دیسی کُشتیاں، اکھاڑے، ہریانہ کے کھیت، ایک پہلوان کی اپنی بڑھتی ہوئی عُمر کے ساتھ زوردار جنگ، ایک گانے کی شاعری، پوری فلم کا ساؤنڈ ڈیزائن، ریواڑی کی گلیاں اور پتھکن، جاندار مکالمے، سلّو کی دھیمی اور پُرتاثیر اداکاری، دلّی اور ہریانہ کے مسلم علاقوں کے فریمز، اداکاروں کے چہروں پر خوشگوار لائٹ، مہارت سے پلاٹ کیا گیا اسکرین پلے، پروڈکشن پر صرف کیا گیا سرمایہ جو پروڈکشن کے اسٹینڈرڈ سے عیاں، اور وہ پیغام جو ہر فائٹر کی زندگی کا مرشدِ اوّلیں ہے یعنی نَیوَر گِوّ اَپ!!!

یہ ہیں وہ خوبیاں جو ہمیں بار بار سُلطان دیکھنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
باوجود اس کے کہ سُلطان کی ایڈیٹنگ، رندیپ کی کیریکٹرائزیشن، انوشکا کی چند مقامات پر اوورایکٹنگ، ہریانوی لب و لہجے اور برجستگی کا کماحقہ خیال نہ رکھنے، بعض مقامات پر کچھ زیادہ ہی میلوڈرامائی موڑ، اور ٹمپو کو بلاوجہ دھیما رکھنے پر ہمارے تحفظات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
مگر ان تحفظات کے باوجود ہم سُلطان کو اس سال کی اب تک ریلیز ہونے والی تمام بھارتی کمرشل فلموں میں سے بہترین فلم قرار دیں گے۔

پاکستانی فلم "شاہ” بھی اسی نوعیت کی فلم تھی. وہ بائیوپک تھی پاکستانی اولمپئین باکسر سید حسین شاہ کی. مگر غریب ملک اسکرین پر اپنا کیس ڈھنگ سے پیش نہ کر پایا. اور اس کہانی کو اسکرین پر لانے کے لیے کوئی سرمایہ دار بھی سامنے نہ آیا. اس کے باوجود "شاہ” ایک عمدہ فلم ثابت ہوئی۔ اگرچہ اسے باکس آفس پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں فنِ پہلوانی کے زوال پر نوحے لکھنے والے اگر سرمایہ داروں کی توجہ اس جانب مبذول کروا دیں کہ فلم کے ذریعے یہ فن دوبارہ عروج حاصل کر سکتا ہے۔ فلم بینوں میں سے دوبارہ رُستمِ زماں گاماں، جھارا، بھولو اور ناصر پیدا ہو سکتے ہیں۔ تو شاید ہم بھی کسی عمدہ فنکار کو لے کر اس موضوع پر اچھی فلم بنا سکیں۔

بھارت نے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے مرتے ہوئے فنون اور سپورٹس کو بڑی اسکرین پر گلیمرائز کر کے پیش کرتا ہے اور بھارتی جنتا میں چیمپئن بننے کی اُمنگ جگاتا ہے۔ کیا آپ کو پہلا ٹی ٹونٹی ورلڈکپ اور اس سے ذرا سا پہلے ریلیز ہونے والی "چَک دے انڈیا” یاد ہے؟

بعض دوستوں کا خیال ہے کہ بھارت نے وہ ورلڈ کپ اسی "چک دے ایفیکٹ” کے زیرِ اثر جیتا. جیت کی لگن کھیل کی نوعیت سے ماورا ہوتی ہے۔ سو ہاکی پر بنی فلم نے عوام میں جیت کی لگن کی جوت ایسی جلائی کہ بھارت چیمپئن بن گیا. ہم اس واقعے کو فلم کے معاشرے پر اثرات کے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لے سکتے ہیں۔ جیسے مغلِ اعظم کو، کہ جس کا گانا ‘جب پیار کیا تو ڈرنا کیا’ سُن کر بقول بھارتی مبصرین کئی بھارتی ناریوں نے گھروں سے بھاگ کر شادی کی. یا جیسے مولاجٹ کے لازوال مکالمے آج بھی ہماری بول چال کا حصہ ہیں۔

Leave a Reply