Laaltain

سوال

22 اپریل, 2014
Picture of تنویر احمد تہامی

تنویر احمد تہامی

خواہشوں کے جگنو کیوں کھو سے گئے ہیں
اظہارِ تمنا کی سعی ٹوٹ چکی
بے ربط خیالوں میں چھپی
ہر سوچ کی خوشبو اب روٹھ چکی
مجبورآنکھوں سے اشکوں کی لڑی
سوال بن کرٹپک رہی ہے
مکتب کی رُت میں زیست کی الجھن
آنکھوں میں ریزہ ریزہ خوابوں کی چبھن
آتشِ افلاس کےشعلوں پے
سلگتی ہوی بے رنگ و بے نام سی دنیا
میری دنیا ….
جاڑے میں ٹھٹھرتا ہوا کنگال شجر
تشبیہہ عین ہے اس دنیا کی
میری دنیا کی ….
مایوسِ رحمت نہیں ہوں
منکرِ خدا نہیں ہوں
اس نے لکھا میرے حصے کا رزق بہت تھا
یہ بات مگر اب قسمت سے کہیں آگے ہے
کہ میری آنکھوں کو میسر نہیں
دیدارِ لقمہ نعمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اہلِ حکم کے ایوانوں سے نکلتے ہوئے
احکامات کے انبار بے معنی
صاحبِ منبر کی زباں سے ادا ہوتے
ایماں افروز قصے بے مقصد
آتشِ افلاس بھڑکتی جاتی ہے
زیست افلاس کا مداوا چاہتی ہے
چارسو گونجتا پھرتا ہے سوال
پلٹ کر سماعتوں سے ٹکراتی
سوال کی گونج ….
جواب مگر عمیق خاموشی
ہر صاحبِ زباں چپ آدمی خاموش
ہرشجر ہر بشر چپ، تِہامی خاموش
جواب عمیق خاموشی ….

ہمارے لیے لکھیں۔