دو انسان زندہ جلا دیے گئے تو ہواخدا کا کلام تو بچ گیا ، ہماراایمان سلامت رہا۔
انسان تو پھر بھی پیدا ہو ہی جاتے ہیں لیکن ایمان گیا تو سب گیا، تو بس ٹھیک ہی کیا جو جہنم واصل کیا اِن بدبخت کافروں کو۔اِن کی اتنی مجال کہ انہوں نے ہماری اِس پاک سر زمین پر ایک غیر مسلم عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے کی جرات کی اوراوپر سے خودکو ہمارے برابر کا انسان اور شہری سمجھا۔ انہیں کیا لگتا تھا کہ اِن کے زندہ جل جانے کے بعد پورے پاکستان میں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ پہیہ جام اورشٹرڈاون ہڑتالیں کریں گے؟ اُن کی جلی ہوئی مسخ شدہ لاشیں بلکہ راکھ ہوئے جسم کےٹکڑے سی ایم ہاوٴس کے سامنے رکھ کرپورے لاہور میں مظاہرے کئے جائیں گے؟یا پھر اٹھانوے فیصدمظلوم اورپِسے ہوئےغریب عوام کی نمائندہ جماعت جو پورے پاکستان میں سوگ منانے، ہڑتالیں کرنے اور احتجاجی سیاست کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے اِن دو ناپاک عیسائیوں کے لئے کراچی میں ہڑتال کا اعلان کرے گی؟یا شائد اِن کو لگا ہو گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور بائیں بازو کی نام نہاد سیکولر جماعت کے نومولود چئیرمین صاحب اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر چیخ چیخ کر اِن کے قاتلوں کا جینا حرام کرنے کے بلد بانگ دعوے کریں گے؟خیر اب ایسا بھی نہیں کہ لوگ بالکل ہی بےحس ہو گئے ہوں ایک آدھ مذمتی بیان تو آیا ہے اور اِس سے زیادہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟
انسان تو پھر بھی پیدا ہو ہی جاتے ہیں لیکن ایمان گیا تو سب گیا، تو بس ٹھیک ہی کیا جو جہنم واصل کیا اِن بدبخت کافروں کو۔اِن کی اتنی مجال کہ انہوں نے ہماری اِس پاک سر زمین پر ایک غیر مسلم عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے کی جرات کی اوراوپر سے خودکو ہمارے برابر کا انسان اور شہری سمجھا۔ انہیں کیا لگتا تھا کہ اِن کے زندہ جل جانے کے بعد پورے پاکستان میں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے؟ پہیہ جام اورشٹرڈاون ہڑتالیں کریں گے؟ اُن کی جلی ہوئی مسخ شدہ لاشیں بلکہ راکھ ہوئے جسم کےٹکڑے سی ایم ہاوٴس کے سامنے رکھ کرپورے لاہور میں مظاہرے کئے جائیں گے؟یا پھر اٹھانوے فیصدمظلوم اورپِسے ہوئےغریب عوام کی نمائندہ جماعت جو پورے پاکستان میں سوگ منانے، ہڑتالیں کرنے اور احتجاجی سیاست کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے اِن دو ناپاک عیسائیوں کے لئے کراچی میں ہڑتال کا اعلان کرے گی؟یا شائد اِن کو لگا ہو گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور بائیں بازو کی نام نہاد سیکولر جماعت کے نومولود چئیرمین صاحب اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر چیخ چیخ کر اِن کے قاتلوں کا جینا حرام کرنے کے بلد بانگ دعوے کریں گے؟خیر اب ایسا بھی نہیں کہ لوگ بالکل ہی بےحس ہو گئے ہوں ایک آدھ مذمتی بیان تو آیا ہے اور اِس سے زیادہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟
شہزاد مسیح اور شمع کو یہی مغالطہ رہا ہوگا کہ غزہ میں اسرائیلی بربریت پر بِلبِلا اُٹھنے والے صحافی حضرات شاید اُتنا نہ سہی تھوڑا بہت شور توساختہ پاکستان مظلومین کے لئے بھی مچائیں گے۔
سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ اس بار میڈیا اور سوشل میڈیا والے چمپئن بھی کچھ خاص شورشرابہ کرتے نظر نہیں آئے۔ یا تو وہ سب بھی ان روز روز کے سیاپوں سےتنگ آچکے ہیں یا پھر بریکنگ نیوز اور دھرنوں کا جادو ایسا سر چڑھ کہ بول رہا ہے کہ اس منجن کے ہوتے ہوئے باقی موضوعات کے لئے وقت ہی نہیں بچتا۔شہزاد مسیح اور شمع کو یہی مغالطہ رہا ہوگا کہ غزہ میں اسرائیلی بربریت پر بِلبِلا اُٹھنے والے صحافی حضرات شاید اُتنا نہ سہی تھوڑا بہت شور توساختہ پاکستان مظلومین کے لئے بھی مچائیں گے۔
خیر غلطی بھی تو شہزاد مسیح اور شمع کی ہی ہے،بھلا مُردوں سے اُمیدیں کیسی؟ ہمیں تو مرے ہوئے بھی اب اتنا وقت ہو چکا ہےکہ ہم اپنی تاریخِ وفات تک بھول چکے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں مردہ ہی جنا گیا ہوذرا سوچئے اُس ماں پر کیا گُزری ہوگی جس نے یہ مُردار قوم جنی ہوگی۔ ماں سے یاد آیا سُنا ہے مرنے والی شمع بھی ایک ماں تھی مگر کیا فرق پڑتا ہے، ایسی ہزار مائیں اور سینکڑوں باپ ذاتی، سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر خدا کے اس مقدس کلام کانام استعمال کر کے ناحق قتل کئے جا سکتے ہیں جس کی آیات ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتی ہیں۔ مگر ہماری تو عادت ہی نہیں پڑھنے کی، یہاں تو صرف پڑھانے کا رواج ہے یا پھر رٹا لگوانے کا اور یہ کام بھی ہم مولوی صاحب کے حوالےکرکے خود بس سُنی سُنائی پہ جی رہے ہیں۔ہمارا جینا بھی کیا جینا ہے کہ باقی کسی کے بھی جینے مرنے سے ہمیں کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔
ہماری ہمدردی کے حقدار زندہ جلا دیے جانے والے نہیں کہ انہیں اس معاشرے میں پیدا ہونے کا حق نہیں ،ہماری ہمدردی کا اصل حقدار تو یہ ذہنی بیمار معاشرہ اور ہم جیسے معاشرتی حیوان ہیں جو خودکو حقیقی حیوان ثابت کرنے میں رات دن مصروف ہیں،دیکھئے کامیابی کب تک ہم سے دُور بھاگتی ہے۔
خیر غلطی بھی تو شہزاد مسیح اور شمع کی ہی ہے،بھلا مُردوں سے اُمیدیں کیسی؟ ہمیں تو مرے ہوئے بھی اب اتنا وقت ہو چکا ہےکہ ہم اپنی تاریخِ وفات تک بھول چکے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں مردہ ہی جنا گیا ہوذرا سوچئے اُس ماں پر کیا گُزری ہوگی جس نے یہ مُردار قوم جنی ہوگی۔ ماں سے یاد آیا سُنا ہے مرنے والی شمع بھی ایک ماں تھی مگر کیا فرق پڑتا ہے، ایسی ہزار مائیں اور سینکڑوں باپ ذاتی، سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر خدا کے اس مقدس کلام کانام استعمال کر کے ناحق قتل کئے جا سکتے ہیں جس کی آیات ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتی ہیں۔ مگر ہماری تو عادت ہی نہیں پڑھنے کی، یہاں تو صرف پڑھانے کا رواج ہے یا پھر رٹا لگوانے کا اور یہ کام بھی ہم مولوی صاحب کے حوالےکرکے خود بس سُنی سُنائی پہ جی رہے ہیں۔ہمارا جینا بھی کیا جینا ہے کہ باقی کسی کے بھی جینے مرنے سے ہمیں کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔
ہماری ہمدردی کے حقدار زندہ جلا دیے جانے والے نہیں کہ انہیں اس معاشرے میں پیدا ہونے کا حق نہیں ،ہماری ہمدردی کا اصل حقدار تو یہ ذہنی بیمار معاشرہ اور ہم جیسے معاشرتی حیوان ہیں جو خودکو حقیقی حیوان ثابت کرنے میں رات دن مصروف ہیں،دیکھئے کامیابی کب تک ہم سے دُور بھاگتی ہے۔