جون ایلیا کا زوال ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ زوال کی وجہ معاشرے کا زوال بھی تھا اور اس کا اثر جون کی زندگی پر پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ انیس سو نوے کی دہائی کے آخری چند سالوں میں جون گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ کس سے مکالمہ کرتے، کس سے حسن بن صباح یا عرفی پر بات کرتے۔ پڑھے لکھے دوست ساتھ چھوڑ چکے تھے یا ملازمتیں کر رہے تھے یا ادبی دنیا میں مقام بنانے کے اپنے اپنے گروہ بنائے بیٹھے تھے۔ ایک غیر معروف، منہ پھٹ اور باغی شاعر سے ان کو کیا سروکار ہو سکتا تھا؟

جس کو جون سے جو حاصل کرنا تھا کر چکا تھا۔ سب جون کو چبا چکے تھے، اب ہڈیوں کا ایک ڈھانچا ایف بی ایریا کے ایک مکان میں اپنے رشتے دار کے ہاں کمرے کا کرایہ ادا کر کے رہ رہا تھا۔ اب یہاں جون سے ملنے وہ لوگ آتے جن کے پاس وقت ہی وقت تھا۔ ادب سے اکثر کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ جون کی غیر معمولی شخصیت، اس کے بوہیمیئن طرزِ زندگی سے متاثر ہو جاتے تو جون کے حجرے میں ڈیرا ڈال لیتے۔ وقت تو جون کے پاس بھی خوب تھا۔ لیکن جون ان نوجوانوں سے کیا بات کرتے؟ جون تو عہد نامہ قدیم میں سانس لینے والا اور یونان کے فلسفیوں کے ساتھ چہل قدمی کرنے والے ایک عالم تھا۔ لیکن اب جو حضرات علامہ جون ایلیا کے رو بہ رو تھے وہ پانچ سو سے زیادہ الفاظ نہیں جانتے تھے۔ جو نوجوان شاعر جون سے ملنے آتے وہ جون کی شاعری کے ایک حصے، یعنی اس کی مکالمہ آرائی سے متاثر ہو کر اسی انداز میں شعر کہنے لگتے۔ جون کو تو محفل سجانا ہوتی تھی سو وہ سجا ہی لیتے تھے۔ لیکن اپنا اور اپنے اطراف کا زوال انہیں اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ اب نہ محمد علی صدیقی تھے نہ راحت سعید، نہ حسن عابد اور نہ ممتاز سعید اور نہ ہی ان کے وہ بھائی جو ادب اور فلسفے پر جون سے گفت گو کر سکتے۔ کچھ مر چکے تھے، کچھ کو جون خود جیتے جی مار چکے تھے۔

اب سن دو ہزار سترہ ہے۔ جون ایلیا بے حد مشہور ہو چکے ہیں۔ جو کم علم نوجوان ایف بی ایریا کے حجرے میں جون سے ملنے آتے تھے ان کی تعداد اب کئی لاکھ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ جون سے سب متاثر ہیں لیکن جون کو جانتا کوئی نہیں۔ ’عشرتیان رزق غم نوش چکاں گزر گئے‘ کس کی سمجھ میں آئے، کون محسوس کرے؟ جون کے وہ اشعار جن کا ڈکشن سہل ہے سب کی زبان پر ہیں۔ اکثر کلام تو جون نے شایع ہی نہیں کیا تھا۔ وہ تو خالد احمد انصاری کی سخاوت کو داد دیجیے کہ ہر پرچے اور ہر پرچی پر لکھا وہ شعر بھی جو جون نے بس یوں ہی کسی دوست کے دوست کے بیٹے کو لکھ کر دے دیا تھا، ان کے مجموعوں کی زینت بن چکا ہے۔ اب تو ایک اور کام بھی ہو رہا ہے۔ جون کے انداز میں کہے گئے اشعار جون کے نام سے سوشل میڈیا پر چلا دیے گئے ہیں۔

جون ایک مثال بن تو چکے ہیں لیکن ایک زوال پذیر معاشرے میں۔ فیس بک زدہ شاعر دھڑا دھڑ قافیہ بندی کر رہے ہیں، بے تکی نثری نظمیں کہہ رہے ہیں اور ہر کوئی راشد، فیض اور ناصر بنا ہوا ہے۔ نہ راشد اور فیض جتنا مطالعہ ہے نہ ان کی طرح زبان پر دسترس ہے، نہ ان کی طرح کی سچائی ہے۔ بس ایک ترکیب کے ذریعے شعر پہ شعر گھڑے جا رہے ہیں۔ شعر میں ایک انوکھا لفظ ڈال دیجیے، لیجیے آپ منفرد شاعر ہو گئے۔ ’آکٹوپس ہو گیا ہوں جیتے جی‘، واہ کیا نیا مصرعہ ہے! کس نے کہا تھا کہ تماشا دکھا کے مداری گیا؟

دو باتیں جون کے نوجوان عاشقوں کے لیے کہتا چلوں۔ شعر مت کہیے، صرف اردو شاعری مت پڑھیے۔ فلم دیکھیے، فلسفہ پڑھیے، عشق کیجیے۔ شاعری مت کیجیے۔ جون کا مسئلہ شاعری نہیں تھا نہ خود کو ایک بڑا شاعر منوانا تھا۔ جون کا مسئلہ علم تھا، سچائی تھا، درد تھا اور کرب تھا۔ آپ بھی جون کو بڑا شاعر منوانے کی کوشش مت کیجیے۔ جون کو اس کی ضرورت نہیں۔ ادبی ریکیٹیئرنگ سے بچیے اور ان پر تنقید کیجیے جو ریکیٹیئرنگ کر رہے ہیں۔ جس سے ملیے اسے خفا کیجیے۔ تنہائی اختیار کیجے۔ جون کی تقلید کرنا ہے تو خود کلامی کیجیے اور کتابیں پڑھیے۔ اردو کے علاوہ بھی چند زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ جون کے مشکل اشعار پڑھ کر ان کے ماخذ کھوجیے۔ ایزرا پاؤنڈ سے عشق کیجیے اور اسے بھی جون سمجھیے۔ کم از کم دس برس تک شاعری مت کیجیے۔ کم از کم محمد علی صدیقی بنیے۔ جون کو اب بھی اپنے ان دوستوں کی تلاش ہے جن سے وہ گفت گو کر سکیں۔ آپ کو جون ایلیا کیوں منہ لگائے؟

2 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: