افغانستان میں ۳۲ سالہ لڑکی سوسن فیروز کو خواتین کی آزادی کی مخالف قوتوں نے اپنی من چاہی قدروں کے لیے ایک خطرہ تسلیم کر لیا ہے۔ دری لہجے سے تعلق رکھنے والی سوسن فیروز نے اپنا فنی کیرئیر سوپ ڈراموں میں اداکاری سے شروع کیا، لیکن بعد ازاںوہ افغانستان کی پہلی ریپ گانے والی کے طور پر سامنے آئی ہیں ، جوکہ عالمی سطح پر ان کی اصل پہچان بنا ہے۔ اپنے مزاحمتی کردار اورشخصی جذبات کے اظہار سے لے کر تمام معاشرتی برائیوں پر طنزکی وجہ سے ریپ موسیقی دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔
سوسن فیروز کا پہلا البم “ہمارے پڑوسی” افغانستان کی سیاسی، سفارتی اور سماجی حالت پر ایک درد مند دل کا گریہ ہے۔ اس کی موسیقی افغانستان کے نامور موسیقار استاد فرید رستگار نے دی ہے۔ اس البم کے گانے افغانستان میں جاری جنگ کی تباہ کاریوں سے جڑے درد کو موضوع بناتے ہیں، جیسا کہ؛ جب یہاں جنگ چھڑی تو بندوقوں نے گولیاں داغیں، توپوں نے گولے داغے اور راکٹ برسائے گئے۔ سب درخت راکھ ہو گئے اور جنگ نے ہمیں اپنے ملک سے ہانک دیا۔ہمارے پڑوسیو! ہماری جنگ میں دخل دینے کی بجائے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔
سوسن کا کہنا ہے کہ کسی افغان لڑکی کے پہلی دفعہ ریپ موسیقی جیسے شوخ و شنگ میدان میں آنے پر شدت پسندوں نے نہایت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسے گانا ترک نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار دینے یا اس کے چہرے تیزاب پھینک کر جھلسا دینے کی سنگین دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
(Published in The Laaltain – Issue 6)