ ملٹن فریڈمین شکاگو یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کا سربراہ تھا اور اس نے مکمل آزاد منڈی کی معیشت کا خاکہ تیار کیا تھا، جس میں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ریاست میں بنکوں کے فرمانوں کی اطاعت اور منڈیوں کو کثیر الاقوامی کمپنیوں کے لیے کھولنا وغیرہ شامل تھا۔
سکاٹ لینڈ میں قوم پرستوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر کے کہ اقتصادی بحران کا اثر عمومی طور پر برطانوی سماج پر یکساں پڑ رہا تھا، یہ دلیل پیش کی کہ ویسٹ منسٹر سکاٹش عوام کی خواہشات کی ترجمانی نہیں کر رہا۔
تھیچر نے بے دردی سے ٹریڈ یونین کی طاقت کو توڑنے کے لیے کامیاب اقدامات کیے۔ گلاسگو اور ڈنڈی میں جہاز رانی اور کوئلے کی کانوں کی صنعت کی نجکاری کی۔ بنک آف انگلینڈ کی مطلق العنانی کو کھلی چھٹی دی اور لوگوں کو ملنے والے سوشل سیکیورٹی مراعات پر حملے کیے۔ 1984ء میں سکاٹ لینڈ میں 21 ہزار کان کن تھے جو کوئلے کی کانوں میں کام کرتے تھے، جن کی تعداد اب صرف چند سو رہ گئی ہے۔ کوئلے کی صنعت برطانوی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی اور پورے ملک میں محنت کش طبقہ کو جوڑنے میں کلیدی کردار کی حامل تھی، لیکن کوئلے کی کانوں کے بند ہونے سے سکاٹش محنت کش طبقے کا برطانیہ کے دیگر علاقوں (انگلینڈ اور ویلز) کے محنت کشوں سے طبقاتی تعلق کمزور ہو گیا۔ لہذا برطانویت (شناخت) کا عنصر جو محنت کشوں کے قومی تشخص کا مظہر تھا، وقت کے ساتھ ساتھ مدھم پڑنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح قومی ملکیت میں چلنے والے دیگر اداروں کی نجکاری نے بھی سکاٹش محنت کشوں کے برطانوی محنت کشوں سے روایتی تعلق کو توڑنے کا کام کیا۔
اب منڈی کی معیشت کا راج تھا۔ منڈی کا تشخص عالمی تجارت سے عبارت ہے۔ لہذا سکاٹ لینڈ کی بورژوازی بھی اب مکمل طور پر آزاد منڈی کی معیشت میں تیر (Swim) رہی تھی۔ اب محنت کشوں کے مابین طبقاتی یک جہتی کی جگہ تجارتی مفادات اور سرمایہ داری نظام میں سبقت لے جانے کی دوڑ کے باعث جنم لینے والے قومی تضادات نے جگہ لے لی۔
یہی وجہ تھی کہ کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) کی برطانوی پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد گھٹ کر 11 رہ گئی۔ سکاٹ لینڈ میں قوم پرستوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر کے کہ اقتصادی بحران کا اثر عمومی طور پر برطانوی سماج پر یکساں پڑ رہا تھا، یہ دلیل پیش کی کہ ویسٹ منسٹر سکاٹش عوام کی خواہشات کی ترجمانی نہیں کر رہا۔ لہذا سکاٹ لینڈ کی اپنی پارلیمنٹ ہونی چاہیے جو سکاٹ لینڈ کے معاملات چلائے۔ لیبر پارٹی جو کہ سکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی پارٹی تھی، نے اعلان کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو سکاٹ لینڈ کو پارلیمان بنانے کی اجازت دی جائے گی۔
لہذا 1994 سے 1997 تک سکاٹش سیاسی طاقت کی ویسٹ منسٹر سے سکاٹش پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا پروگرام، قوم پرستوں سے بڑھ کر لیبر پارٹی نے پیش کیا۔
یکم جولائی 1999ء کو ملکۂ برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ کی پہلی اسمبلی کا افتتاح کیا، یعنی سکاٹش پارلیمنٹ کا قیام لیبر پارٹی کی وجہ سے ممکن ہوا، ناکہ SNP کی تحریک کی وجہ سے۔ جو پارلیمنٹ آئینی بحران کے خاتمے کے لیے قائم ہو، وہی پارلیمنٹ قوم پرستی کو ہوا دینے کا موجب بنی۔ لیبر پارٹی کا خیال تھا کہ سکاٹش پارلیمنٹ کے قیام سے ایس این پی ختم ہو جائے گی، کیونکہ سکاٹش عوام کو نمائندگی کا حق مل گیا ہے۔ لیکن یہ سادہ لوحی زیادہ عرصہ قائم نہ رہی اور 1990ء میں SNP کی قیادت سنبھالنے والا ایلکس سائمنڈ اب سکاٹش آزادی کے لیے ریفرنڈم کا سب سے بڑا وکیل بن گیا اور 2011ء میں سکاٹش پارلیمنٹ کے انتخابات میں SNP بھاری اکثریت سے سکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت بن کر سکاٹش اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ گئی۔ اب آزادی کے لیے ریفرنڈم نوشتۂ دیوار تھا۔
ایس این پی کے مقبول ہونے کی وجوہات میں سکاٹ لینڈ مفت تعلیم مفت ادویات، نیٹو سے علیحدگی کا وعدہ اور نیوکلیائی ہتھیاروں کا خاتمہ شامل تھا، جس کی وجہ سے بہت سے سوشل ڈیموکریٹ اور Campaign Against Nuclear Disarmament کے کارکن SNP میں شامل ہوئے۔ لیکن دو سال قبل ہونے والی SNP کی قومی کانگریس میں سادہ اکثریت سے نیٹو میں رہنے کے حق میں قرارداد منظور ہوئی، جس نے SNP کے بارے میں پہلی مرتبہ شکوک پیدا کیے۔ پھر یہ ہوا کہ SNP نے ملکہ کو سربراہ رکھنے کا اعلان کیا۔ پونڈ سے جڑے رہنے کا اعلان کیا اور یہ سب بالآخر اسے خاصی حد تک غیر مقبول کرنے کا باعث بنا۔ اور 18 ستمبر کو وہ یہ ریفرنڈم ہار گئے۔
Yes مہم کو ملنے والے ووٹوں میں اکثریت نچلے درمیانے طبقے اور مزدور طبقہ کے ووٹ تھے جبکہ No ووٹوں کی اکثریت اوپرلے اور درمیانے طبقے اور پنشن حاصل کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ انہیں خطرہ تھا کہ ایلکس سائمنڈ کے ریفرنڈم جیتنے کے بعد ان کی پنشن خطرے میں پڑ جائے گی۔
قومی آزادی کی تحریکیں، جنہیں ہم جانتے ہیں ان کا تعلق ایسی سیاسی جدوجہد سے عبارت ہے جو مقامی آبادی پر غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف چلائی گئیں۔ مثلاً ہندوستان کی قومی آزادی کی تحریک برطانوی راج کے خلاف تھی، اسی طرح چین کی قومی آزادی کی تحریک جو ماؤزے تنگ کی قیادت میں لڑی گئی، جاپان کے چین پر قبضے کے خلاف تھی، یا پھر جنوبی افریقہ میں جہاں سیاہ فام آبادی پر سفید فام اقلیت کی جابرانہ حکومت قائم کی گئی۔ لیکن سکاٹ لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم (جس میں قومی آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا ہے) کی اساس عمومی اقتصادی بدحالی کے پس منظر میں مقامی بورژوا کی جانب سے ایسے وقت میں تعمیر کی گئی جب 2008ء کا عالمی اقتصادی بحران شروع ہوا اور اس بحران کی بجائے ویسٹ منسٹر کو سکاٹ لینڈ کی غربت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا (جوکہ غلط نہیں ہے) تاہم اس میں سرمایہ داری نظام کی فطری بحرانی کیفیت کو قوم پرستی کے نعروں تلے دبایا گیا۔ سکاٹ لینڈ پر تو کسی غیر ملکی فوج نے نہ تو حملہ کیا ہے اور نہ ہی سکاٹ لینڈ پر کسی “غیر” قوم کی حکومت قائم ہے۔ بلکہ سکاٹ لینڈ کی بورژوازی نے گزشتہ 300 سال برطانوی یونین میں رہتے ہوئے پہلے سامراجی لوٹ مار اور بعد میں فلاحی ریاست کے ثمرات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی نہیں سکاٹ لینڈ کی اپنی آزادی سوشلسٹ پارٹی، سالیڈیرٹی پارٹی اور سوشلسٹ ورکر پارٹی (SWP) سے ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والی RIC ریڈیکل انڈی پنڈنس پارٹی شامل ہیں۔ ان تینوں پارٹیوں نے ریفرنڈم کو محنت کش طبقہ کے سامنے استحصال سے پاک سماج کی تعمیر کے موقع سے تعبیر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، اور یہ ظاہر کیا کہ آزادی کے بعد گویا سکاٹ لینڈ، یورپی یونین میں آنے والے تباہ کن اقتصادی بحران کے خاتمے کو، آزادی یعنی Yes ووٹ سے مشروط کر دیا۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ Yes ووٹ میں سبقت لے جانے والے دو سکاٹش شہر ڈنڈی اور گلاسگو اسی پراپیگنڈا کی زد میں آ گئے۔ یہ دونوں شہر 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں جہاز سازی کی صنعت میں صف اول میں تھے۔ لیکن 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں امریکی صدر ریگن کی قیادت میں شروع کی جانے والی مادر پدر آزاد (unfettered) سرمایہ داری کی مہم میں مارگریٹ تھیچر بھی شامل ہوئیں اور بڑے پیمانے پر کوئلے کی کانوں اور شپ یارڈز بند کیے گئے، جس کی وجہ سے دونوں شہروں میں بڑی تعداد میں مزدور بے روزگار ہوئے۔ اسی لیے Yes مہم کو ملنے والے ووٹوں میں اکثریت نچلے درمیانے طبقے اور مزدور طبقہ کے ووٹ تھے جبکہ No ووٹوں کی اکثریت اوپرلے اور درمیانے طبقے اور پنشن حاصل کرنے والوں پر مشتمل تھی۔ انہیں خطرہ تھا کہ ایلکس سائمنڈ کے ریفرنڈم جیتنے کے بعد ان کی پنشن خطرے میں پڑ جائے گی۔
No ووٹ کی کامیابی کے بعد سکاٹ لینڈ میں دائیں بازو کے نظریات کے طاقت پکڑنے اور مایوسی کے باعث فاشزم کی قوتوں کو تقویت ملنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سکاٹش بایاں بازو محنت کش طبقہ کو ویسٹ منسٹر کی جانب سے ان پر کیے گئے اقتصادی حملوں کے خلاف منظم کرنے کے بجائے قوم پرستوں کے آلۂ کار بن گئے تھے۔ اور وہ علاقے جہاں کبھی جہاز رانی کی صنعت میں مضبوط کمیونسٹ تحریک تھی، ان علاقوں میں بھوت نگر سے رجعتی تحریک کے جن پیدا ہونے کے امکانات کو کسی اور نے نہیں، خود بائیں بازو کے کامریڈوں نے روشن کیا ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔