آج سے تین دہائیاں پہلے تک شاید ہی کسی نے سنا ہو کہ سندھ کی مذہبی رواداری اور صوفیانہ شناخت کو مذہبی شدت پسندی سے خطرہ لاحق ہے، اس علاقے میں تو تقسیم کے وقت بھی گنے چنے چند واقعات کے سوا کسی مسلک کے خون کا کوئی قطرہ نہیں بہا، یہاں اسی اور نوے کی دہائی کے جہادی اژدہوں کی پھنکار سنائی نہیں دی، مگر اب آئے روز سندھ سے خونریزی، نفرت اور فساد کی خبر آتی ہے۔ دھیمے سروں میں رام رحیم اور مولا کا ورد کرنے والوں کی زمین اب مذہبی انتہاپسندی کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ ہندو مسلم فسادات، ہندو لڑکیوں کا جبری مذہب تبدیل کرنا، مندروں پر حملے، فرقہ واریت معمول بن گئے ہیں، اور کسی کو فرق بھی نہیں پڑتا!
گزشتہ دنوں سندھ کے بالائی ضلع گھوٹکی میں معاملات تب بگڑے جب توہینِ قران کے ایک غیر مصدقہ واقعے کی اطلاع مذہبی جماعتوں تک پہنچی۔
گزشتہ دنوں سندھ کے بالائی ضلع گھوٹکی میں معاملات تب بگڑے جب توہینِ قران کے ایک غیر مصدقہ واقعے کی اطلاع مذہبی جماعتوں تک پہنچی۔ کسی نے تصدیق نہیں کی، صبر کی کوئی تلقین نہیں کی گئی بس خبر کا پہنچنا تھا کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ نیشنل ہائی وے بند کر دی گئی۔ لوگ ٹولیوں کی صورت میں شہروں میں داخل ہونا شروع ہوگئے، مشتعل افراد نے ایک صحافی کو بھی نہیں بخشا، کیمرا توڑنے کے ساتھ اس کی ہڈیاں بھی توڑ دی گئیں۔
اس مبینہ واقعے کی خبر پھیلتے ہی لوگوں نے بازار اور دکانیں بند کرنا شروع کر دیں، ضلع گھوٹکی کی ہندو برادری نے بھی مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، اور توہینِ قران کی مذمت کرتے ہوئے اپنے کاروبار بند کر دیے، مگر اس کے باوجود مشتعل لوگوں نے رہڑکی صاحب (جو ہندؤں کا مقدس دربار ہے) کا گھیراو کر لیا، پتھراؤ کیا، مگر اس بار سندھ پولیس اور رینجرز نے اس منصوبے ناکام بنا دیا یہ پہلی بار تھا کہ کسی بڑے نقصان سے پولیس اور رینجرز نے بچا لیا۔
اس مبینہ واقعے کی خبر پھیلتے ہی لوگوں نے بازار اور دکانیں بند کرنا شروع کر دیں، ضلع گھوٹکی کی ہندو برادری نے بھی مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، اور توہینِ قران کی مذمت کرتے ہوئے اپنے کاروبار بند کر دیے، مگر اس کے باوجود مشتعل لوگوں نے رہڑکی صاحب (جو ہندؤں کا مقدس دربار ہے) کا گھیراو کر لیا، پتھراؤ کیا، مگر اس بار سندھ پولیس اور رینجرز نے اس منصوبے ناکام بنا دیا یہ پہلی بار تھا کہ کسی بڑے نقصان سے پولیس اور رینجرز نے بچا لیا۔
اطلاعات کے مطابق توہینِ قران کا یہ مبینہ واقعہ ڈہرکی اور رہڑکی کے درمیان ایک گاؤں کی ایک پرانی مسجد میں ہوا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مسجد کافی عرصے سے ویران ہے لوگ بہت کم آتے ہں، تاہم یہ مسجد ایک امر لال نامی ہندو کا مسکن تھی، لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امر لال کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے اکثر نشے میں ڈوبا رہتا تھا، اور اس نے آج سے 3 یا 4 سال پہلے اسلام قبول کیا تھا، اور تب سے وہ اس مسجد میں اکثر آتا رہتا ہے۔ جس دن توہین قران کا واقعہ پیش آیا اس کے دوسرے دن مقامی لوگوں نے امر لال کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا، اب امر لال پولیس کی حراست مٰیں ہے، اور ایف آئی آر بھی درج ہو گئی ہے۔
حالات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب بدھ کی شام کو میرپورماتھیلو میں دو موٹر سائیکلوں پر سوارچھ نامعلوم افراد نے ایک ہوٹل پر دھاوا بولا اور دو ہندو لڑکوں پر فائرنگ کر دی
مگر جیسے جیسے یہ بات اس علاقے سے باہر نکلی، پورے ضلع میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ طیش میں آکر ہندو مخالف نعرے لگانے لگے، املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، اور تمام بڑے شہر بند کرا دیے گئے۔ حالات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب بدھ کی شام کو میرپورماتھیلو میں دو موٹر سائیکلوں پر سوارچھ نامعلوم افراد نے ایک ہوٹل پر دھاوا بولا اور دو ہندو لڑکوں پر فائرنگ کردی جس سے ستیش کمار موقع پر جان بحق ہو گیا، اور اویناش زخمی ہوا جو ابھی بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سندھ کا امن شدت پسندوں کے نشانے پر ہے، کسی بھی طرح ہندو مسلم فساد کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اب اس کے پیچھے کون سے محرکات ہیں اس کا پتا لگانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ ہر شہری کو برابری کے بنیاد پر سیکیورٹی فراہم کرے، اور امن خراب کرنے والے گروہوں کو بے نقاب کرے۔
یہ بھی یاد رہے کہ گھوٹکی ضلع میں ایک اندازے کے مطابق اٹھاسی ہزار ہندو رہتے ہیں، اور یہاں کا کاروبار بھی اکثر ہندو برادرری کے پاس ہے۔ 2012 میں رنکل کماری کے جبری مذہبی تبدیلی کے بعد گھوٹکی میں ہر سال ہندو مسلم فساد ہونے کا امکان رہتا ہے اور ہر سال کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے۔ رنکل کمار کا اغوا، انجلی کماری کا اغوا اور اب ڈہرکی میں کشیدگی۔ گھوٹکی کے ہی گردو نواح میں سندھ کے ایک ہندو صوفی بھگت کنور رام کو بھی کچھ لوگوں نے رک اسٹیشن کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بٹوارے کے دوران یہ واقعہ ہوا تھا، بہت سے لوگ اس قتل کا الزام بھی بھرچھونڈی کے پیروں پر لگاتے ہیں۔
سندھ میں جیسے جیسے مذہبی تنظیموں، کالعدم جہادی تنظیموں اور تکفیری فکر کے حامل مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یہاں مذہبی کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔
سندھ میں جیسے جیسے مذہبی تنظیموں، کالعدم جہادی تنظیموں اور تکفیری فکر کے حامل مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یہاں مذہبی کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔ سندھ میں پچھلے پانچ سالوں میں 30 مندروں پر حملے کئے گئے ہیں، ہولی منانے پر توہین مذہب کے مقدمات قائم کیے گئے، بدین کے علاقے پنگریو میں بھورو بھیل کے لاش کو قبر سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا، اور سیکڑوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کے بعد جبراً مسلمان کیا گیا۔ یہ سب دلخراش واقعات یہ بتاتے ہیں کہ بہت جلد سندھ اپنا پرامن صوفیانہ تشخص کھو دے گا، تصوف جو اس مٹی کے لوگوں کے ضمیر اور خمیر میں شامل تھا اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
اس سارے معاملے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ریاست کی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ منتخب حکومت اور سویلین ڈھانچہ کمزور ہے اور قوم پرست تحریکوں کو کمزور کرنے کے لیے شدت پسندوں کی جانب سے آنکھیں بند کر لی گئی ہیں۔ قوم پرست تحریکوں کو کمزور کیا گیا ہے جس کے باعث سندھ میں قائم مذہبی رواداری کی جگہ مذہبی بنیاد پرستی کو موقع مل رہا ہے۔ سندھ کے صوفی تقدس کو بحال رکھنے میں قوم پرست تحریکوں اور سندھ کے قوم پرست دانشوروں سمیت یہاں کے ادیب طبقے نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ شدت پسند مذہبی عناصر کی سرگرمیاں جاری ہیں مگر ریاست کی طرف سے ابھی تک سندھ میں ایسے عناصر کی مذمت نہیں کی گئی۔ سندھ حکومت کی جانب سے ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی جس سے یہاں کے امن پسند لوگوں اور یہاں کی ہندو برادری کو کوئی تسلی ملے۔
یہاں مسئلہ اب صرف ہندو برادری کا نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو مذہبی ہم آہنگی کی بات کرے، اقلیتوں کے حقوق کی بات کرے ان کو بھی خطرہ ہے، اب تو اہل تشیع کو بھی سندھ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، خودکش دھماکوں کی بھی شروعات ہوچکی ہے، جہادی بھرتیاں بھی شروع ہو چکی ہیں اور توہین مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کے واقعات بھی رونما ہونے لگے ہیں۔
مٹھی میں بننے والے سب سے بڑے مدرسے کے بارے میں لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کے اندر کسی بھی مقامی آدمی کو نہیں جانے دیا جاتا
اب تو لگتا ہے کہ سندھ کا ضلع تھرپارکر بھی اس شدت پسندی کی لپیٹ میں آ گیا ہے، یہاں بہت تیزی سے مدارس بن رہے ہیں، نیوں کوٹ سے لیکر ننگر پارکر تک پورا ضلع مدرسوں کا نیٹ ورک بن گیا ہے۔ ان مدارس کی سرگرمیوں کی کوئی نگرانی نہیں کی جاتی۔ مٹھی میں بننے والے سب سے بڑے مدرسے کے بارے میں لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کے اندر کسی بھی مقامی آدمی کو نہیں جانے دیا جاتا، یہاں تک کہ جو ٹرک سامان لے کر آتے ہیں ان کے ڈرائیوروں کو باہر کھڑا کیا جاتا ہے اور اس مدرسے کا کوئی ملازم ہی ٹرک اندر لے کر جاتا ہے۔ جتنے بھی مدرسے بن رہے ہیں ان میں مقامی لوگ بہت ہی کم تعداد میں ہیں مگر باہر سے آئے ہو ئے لوگ بہت ہیں، اب ان کا ایجنڈا کیا، وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اس کی ابھی تک کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔
مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی میں اضافے سے تھرپارکر کی مقامی ہندو آبادی خوفزدہ ہے، کئی لوگ تو اپنے آبائی شہر چھوڑ کر اسی ڈر سے بھارت ہجرت کر گئے ہیں کہ یہاں اب ان کی عزتیں، کاروبار اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس سارے معاملے پر اقلیتی اراکین اسمبلی، حکومت وقت اور ریاست سبھی خاموش ہیں۔ ابھی تک اس تشویشناک صورت حال کی روک تھام کے لیے کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس سارے معاملے سے تو لگتا ہے کہ اب سندھ کو بھی مذہبی انتہاپسندی کی آگ میں دھکیلنے کی تیاری ہو رہی ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کراچی میں سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو چکا ہے اور بقیہ سندھ کی جانب سول حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔
بدین، تھرپارکر، گھوٹکی سمیت سندھ کے وہ اضلاع، جو معدنی وسائل سے مالامال ہیں، اور ان اضلاع میں ہندو برادری کی بھی کثیر تعداد موجود ہے وہاں مذہبی انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے
سب سے غور طلب امر یہ ہے کہ، بدین، تھرپارکر، گھوٹکی سمیت سندھ کے وہ اضلاع، جو معدنی وسائل سے مالامال ہیں، اور ان اضلاع میں ہندو برادری کی بھی کثیر تعداد موجود ہے وہاں مذہبی انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور مذہبی فسادات شروع کرانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ کی مجموعی معیشت کو آگے بڑھانے میں سندھ کی ہندو برادری کا اہم کردار ہے۔ اندازے کے مطابق سندھ کی اسی فیصد ہندو آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور پندرہ فیصد کاروبار سے، اور پانچ فیصد نوکر شاہی سے۔
گھوٹکی واقعے میں سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ تھی کہ ہر ترقی پسند سندھی نے فساد کو روکنے اور اشتعال کو رفع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا، نہ صرف توہیں قران کی مذمت کی بلکہ گھوٹکی کی ہندو برادری کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب رہے کہ وہ ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، مگر پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی اس واقعے کی مذمت نہیں کی، سوائے پیپلز پارٹی اور نیشنل پارٹی اسلام آباد کے۔ لیکن پیپلذ پارٹی کو اب صرف مذمت نہیں بلکہ سندھ کو بچانے کے لیے عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا وگرنہ سندھ میں لگنے والی آگ کو بجھانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
Leave a Reply