Laaltain

سپاہی تنویر حُسین کی ڈائری – 3 دسمبر 1971- اعلانِ جنگ

3 دسمبر، 2013
آج دن کا آغاز ہی شدید ہنگامے سے ہوا۔فارمیشنوں کو باقاعدہ جنگ کے آرڈر مل گئے ۔صبح کی فالنی کے بعد الفا،چارلی،ڈیلٹا اور ہیڈکوارٹر کمپنی کو ہندوستانی بارڈر کی طرف موو کر جانے کا حکم ملا۔ ہم یہاں درّانی صاحب کی کمان میں براوو کمپنی کے ساتھ رہیں گے اور رحیم پور گاوں ہولڈ کرنے کا حُکم ہے۔میں نے ایجوٹنٹ صاحب سے گزارش کی کہ پُنّوں کو یہیں رہنے دیں۔مُجھے گھر والوں نے سخت تاکید کررکھی ہے کہ اُسے اپنے ساتھ رکھوں اور اس کا خیال رکھوں کیونکہ وہ اس کم سِنی میں میرے ساتھ رہنے کے شوق میں ہی فوج میں بھرتی ہوا ہے۔
جانے والی پلٹونیں بہت خوش تھیں کہ اب انہیں بارڈر پہ دُشمن سے کُھل کے لڑنے کا موقع ملے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی آس پاس کے دیہاتوں میں مُکتی باہنی سے بے ڈھنگی لڑائیاں لڑ لڑ کے اُکتا گئے ہیں۔ اُستاد نوبہارخان بہت خوش تھے،جاتے ہوئے مُجھے کہنے لگے “رِٹانی بابو، تُم مُفتی باہنی سے لڑو، ہم تو شاستری کو جنگ کا مزا چکھائے گا” حوالدار صاحب اب بھی شاستری کو دُشمن مُلک کا وزیر اعظم سمجھتے ہیں۔
رات کو راشن گارڈ کی ڈیوٹی تھی ۔سی ایچ ایم صاحب بتا رہے تھے کہ راشن کی بہت کمی ہے، خاص خیال رکھا جائے۔وہ بتا رہے تھے آج شام کوہماری ائر فورس نے دُشمن پر تباہ کُن فضائی حملے کئے ہیں اور دُشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ اب جب بنگالی ہمارے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتے اور دُشمن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں تو اس جنگ کے بعد یہ لوگ کس منہ سے ہمارے ساتھ رہیں گے؟ خیر، یہ جرنیلوں اور لیڈروں کے سوچنے کی باتیں ہیں۔
رات گئے تک ڈیوٹی پہ کھڑا رہا۔ سوچ سے سوچ کے سفر میں خیال آیا کہ اب تک گھر سے کوئی اچھی خبر آجانی چاہئے تھی۔ آخری خط ستمبر کے آخر پر،یا اکتوبر میں ملا تھا جس میں ریحانہ نے لکھا تھا : “تین ماہ بعد تُمہاری یہ شکائیت بھی ختم ہوجائے گی کہ ہمارا بیٹا آنگن میں اکیلا کیوں کھیلتا ہے؟ “میری خواہش ہے کہ اب کی بار اللہ ہمیں بیٹی دے۔میری خواہش ہے کہ میں بیٹی کا نام سلمیٰ رکھوں۔ مرحومہ بہن کی روح کو اس سے بہت سکون ملے گا۔
ہلکی ہلکی بارش ہوئی تو اِدھر اُدھر کے مینڈکوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔بانسوں کے جنگل تو رات کو بہت بھیانک لگتے ہیں ۔ بنگالی لوگ انہیں مُولی بانس بھی کہتے ہیں۔

 


2 Responses

  1. یوم اقبال کی پریڈ پر نیوی کے کچھ سپاہیوں سے مل کر احساس ہوا تھا کہ فوجیوں کا پریڈی عسکری چہرہ کتنا مصنوعی ہے اور وہ ایک عام انسان کا سا دل بھی رکھتے ہیں، روتے ہیں ہنستے ہیں، خوش ہوتے ہیں اداس ہوتے ہیں۔ تنویر حسین کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سپاہی جنگ لڑتے وقت جیت ہار سے زیادہ جنگ کے اختتام اور آغاز سے پہلے کی زندگی پر زیادہ سوچتا ہے۔ جنگ کے واقعات بھی اس کے لئے اپنے ساتھی جوانوں اور افسروں سے جڑے ہونے کے باعث ہی اہم ہوتے ہیں۔ ویل ڈن زکی نقوی۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

  1. یوم اقبال کی پریڈ پر نیوی کے کچھ سپاہیوں سے مل کر احساس ہوا تھا کہ فوجیوں کا پریڈی عسکری چہرہ کتنا مصنوعی ہے اور وہ ایک عام انسان کا سا دل بھی رکھتے ہیں، روتے ہیں ہنستے ہیں، خوش ہوتے ہیں اداس ہوتے ہیں۔ تنویر حسین کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سپاہی جنگ لڑتے وقت جیت ہار سے زیادہ جنگ کے اختتام اور آغاز سے پہلے کی زندگی پر زیادہ سوچتا ہے۔ جنگ کے واقعات بھی اس کے لئے اپنے ساتھی جوانوں اور افسروں سے جڑے ہونے کے باعث ہی اہم ہوتے ہیں۔ ویل ڈن زکی نقوی۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *