چند دن پہلے کی بات ہے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا، باتوں سے باتیں نکل رہی تھیں، نوکری، ملازمت، شادی، والدین کے حقوق ہر چیز پر باتیں ہو رہی تھیں، اچانک میرے دوست کو کچھ خیال آیا اور وہ بولا، ’آج مجھے اپنے سوشل ورکر ہونے کا یقین ہوگیا جب ایک نو سکھیا میرے احترام یا پھر دبدبہ سے تھر تھر کانپ رہا تھا، اور میں اس کو ایونٹ مینجمنٹ سمجھا رہا تھا۔‘ اپنے دوست کی بات سن کر میں نے اس کو ٹوکا، ’بھائی یہ تو کوئی دلیل نا ہوئی تمھارے سوشل ورکرہونے کی، تم گزشتہ3 سال سے مختلف این-جی-اوز سے منسلک ہو لیکن تم سوشل ورکر نہیں ہو!‘ میری اس بات پر اس نے برا منایا اور فوراً سوال داغ دیا کہ، ‘اگر میں سوشل ورکر نہیں ہوں تو، فلاں، فلاں اور فلاں بھی نہیں ہیں! حالانکہ جو کام وہ کرتے ہیں وہی کام میں بھی کرتا ہوں وہ اپنے آپ کو سوشل ورکر کہتے ہیں میں بھی کہوں گا! لیکن اگر تم کہتے ہو کہ میں سوشل ورکر نہیں ہوں تو پھر سوشل ورکر کون ہوتے ہیں؟’
اس کے اسی سوال نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہاں سوشل ورکر کون ہوتا ہے؟ اور آخر کیوں آج ہمارے معاشرے میں اس طرح کے قول و فعل کے تضادات وجود میں آرہے ہیں۔ اپنے دوست کو تو میں نے مطمئن کردیا تھا لیکن میں خود بے چین ہو گیا تھا، میرے سامنے اچانک معاشرے کا بڑا عجیب مسئلہ آگیا تھا! اس لیے آج میں نے تہیہ کیا ہے کہ اس غلط فہمی کو دور کروں۔ میرا مقصد لوگوں خاص کر نوجوانان کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ انہیں مطلع و متنبہ کرنا ہے کہ وہ خود فریبی اور خود نمائی سے پرہیز کریں اور سچ کی بنیاد پر انہی کاوشوں کو استوار کریں۔ سننے اور کہنے سے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے لیکن اسی طرح کی چھٹی چھوٹی بے ضرر سی غلطیاں ہی آگے چل کر ہمارے لیئے عذاب بن جاتی ہیں۔
اگر آپ اب تک میرے ساتھ ہیں تو مبارک ہو آپ کو کہ آپ نے اب تک تین سو اٹھاون الفاظ پڑھ لیے ہیں۔ اب میں اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں یعنی کہ، سماجی کارکن کون ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے؟ اگر ہم سماجی کارکن نہیں تو کیا ہیں؟ اور ہمارے ان افعال کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
پہلے ذرا ماضی پر نظر ڈال لیتے ہیں، پرانے زمانے میں لوگ خود کو یا دوسروں کو فلانتھراپسٹ کہنا، یا کہلوانا پسند کرتے تھے، امپورٹڈ لفظ تھا، با رعب بھی لگتا تھا، لیکن میں اور آپ وہ نہیں ہیں، کیوں؟ فلانتھراپی کی حالیہ شکل انیسویں صدی میں صنعتی دور کے ساتھ ساتھ سامنے آئی تھی۔ امراٗ غرباٗ کی غربت دور کرنے کے لیئےادارے قائم کردیا کرتے تھے، جن کو چلانے کے لیئے بھاری بھاری چندے دیئے جاتے تھے۔ آج کے دور میں سب سے بڑے فلانتھراپسٹ بِل گیٹس صاحب اور وارن بفے صاحب ہیں جنہوں نے اپنی کمائیوں میں سے اربوں روپے غربت، افلاس اور انسانیت کے بھلے کے لیئے مختص کر دئیے ہیں۔
ایک چیز اور بھی ہوتی ہے جسے انگریزی میں آلٹروازم کہتے ہیں، اس کی شروعات چرچ سے ہوئی تھی اور آج بھی آپ دیکھیں تو دنیا بھر میں چرچ اور تقریباً تمام ادیان کے عبادت خانے رفاہی و فلاحی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن رکیے آپ اور میں آلٹروئسٹ بھی نہیں ہیں۔ وہ افراد جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیئے اپنے آپ کو فنا کردیں وہ فیس بک پر آ کر اپنے کارنامے گاتے اور گنواتے نہیں ہیں۔
سوشل ورک یا سماجی کارروائی، جی ہاں کاروائی سننے میں عجیب لگ رہا ہے ناں۔ کا اصل مقصد انسانی بہبود و ترقی کی تعلیم، ترویج، تحقیق اور تبلیغ کا کام ہے۔ یہ ایک باقاعدہ سائنس ہے، جس کو باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ سوشل ورکر معاشرے میں طبقاتی تعصب کے خاتمے، انسانی حقوق کی پاسداری اور دیگر معاملات پر کام کرتے ہیں۔ جن میں مشاورت یا کونسلنگ سے لے کر، پالیسی سازی اور رائے سازی یا ایڈووکیسی شامل ہے۔ سوشل ورک کے زیادہ تر طالبِ علم مختلف این-جی-اوز میں یا پھر کارپوریٹ اداروں کے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی ڈپارٹمنٹس میں ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے، کچھ افراد اپنے ذاتی ادارے اور تحاریک بھی قائم کرلیتے ہیں، مثلاً عبدل ستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی۔ یہ افراد جذبہِ انسانیت سے سرشار ہوتے ہیں، اب بتائیں ان کا اور ہمارا کیا مقابلہ؟
اب اور بڑا سوال اٹھتا ہے! ہم کیا ہیں؟ سچ یہ ہے ہم اس وقت تک خود کو سوشل ورکر نہیں کہہ سکتے جب تک ہم اس کام کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کرلیں یا پھر ایسے افراد پر مبنی ادارہ قائم نہ کرلیں جو اس کام میں تعلیم و تربیت یافتہ ہوں۔ ہم رضا کار ضرور ہیں اور اس بات پر ہمیں اور ہمارے جاننے والوں کو فخر بھی کرنا چاہیئے مگر ہمیں خود فریبی سے بچنا چاہیئے۔ مطلب یہ کہ ایک یتیم خانے میں ایک وقت مکڈونلڈز سے لا کر کھانا کھلانے اور پھر اس کارنامے کی تصاویر فیس بک پر آویزاں کرنے سے ہم سوشل ورکر نہیں بن جاتے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ بہت سارے وزیروں، مشیروں، سماجی کارکنان، ماہرینِ عمرانیات وغیرہ، وغیرہ کو جانتے ہیں، آئے دن آپ کا آنا جانا ان کی محافل میں ہوتا رہتا ہے تو آپ سوشل ورکر بن گئے؟! جی نہیں ایسا کر کے آپ سوشلائٹ یا پھر ایک مشہور ہستی بن گئے ہیں، مشہور ہونے کا انسانی ترقی و بہبود سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر آپ معاشرے میں ہونے والے مظالم و مصائب ہر آواز اٹھاتے ہیں، لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہیں تو پھر آپ سول سوسائٹی کے ممبر کہلائیں گے۔
یاد رکھئیے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہیں جو آگے چل کر بڑے بڑے فرق پیدا کریں گی۔ ذرا سوچیئے، آج سے بیس سال بعد ہماری آنے والی نسلوں پر کیا گزرے گی جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ہر دوسرا پاکستانی تو سماجی کارکن یعنی کہ عمرانی معاہدے کا سچا و پکا پاسدار تھا، لیکن ہم آج بھی ترقی پذیر ہیں؟ آخر کیوں تو کہیں نہ کہیں سے یہ جواب ضرور آئے گا ہاں ہمارے آبا و اجداد سب کہ سب سوشل ورکر تھے بس ذرا سوشل ورک کی تشریح غلط کر بیٹھے تھے۔ ان کے نزدیک انسانی بہبود و ترقی نہیں بلکہ ذاتی نمود و نمائش ہی سوشل ورک تھی۔
اگر آپ قوم، ملک، سلطنت اور انسانیت کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو جائیے پہلے سوشل ورک سیکھیے، سمجھیے اور پھر دل و جان سے اس میں جت جائیں، قسم سے مزہ آجائے گا۔ اور شہرت بھی مل ہی جائے گی، وہ بھی اصلی، سچی اور دیرپا۔
آخری بات! سماجی کام کی چھ بنیادی اقدار ہیں ان پر ضرور عمل کیجیئے گا۔
اور ہوسکے تو اپنے ہر عمل کو ہزاریہ ترقیاتی مقاصد کی روشنی میں عملی جامہ پہنائیے گا۔
۱۔ مصائب میں گھرے لوگوں کی امداد و داد رسی کرنا۔
۲۔ سماجی رواداری کو یقینی بنانا اور معاشرے میں سماجی ناانصافیوں کے خلاف جد و جہد کرنا۔
۳۔ ہر شخص کا احترام کرنا اور اس کو پروقار سمجھنا۔
۴۔ آپسی تعلقات کو باقاعدہ قدر بخشنا۔
۵۔ خود کو ایماندار اور قابلِ اعتماد ثابت کرنا۔
۶۔ اپنے دائرہِ اختیار میں رہتے ہوئے ہی کام کرنا اور اپنی ذاتی و پیشہ ورانہ مہارتوں کو بہتر بنانے میں کوشاں رہنا۔

2 Responses

  1. Abdul Rauf

    بے حد خوبصورت باتیں، میں نے یہ پیج اپنے لیپٹاپ میں محفوظ کر لیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے۔ بہت شکریہ عندیل بھائی

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: