زکی نقوی

tanvir-hussain-ki-diary-bangal-featured

وہی ہوا جس کا گزشتہ رات میں نے اندازہ لگایا تھا۔فجر کے وقت ہمیں حکم ملا کہ پوری مسلح پلٹون تیار کی جائے ۔گھنشام گھاٹ گاوں کو کلیئر کرنے کا حُکم تھا کیونکہ ہمیں اس طرف سے مُکتی باہنی بہت پریشان کر رہے ہیں۔ وہ لوگ چھاپہ مار کارروائیاں کرکے دیہاتوں میں چلے جاتے ہیں اور عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔پلٹون کی کمان خود دُرّانی صاحب کررہے تھے۔پُنّوں کو کپتان صاحب نے ساتھ جانے سے روک دیا۔

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہم گھنشام گھاٹ گاوں پہنچے جس میں سارے گھر بانس اور گارے کے تھے اور ان کے درمیان ناریل کے بہت سارے پیڑ تھے۔دُوسری جانب ندّی بہہ رہی تھی،ہماری جانب راستہ خشک تھا۔دُرّانی صاحب نے اُردو اور ٹوٹی پھوٹی بنگالی زبان میں لاوڈ ہیلر پر اعلان کیا کہ بیس منٹ کے اندر ندر سارا گاوں خالی کردیا جائے۔یہ بالکل چھوٹی سی بستی ہے جو کہ دس منٹ میں بھی خالی ہو سکتی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ دن چڑھے تک اگر کوئی مَرد ندی کے اِس طرف نظر آیا تو مار ڈالا جائے گا۔ٹھیک بیس منٹ کے بعد ہمیں حکم ملا کہ تمام جھونپڑیاں جلا دی جائیں۔یہاں کی زبان میں ان کو کُرے کہتے ہیں۔حکم پر عمل درآمد ہونے میں بمشکل آدھا گھنٹہ لگا ہوگا۔ان گھروں میں گھریلو سامان نہ ہونے کے برابر تھا جس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بستی پہلے سے ہی خالی کر دی گئی ہے۔چند گھروں میں سے مزاحمت ہوئی لیکن غیر مسلح۔ یہ لوگ پکڑے گئے لیکن دُرانی صاحب نے انہیں ندی پار دفع ہوجانے کا حُکم دے دیا۔تھوڑی دیر بعد ندی کی جانب سے برین گن کا شدید فائر آیا جس سے اُستاد پاجامہ شدید زخمی ہوگئے۔جواباً ہم نے مشین گن اور رائفل کے فائر سے بوچھاڑ کردی۔آٹھ یا نو بجے کا عمل ہوگا کہ فائر نگ بند کی گئی۔ندی پار کی سرچ پارٹی نے آکر بتایا کہ وہاں گیارہ لاشیں ملی ہیں اور آٹھ مختلف اقسام کی بندوقیں اور رائفلیں قبضے میں آئی ہیں اور ایک برین گن بھی ملی ہے۔جلے ہوئے گھروں سے دو لاشیں برامد ہوئیں جو ایک عورت اور ایک بچے کی تھیں۔ یہ بچہ بمشکل ایک سال کا ہوگا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار جلی ہوئی انسانی لاش دیکھی تھی، میرا سر چکرانے لگا۔

دوپہر تک ہم واپس لوٹے اور برگیڈ کو گھنشام گھاٹ کلیئر ہونے کی خبر دی جبکہ شام کو ندی پار کے علاقے پر ایف۔ ایف کی ایک کمپنی کی جمگاہ آ لگنے کی خبر بھی ملی۔ رات کو جب اُستاد پاجامے کو انتہائی تشویشناک حالت میں ملٹری ہسپتال بھجوانے کیلئے فیلڈ ایمبولینس منگوانے کا وائرلیس بھیجاتو پتہ چلا کہ ان کا صل نام مرزا خاں ہے۔رات گئے تک جب فیلڈایمبولینس نہ آیا تو دُرانی صاحب خود اُنہیں جیپ میں ڈال کر تین سپاہیوں کے ہمراہ فیلڈ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیمپ کی کمان صوبیدار بختیار صاحب کے سپرد ہو گئی۔


(ایف۔ایف: فرنٹِئیر فورس ، پاک فوج کی ایک پُرانی رجمنٹ۔ جمگاہ:کیمپ،پڑاو، حملے سے پہلے ٹھہرنے اور تہار ہونے کی جگہ)

ڈائری کے گزشتہ دن


Leave a Reply