1۔ پرائمری سکول میں سیکھی بھینس کی ایک گاؤں سے دوسری قصبے میں فروخت کی رسید دوبارہ لکھ کر دکھائیں۔
2۔ پاکستان کے قومی ترانے کے کوئی سے پانچ مصرعوں کی اپنے سات سالہ بچے کو نثر کر کے سنائیں اور سمجھائیں۔گواہ آپ اپنے آپ کو ہی رکھیں، کسی اور کو اندر لانے کی ضرورت پڑی تو شاید اپنی انا کی حفاظت کی خاطر کہیں سامنے آیا سچ دب نہ جائے۔
3۔ انسانی جسم کے نظام تنفس، نظام انہضام، نظام دوران خون اور نظام تولید کے مختلف حصوں کے نام اور وظائف کی تعریف کیجیے۔
4۔ دائرے اور تکون کے ریاضیاتی مسائل کی اردو توضیح اور طبعیات ، کیمیا، ریاضی اور حیاتیات کی اردو اصطلاحات دوبارہ یاد کیجیے۔
اور اگر آپ مندرجہ بالا میں سے کوئی ایک سرگرمی بھی سرانجام دینے کے اہل نہیں توخدارا صرف بوتلیں بدلنے سے گریز کیجیے اور نئی سوچ اورفکر عام کرنے کے لیےزبان سے متعلق آسانیاں پیدا کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ زبانوں کو زمین پہ لایا جائے، انہیں زبان کے ٹھیکیداروں کی رہزنی سے پھر سے آسمان پہ لے جایا جاتا ہے حالانکہ یہ خالصتاً زمینی ضرورتوں کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ازراہ مہربانی روز مرہ استعمال کی زبانوں کو آسان بنائیے۔میری نوکری چونکہ وفاق میں تعلیم کے شعبہ سے لگ لگاؤ والی ہے تو کبھی کبھی دیکھتا ہوں کہ وفاقی تعلیمی بورڈ امتحانی پرچوں میں اصطلاحات کا اردو ترجمہ چھاپتی ہے۔ خدا کی قسم مجھے ان کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اسی لیے میں ڈر رہا ہوں کہ بچوں پرایک اور “غیر”زبان پھر سے نہ ٹھونس دی جائے۔ پتا چلے کہ ایک دریا پار کیا اور ہانپتے کانپتے ہوئے باہر نکلے تو آگے ایک اور دریا منہ چڑائے سامنے کھڑا ہے۔ مزید یہ کہ ان زبانوں کو بھی کچھ مقام، مرتبہ اور جگہ دیجئے جہاں ان علاقوں کے لوگ ہیں جن کی دھرتی پہ “دو قومی نظریے” نے پاکستان پیدا کیا۔
سپریم کورٹ کے اس نئے حکم نامے کےبعدسرکاری اعلان سے پتہ نہیں کیوں مجھے ڈھاکہ میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی ہے۔مجھے پھر وہی وقت لوٹتا دکھائی دے رہاہے جب ہماری ایک خاص خطے کی “مہاجر اشرافیہ” اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار “ڈھول سپاہیوں” نے کہا کہ پاکستان کی قومی زبان تو صرف اردو ہو گی اور باقی زبانیں جائیں بھاڑ میں۔
پنجابی زبان لئی وی کجھ ہمت وکھاؤ۔ ایہنوں صرف اپنے یاراں دے وچ بیہہ کے بے شرمی دیاں گلاں، گندے لطیفیاں، سڑک تے رستہ نہ دین آلی گڈیاں دےڈرائیوراں نوں گالاں کڈن لئی تے کولوں لنگدی زنانیاں دیاں لتاں تے چھاتی بارے تبصرے لئی ہی نہ رہن دیو۔ اپنے چنگے وچاراں لئی وی استعمال کرو، تے اگر تسی اپنے بال بچیاں نوں دوجیاں زباناں دے نال اپنی ماں وی سکھاؤ دے تے کجھ گھٹ نئیں جانا اوہناں دا۔ بلکے نوی تحقیق دے مطابق اک توں زیادہ زباناں جانن، بولن تے لکھن والا بچہ زیادہ ذہین ہوندا ایہہ۔
اپنے اندر دے کوڑھ تے نیویں سوچ نوں اپنے اندوروں باہر کڈھ مارو۔ اگر پنجاب دی دھرتی تے موجود صوفی بزرگاں نیں پنجابی وچ سوہنی تے من موہنی شاعری کیتی ایہہ تے ایہدا مطلب ایہہ اے کہ پنجابی زبان لطیف جذبیاں دے اظہار دا اک چنگا بھلا ذریعہ ایہہ۔
(اب ایک گزارش پنجابیوں سے:
پنجابی زبان کے لیے بھی ہمت دکھائیے۔اسے صرف دوستوں میں بیٹھ کر بے شرم گفتگو،گندے لطیفوں، سڑک پر راستہ نہ دینے والی گاڑیوں کے ڈرائیواروں اور قریب سے گزرتی خواتین کے کولہوں اور چھاتیوں پر تبصروں تک محدود مت کیجیے۔ اپنے مثبت خیالات کا اظہار کرنے کے لیے بھی اس زبان کا استعمال کیجیے، اگر آپ اپنے بچوں کو دیگر زبانیں سکھانے کے علاوہ مادری زبان بھی سکھائیں گے تو وہ گھاٹے میں ہرگز نہیں رہیں گے۔ نئی تحقیق کے مطابق ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے اور بولنے والے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ اپنے اندر کے احساس کم تری کو نکال باہر کیجیے۔ اگر پنجاب کے صوفی شعراء پنجابی کو ذریعہ اظہار بنا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زبان لطیف جذبات کا اظہار کرنے کی اہل ہے۔ مادری زبان کا درجہ قومی زبان سے پہلے ہے۔ کیوں کہ پہلے ماں ہمیں چوم کر سینے سے لگاتی ہے اور پھر قوم ہمیں مار کر چھاوں میں ڈالتی ہے۔)
تبصرے
رائٹر صاحب شائد اپنے ذاتی خیالات کروڑوں لوگوں پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تحریر کی ابتدا سے لے کر اخیر تک کوئی ربط نہیں ملتا۔بات سپریم کورٹ سے شروع کر کے پنجابی پر ختم کردی۔یہ نہیں بتایا کہ ایک ہمہ جہت معاشرے میں جہاں کئ چھوٹی بڑی زبانیں رائج ہیں رابطے کے لئے ایک زبان رائج کرنے کی کوشش سے ان کو کیا مسئلہ ہے؟جن مسائل کی نشاندھی انہوں نے کی ہے وہ تو انگریزی زبان کے سلسلے میں بھی لاحق ہیں،تو کیوں نہ انگریزی زبان کو نکال باہر پھینکیں؟ اگر ان کی بات پر عمل کرتے ہوئے پنجابی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے تو کیا وہ سندھ،خیبر پختونخواہ،بلوچستان،کشمیرگلگت وغیرہ میں قابل قبول ہوگی؟ یہی مثال ان علاقائی زبانوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ یا اس کے لئے لکھاری نے کوئی افلاطونی فارمولا وضع کر رکھا ہے؟