Laaltain

سمندر جزیروں کو کھا جاتا ہے

14 اکتوبر، 2016
Picture of زید سرفراز

زید سرفراز

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

سمندر جزیروں کو کھا جاتا ہے

[/vc_column_text][vc_column_text]

میرے دادا کے آٹھ بچے تھے
تین نے
منزل کی طرف کوچ کیا
باقی پانچ
انتظار اور کرب کی صلیب اٹھائے
کسی جزیرے کی طرح
الگ تھلگ، ویران
خواہش کے کانٹے میں پھنسے
ایک ہی بطن سے جنم لینے والے
شاید
اپنا انتخاب خود کرنا چاہتے تھے
تقدیر نے انہیں اکٹھا باندھ دیا

 

آنکھ کا کھلنا
زندگی کے جال میں ایک نئے فرد کی آمد
موت
انجان ترائیوں میں کسی
نیک روح کے پہلو میں دفن ہونا

 

جزیرے، جزیرے نہیں رہتے
سمندر
جزیروں کو کھا جاتا ہے

 

صحن میں کھیلتے بچے
آسمان کے تاروں میں
اپنی الگ بستیاں بسانے کے جنوں میں
جزیرے بن جاتے ہیں

 

دکھ اور سدھارتھ کا وعظ
رشی منی
کے مریدوں کے ہاتھ میں لٹکے کاسے میں
وقت
خیرات کی صورت
ہمیں جزیرے بننے پر مجبور کرتا ہے
اورسمندر
ان جزیروں کو کھا جاتا ہے

Image: Jason deCaires Taylor
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *