پچھلے چند دنوں سے میں اپنی گردن پر رسی کا دباو زیادہ محسوس کر رہا تھا۔ درد میری گردن کی پچھلی سمت سے بڑھتا ہوا میرے کندھوں تک جا پہنچا تھا۔ میں نے غیر ارادی طور پر کھونٹے کے گرد سات چکر مکمل کئے اور تھک کر کھڑا ہو گیا۔ ایسا کرنے سے رسی کی گرہ میری گردن کے گرد مزید سخت ہو گئی۔اب میں بمشکل اپنا سر پنجرے کی آہنی سلاخوں سے ٹکرا سکتا تھا۔ میں امید بھری نظروں سے پنجرے کے درزوں سے باہر کی سمت دیکھنے لگا مگر وہ لوگ میری موجودگی سے بے خبر آتشدان میں لکڑیاں ڈال رہے تھے۔ میری دائیں طرف موجود دیوار سے ہلکا ہلکا پانی رس رہا تھا۔ آج ٹھنڈک بہت زیادہ تھی۔ میں باہر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ لیکن اُن کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کافی دنوں سے باہر شدید برف باری ہو رہی تھی۔ میں نے سردی کو اپنی ہڈیوں میں جاتا محسوس کیا اوراپنی اونی کھال میں گردن تک دُبک کر بیٹھ گیا۔انہوں نے پنجرے کے اندر میرا کھانا پھینکا۔ میں نے کھانے کو عادتاً سونگھا حالانکہ کہ کھانے کے ذائقے میں مجھے کبھی فرق محسوس نہیں ہوا وہ ہمیشہ ہی باسی ہوتا تھا۔میں نے تو کبھی اس کے علاوہ کچھ کھایا ہی نہیں تھا پھر میں اسے باسی کیوں کہہ رہا ہوں اس بارے میں میں واقعی کچھ نہیں جانت۔ا
میں ٹھیک سے یاد نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے اس آہنی پنجرے میں کب لایا گیا تھا اور کب میری گردن میں رسی ڈال کر مجھے کھونٹے سے باندھ دیا گیا تھا۔
میں ٹھیک سے یاد نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے اس آہنی پنجرے میں کب لایا گیا تھا اور کب میری گردن میں رسی ڈال کر مجھے کھونٹے سے باندھ دیا گیا تھا۔ شاید شروع ہی سے میں یہیں تھا۔ اس بارے میں یقینی طور پر کچھ بھی کہنا ناممکن تھا۔ مجھے اس بارے میں بھی قطعی اندازہ نہ تھا کہ مجھے یہاں کیوں لایا گیا۔ مجھے مبہم سا یاد پڑتا تھا کہ پہلے میرے علاوہ یہاں اور بھی تھے یا شاید یہ میرا واہمہ ہی ہو۔ میں اپنی یاداشت پر ہر گز بھروسہ نہیں کرتا۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا کہ وہ میری موجودگی کو مکمل طور پر فراموش کر چُکے ہیں۔ میں نے اُن لوگوں کو کبھی میرے بارے میں گفتگو کرتے نہیں سنا۔ شاید میں وہ راز تھا جسے وہ سب جانتے تھے پھر بھی ایک دوسرے سے چھپاتے تھے۔ میں ان کی وہ کمزوری تھا جس سے وہ چھٹکارہ نہ پا سکتے تھے۔
میری گردن کی رسی اتنی مختصر تھی کہ میں ایک جست بھی نہیں بھر سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ رسی نہ بھی ہوتی تو پنجرے کی سلاخیں بہت مضبوط اور اونچی اونچی تھیں۔ ایک بار میں نے سر اونچا کر کے اُس کی بلندی دیکھنے کی کوشش کی تھی پر مجھے یوں لگا کہ میری گردن ٹوٹ جائے گی۔ میں اپنی گردن کی قیمت پر فرار ہر گز نہ چاہتا تھا۔ ایک بار میں نے سلاخوں کے درمیانی راستے سے نکلنے کا سوچا تو میرا سینگ اس خیال میں ایسا الجھا کہ مجھے لگا کہ میرا سانس رُک جائے گا۔ اور میں زور زور سے اپنا سر پیچھے کھنچنے لگا۔ اسی کوشش میں میرا سینگ زخمی ہو گیا۔ کافی دنوں تک مجھے سر کا ایک حصہ خالی خالی محسوس ہوتا۔ اور پہلی دفعہ میں نے اپنی اوپری منزل پر دوئی کو محسوس کیا۔ وہ عموماً مقررہ وقت پر مجھے کھانا دیا کرتے تھے۔ لیکن وہ پنجرے کے اندر کبھی داخل نہ ہوتے بس وہیں سے کھانا اندر پھینک دیتے۔ کبھی کبھی جب وقت پر کھانا نہ آتا تو میں دیکھتا کہ وہ چوری چوری میری سمت دیکھ رہے ہوتے ایسے میں اُن کی آنکھوں میں شرمندگی صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ میں اُس لمحے میں بےنیاز ہو کر بیٹھ جاتا اور جُگالی شروع کر دیتا حالانکہ مجھے شدید بھوک محسوس ہو رہی ہوتی۔
اب مجھے یاد آرہا ہے کہ اکثر میں خواب دیکھتا تھا کہ وہ مجھے زور زور سے ہنٹر سے پیٹ رہے ہیں جس سے میری سفید کھال لہو لہان ہوتی جا رہی ہے کچھ زخم تو میری کھال سے بہت اندر تک اُتر جاتے ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد ہمیشہ ہی میں اپنی اگلی دو ٹانگیں اُٹھا کر سلاخوں کے اوپر رکھتا اور اپنا چہرہ رگڑ رگڑ کر صاف کیا کرتا۔ پھر میں اپنے چہرے کو پچھلی دو ٹانگوں کے درمیان لے جاتا گرم گرم دھار میرے ہونٹوں پر پڑتی اور میرے پورے وجود میں حرارت دوڑ جاتی۔ ایسے میں میرا دل کرتا کہ میں یہ آہنی دیواریں توڑ کر باہر نکل جاوں پر مجھے اُن کے ہاتھ میں ہنٹر دیکھ کر خوف محسوس ہوتا تھا۔ میری یادداشت میں انہوں نے مجھے کبھی ہنٹر سے نہیں مارا تھا لیکن مجھے اپنی کھال پر موجود بہت سے نشان اُسی ہنٹر کے محسوس ہوتے تھے۔ اب مجھے یاد آ رہا ہے کہ اکثر میں خواب دیکھتا تھا کہ وہ مجھے زور زور سے ہنٹر سے پیٹ رہے ہیں جس سے میری سفید کھال لہو لہان ہوتی جا رہی ہے کچھ زخم تو میری کھال سے بہت اندر تک اُتر جاتے ہیں۔ جب زخموں کا درد کم ہو جاتا تو میں انہیں چاٹ چاٹ کر میٹھے میٹھے درد کا اعادہ کرتا۔ مجھے اُن پر ہرگز اعتبار نہیں کرنا چاہے۔ یقینا یہ محض خواب نہیں تھے بلکہ وہ میرے سونے کے بعد اس پنجرے میں داخل ہوتے ہوں گے اور مجھے ہنٹر سے مار لگاتے ہوں گے۔ بس اب میں نے طے کر لیا ہے کہ اب مجھے سونا نہیں ہے۔ لیکن وجود کا کمبل اوڑتے ہی میں پھر سے نیند میں جانے لگتا ہوں۔ مجھے اُن کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ وہ میرے وجود سے سخت نالاں ہیں اور سوتے میں مجھے قتل کرنے کامنصوبہ بنا رہے ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اب وہ چاقو تیز کر ہے ہیں جس سے وہ میری گردن کو کاٹ دیں گے۔ اب وہ دھیرے دھیرے میرے پنجرے کی طرف آ رہے ہیں ۔ میں ان کے قدموں کی چاپ سُن سکتا ہوں۔ میرا خیال ہے مجھے اُٹھ جانا چاہئے اور ان کو بتا دینا چاہئےکہ میں ان کی مکروہ سازش کو سمجھ چُکا ہوں۔ لیکن یہ کیا کہ مجھے سخت نیند آتی جا رہی ہیں۔ کیا مجھے اس قتل کو خاموشی سے قبول کر لینا چاہئے۔ میرا سینگ ابھی بھی سلامت ہے جسے میں اُن کے پیٹ میں گھونپ سکتا ہوں۔ خاص طور پر وہ موٹے پیٹ والا جو سب سے آگے آگے چل رہا ہے۔ اُسی نے چاقو اپنی قمیص کے اندر چُھپایا ہوا ہے۔میں اُن کے آتشدان کی طرف دیکھتا ہوں وہاں لکڑیاں ختم ہو چکی ہیں۔ میں اپنے سر کو بھی کھال میں چھپانے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ سب تو سردی سے مر جائیں گے۔ میں اپنا سینگ زور زور سے پنجرے کی سلاخوں سے رگڑتا ہوں۔ اب یہ جلنے لگا ہے۔وہ سب میرے سینگ کے پاس کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ تاپنا شروع کر دیتے ہیں۔
Image: Wookjae Maeng
Leave a Reply