آج چونکہ کیمپ کی کمان صوبیدار بختیار صاحب کے سپرد تھی لہٰذہ آدھی نفری تو سارا دن” چِندی اور پُھلترُو “لئےرائفلیں صاف کرتی رہی۔باقی نفری صوبیدار صاحب کے اخلاقیات، ملٹری، سیاست اور جنسیات کے موضوع پر دیئے گئے درس سے لطف اندوز ہوتی رہی۔اُنہوں نے کُچھ کام کی باتیں بھی بتائیں۔وہ کہہ رہے تھے کہ رُوس اس جنگ میں بھارت کی مدد کررہا ہے جبکہ پاکستان کو بھی چین نے فوجی امداد کا عندیہ دیا ہے۔اُنہوں نے امریکی مدد کا بھی بتایا۔وہ کہہ رہے کہ اُنہوں نے تو سن پینسٹھ والی جنگ کے بعد ہی ان حالات کی پیشن گوئی کردی تھی۔کیا پتہ وہ حسبِ عادت ‘لنگر گپ ‘چھوڑ رہے تھے۔
صوبیدار صاحب نے ایک لطیفہ بھی سُنایا کہ بارڈر پہ پاکستانی اور بھارتی وائرلیس کی فریکنسی مل گئی،بھارتی کرنیل نے پاکستانی آپریٹر سے کہا “اوئے سپاہی، اٹن شن ہو کے بات کرو مُجھ سے” پاکستانی آپریٹر نے ترنت جواب دیا “سر آپکی ماں کی۔۔۔اوور اینڈ آوٹ” ہم لوگ اس پربہت ہنسے۔اس کے بعد اُستاد چمڑے نے گانا سُنایا اور ساتھ بِہاری تندورچی نے ڈھولکی کی جگہ جَیری کین بجائی۔۔۔
شام کو کیپٹن دُرانی صاحب بخیرئیت واپس آگئے لیکن ازحد غمگین تھے۔اُنہیں فیلڈ ہسپتال سے یہ خبر ملی تھی کہ اُن کےخالہ ذاد بھائی جو کہ بیناپول میں میڈیکل افسر تھے، اپنی بیوی اور بچوں سمیت مُکتی باہنی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیئے گئے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کئی شہروں میں مُکتی باہنی والے بِہاریوں کا قتل عام کررہے ہیں ۔ اُن سےسُنا کہ شہروں میں عام بنگالیوں پر بھی بہت سختی ہے اور ہندووں کی تو خاص سختی آئی ہے۔شام ہوئی تو تمام کیمپ پہ اُداسی اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
پُنوں سارا دن اِدھر اُدھر رہا اور رات کو میرے پاس آیا اور بولا “ماموں، اپنی جیکٹ دےدو، صبح صبح اُستاد سردار کے ساتھ گھنشام گھاٹ والی پکٹ پہ ناشتہ پہنچانے جانا ہے” میں نے اپنی جیکٹ اُٹھا کر دے دی۔آج کچھ راشن کی سپلائی بھی ملی تھی۔
(چندی:نرم کپڑا جو بندوق /جوتے صاف کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔پُھلترُو: انگریزی لفظ Pull-Through کا پنجابی/فوجی بگاڑ، سلاخ جس میں چندی اُڑس کر بندوق می نالی صاف کی جاتی ہے۔پکٹ:مورچہ)