فجر کی نماز کے لئے جاگا۔ابھی نماز کے لئے ہاتھ باندھے ہی تھے کہ کیمپ ایک زوردار دھماکے سے گونج اُٹھا اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں نماز توڑ کے بھاگا اور مارٹر والوں کی خندق میں کود گیا۔ دس پندرہ منٹ تک عجیب ہلچل رہی۔ تمام سنتری اندھیرے میں فائر کرنے لگے۔ پھر کیپٹن صاحب نےہولڈ آن کا حکم دیا تو فائر رُکے۔سورج اُبھرا تو مُجھے صورت حال کا ندازہ ہوا کہ فجر کے وقت مُکتی باہنی نے کیمپ پر راکٹ مارا تھا جس سے کوت، جو کہ اس سکول کی لائبریر ی بھی ہے، کی دیوار گر گئی اور راشن والا ڈمپ بھی جل گیا۔ لائبریری کی کتابوں نے جو آگ پکڑی تو راشن کی دالیں تک بُھون دیں لیکن شُکر ہے ایمونیشن کو جلدی سے نکال لیا گیا ورنہ تباہی ہوتی۔
آج ناشتہ بھی نہ کرسکے۔ ریکی پارٹی نےفوری طور پہ مُکتی والوں کے فرار کا راستہ چھان مارا لیکن بے سُود۔ کیمپ سے پچاس گز کے فاصلے پر ایک مسلح باغی مُردہ حالت میں پایا گیا جو کہ ہماری اندھیرے میں فائرنگ سے مرا تھا۔ نرسنگ اردلی جب اُس کا معائنہ کر رہا تھا تو میں نے بھی اسے دُور سے دیکھا۔ اس نے دھوتی باندھ رکھی تھی اور قمیص پر بھارتی فوج کے سپلائی اِشُو والا کیمو فلاج جیکٹ پہن رکھا تھا۔
سارا دن مصروف رہے۔ کوت کپتان صاحب کے دفتر میں، جو کہ دراصل ہیڈماسٹر آفس تھا، منتقل کرنے کا حکم ملا تو سارا اسلحہ اور ایمونیشن یہاں منتقل کردیا۔رات سونے سے پہلے گھر سے آنے والے خط کا جواب لکھا لیکن سنبھال کے رکھ دیا کیونکہ سُننے میں آیا ہے کہ خطوط پر سنسر لگ گیا ہے۔یوں بھی بڑی پکی خبر ہے کہ مغربی پاکستان سے ڈاک کا رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خط وکتابت بند ہونے کے بعد مشرقی پاکستان ذیادہ ہی اجنبی سی دھرتی محسوس ہونے لگا ہے۔
برگیڈ سے وائرلیس آیا تھا کہ صوبیدار بختیار صاحب کے والد سی ایم ایچ ڈھاکے میں فوت ہوگئے ہیں۔میں نے صوبیدار صاحب کو بتایا جس پر شام کو کپتان صاحب سے بہت ڈانٹ پڑی کہ میں نے اُنکی اجازت کے بغیر صوبیدار صاحب کو کیوں خبر دی۔۔۔
(مارٹر: تین انچ دہانے کی چھوٹی توپ۔کوت:اسلحہ خانہ۔ریکی:دُشمن کے علاقے کاگشت اور جائزہ)
One Response
this page shows the misery of the loss which we face 1971, I think we to take care about our relations around us.