سعید ابراہیم لاہور میں رہتے ہیں اور میں دلی میں مقیم ہوں۔ خاص طور پر جس علاقے میں میری رہائش ہے، میرے کئی پاکستانی دوست اس کی تصویریں دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بالکل لاہور جیسا دکھائی دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ عکس کتنے خوبصورت یا بدصورت ہیں۔۔ مگر حالات جس طرح بدل رہے ہیں، میرے شہر اور ملک میں لوگ پاکستان کا نام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ اس ملک میں صرف دہشت گرد، تشدد پسند اور سخت گیر مذہبی فکر رکھنے والے ایسے افراد موجود ہیں، جن کے ساتھ دوستی ہونا یا کسی قسم کا تعلق ہونا ایک عام ہندوستانی کو مشکوک کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ صورت حال پہلے تو ایک وہم کی صورت میں موجود تھی، اب ایک بیماری بن گئی ہے بلکہ اسے وبا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسی طور میری ایک پاکستانی دوست مجھے بتاتی تھی کہ اس کے کالج میں موجود اساتذہ بار بار طلبا کو سمجھاتے ہیں کہ ہندوستانی ہمارے دشمن ہیں۔ وہاں کے ہندو، مسلمانوں پر مظالم کی برسات کررہے ہیں، وہاں مسلمانوں کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ان کو مارا، کاٹا اور اغوا کیا جاتا ہے، وہ دوسرے شہری کی حیثیت سے اس ملک میں ڈر ڈر کر رہتے ہیں۔یعنی ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک کے لوگوں کے بارے میں رائے بناچکے ہیں اور یہ دونوں طرف ہے۔ اوریا مقبول جیسے پاکستانی کالم نویس تو ہندوستانی مسلمانوں کو غدار، ڈرپوک حتٰی کہ کافر بھی کہہ چکے ہیں۔ان صورتوں میں جب ہمارے ہی ٹی وی چینل ایسے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر پروپگینڈا کرتے ہیں جو اپنے ملک کے تعلق سے خطرناک صورت حال کو بیان کرتے ہیں، وہاں کی ایسی تصویر دکھاتے ہیں، جس میں لگتا ہے کہ وہاں کا ہر باشندہ یا تو خودکش بمبار ہے یا پھر بمباری کرنے والے افراد کا ہمدرد۔میں نے اس حوالے سے ہندی میں کچھ مضامین لکھے ہیں اور کچھ لکھنے کا ارادہ ہے، جس سے یہ بات ثابت ہو کہ کوئی ملک اگر انتشار کا شکار ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کے تمام رہنے والے اسی فکر کے ہوں، آج کل بھارت کی بھی حالت نازک ہے۔میں نے اپنے بچپن سے اب تک ہندو مسلمان، دلت اور براہمن کی ایسی خطرناک تفریق پیدا کرنے والی لکیر اتنی روشن اور ایسی کاٹ دار نہیں دیکھی تھی، جس کا مشاہدہ آج کل کررہا ہوں۔بھارت کے سیکولر ہندو سیاست کی اس کروٹ سے پریشان ہیں۔ اقلیتوں میں بے چینی ہے اور بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ مذہب کی ٹوکری میں رکھ کر بیچی جانے والی نشہ آور ادویات کا کاروبار بند ہو اور جمہوریت کے اس جدید اور اجنبی تصور سے راحت ملے، جس میں عوام کی عدالت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے لگوائی جارہی ہے۔
ہم یہاں بیٹھ کر جب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مجبور عیسائی عورت کو قید و بند کی صعوبت صرف پاکستانی مسلمانوں کی جہالت آمیز ضد کی وجہ سے برداشت کرنی پڑرہی ہے تو دکھ ہوتا ہے۔مشعال کے بارے میں برے اور گھنونے پروپگینڈے کی صورتیں سامنے آتی ہیں، اس کو مارنے والے بے رحم ہاتھ، اس کے سر میں داغی جانے والی گولی، اس کی لاش پر پھوڑے جانے والے گملے اور مذہبی جنونیت کو منہ چڑاتا ہوا اس کا ادھ ننگا بدن دیکھ کر دل جمنے لگتا ہے،آنکھیں تھمنے لگتی ہیں۔ مذہبی گستاخیوں کے الزام میں سنائی جانے والی ایسی خطرناک سزائوں کا دور سرحد کے دونوں جانب موجود ہے۔بازار لگا ہوا ہے، نظریں جھکی ہوئی ہیں۔جن لوگوں نے اخلاق کو مارا تھا، انہیں اس کی ابلی اور کچلی ہوئی وہ آنکھیں کہاں دکھائی دی ہونگی، جو موت سے پہلے ہی باہر کو نکل آئی تھیں۔جن لوگوں نے راجستھان میں پہلو خان نامی ایک غریب شخص کو گائے بیچنے کے جرم میں سڑک پر گھسیٹ کر پیٹا ہوگا، اس کے خون کا رنگ کب ان کی آنکھوں کو پانی کرسکا ہوگا۔ہم سب رفتہ رفتہ سفاک ہوگئے ہیں، ہم ہندوستانی اور ہم پاکستانی سبھی ایک قسم کے جرم میں ملوث ہیں۔تماشا دیکھنے کے جرم میں، جہاں سچ بولنے، سچ کی طرفداری کرنے، غیر جانبدار یا سیکولر ہونے، مذہب و وطن کی محبت میں انسان کو جنونی بنانے کی مخالفت کرنے اور اب تو اپنی روزی روٹی کمانے کے بدلے بھیانک موت کی سزا سنائی جاتی ہے، گلیوں میں نعش کھینچتے پھرنے کا حکم صادر کردیا جاتا ہے۔
اس قسم کی صورت حال میں جب آپ ایک کتاب پڑھتے ہیں، جو اندھوں کو آنکھیں عطا کرنے کا ہنر رکھتی ہے تو آپ چونکتے ہیں۔آپ سوچتے ہیں کہ یہ مصنف کہاں سے اتنی جرات بٹور لایا کہ اس نے ایک ایسے موضوع پر، جس کی مذمت بھی ہمارے سماجوں میں شرم کے مارے ٹھیک سے نہیں کرنے دی جاتی۔اتنے منطقی لہجے میں گفتگو کی ہے۔اس قدر عقل و شعور کے ساتھ، مختلف ذیلی موضوعات بنا کر ان کے بارے میں موجود غلط فہمیوں کو دور کیا ہے اور ان کی اصلی صورت ہمیں دکھائی ہے۔سعید ابراہیم کا شہر اور میرا علاقہ ہی نہیں ملتا جلتا ہے، بلکہ میں ان میں ایک آزاد، سمجھدار اور ذمہ دار انسان کی جھلک دیکھتا ہوں، جو ہمیں بتاتا ہے کہ سوسائٹی میں موجود سیکس کا تصور اتنا خام اور الجھا ہوا کیوں ہے، جبکہ اس پر بات کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ان کی کتاب کا نام ہی ‘سیکس اور سماج’ ہے۔ ظاہر ہے کہ سماج سیکس کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ریپ ہوتے رہیں، گھروں میں لڑکیاں/عورتیں شادی سے پہلے یا بعد میں اپنے ہی رشتہ داروں، عزیز و اقارب کی ہوس کی بھینٹ چڑھتی رہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے داڑھی والے سفید پوش بزرگ کونوں کھدروں میں جنسی تسکین حاصل کرتے رہیں، بسوں،ٹرینوں، سڑکوں اور گلیوں میں عورت کا جسم دیکھ کر ہیجان میں مبتلا ہوجانے والی نسلیں تیار ہوتی رہیں، لوگ فرسڑیٹ ہوجائیں، پاگل ہوجائیں، جنون اختیار کرلیں، مرجائیں۔مگر اتنی اجازت نہیں مل سکتی کہ اس موضوع پر کھل کر چند لمحوں تک بات کی جائے۔سب کے سامنے، کیونکہ یہ سب کا مسئلہ ہے،یہ ایک اجتماعی پرابلم ہے،جس کا اجتماعی حل ضروری ہے۔اسے نہایت انفرادی کہہ کر، اس پر قابو پالینے کو ثواب یا پنیہ گرداننے والے ملائوں اور پنڈتوں نے ہمیشہ سے لوگوں کو ایک بند ہانڈی میں ابلنے والے چاولوں کی طرح چھوڑ دیا ہے، پتیلیوں کے تلے داغدار ہورہے ہیں، ڈھکنوں سے سفید جھاگ کی لکیریں رس کر باہر آرہی ہیں، مگر ڈھکنی ہٹانے کی اجازت نہیں ہے۔میرے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ہندوستان کے سب سے بڑے ہسپتال ایمز میں ایک کیس آیا تھا، جس میں ایک لڑکی اپنے سر کے بال نوچتی تھی،اور بار بار اپنے کپڑے پھاڑ کر الگ کردیتی تھی، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جنسی جذبات کو دباتے دباتے پاگل ہوگئی ہے۔آپ غور کیجیے تو ہمارے معاشروں میں ہر دوسرا آدمی اسی قسم کاذہنی مریض ہے۔سعید ابراہیم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بتایا ہے کہ اس ذہنی مرض سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔میں آپ کے سامنے پوری کتاب ضیافت کے لیے پروس نہیں سکتا۔یہ آپ کا مسئلہ ہے، آپ کے گھروالوں کا مسئلہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آپ کتاب خریدیں اور اسے پڑھیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ سیکس کے موضوع پر اردو میں ایسی بہترین کتاب اس سے پہلے شاید نہیں لکھی گئی۔اگر کہیں اکا دکا کچھ نمونے ہونگے بھی۔ تب بھی وہ اس کتاب کی تنظیم و ترتیب اور آسانی کلام یا سہل بیانی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
سعید ابراہیم نے کتاب نہیں لکھی ہے، سیکس کو سماج کا سب سے بڑا سوال بنایا ہے۔انہوں نے اس مردہ تصور سے باہر نکل کر اس پرابلم کو دیکھا ہے جو بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی لذت بھی ہے اور ڈھکے چھپے معاشروں کے لیے جی کا جنجال بھی۔سیکس کے مسئلے کو چار شادیوں اور ہزار باندیوں کے چودہ سو سال پرانے نسخے سے حل نہیں کیا جاسکتا اور پھر یہ مسئلہ صرف مرد کا تو ہے نہیں۔مذہب تو صرف مرد کی آسائش کو ملحوظ رکھتا ہے، عورت کے اندر تو اس کے لحاظ سے نہ کوئی جسمانی خواہش ہوتی ہے،نہ کوئی جنسی ضرورت۔وہ تو ایک ایسی مشین ہے کہ بس جس کے پلے باندھ دی جائے، خواہ اس کی پہلے سے تین بیویاں اور ستر باندیاں موجود ہوں، وہ چپ چاپ اپنی باری آنے کا انتظار کرتی رہے۔اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب صرف سیکس کو موضوع نہیں بناتی ہے، بلکہ سیکس کے بارے میں غلط تصورات خواہ وہ مذہبی ہوں یا سماجی۔اس کی سب سے بڑی دریافت ہیں۔حالانکہ ان دریافتوں کا سہرا مکمل طور پر سعید ابراہیم کے سر جانا چاہیے مگر بالراست اس کا کریڈٹ اردو کے مشہور افسانہ نگار منٹو کو بھی ملتا ہے۔بقول مصنف انہوں نے اس کتاب کو لکھنے کے لیے ان بے چینیوں سے تو کام لیا ہی، جو ان کے بچپن سے شاخ نو کی طرح ان کے اندر پھوٹ رہی تھیں، مگر ساتھ ہی ساتھ منٹو کی تحریروں سے عشق اور اس کے جرات بیان سے ایک ایسی غیر ادبی کتاب وجود میں آسکی جو اس نہایت عام انسانی مسئلے پر خاص انداز میں بات کرنے کا ہنر جانتی ہے۔اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ منٹو جیسا تخلیق کارسوسائٹی کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے، وہ خود تو ان مسائل پر ایک غیر منظم طور سے اپنی کہانیوں اور مضامین میں بات کرتا ہی ہے، مگر اپنے زیر اثر ایسے مصنف بھی پیدا کرتا ہے، جن کے یہاں سیکس کے موضوع پر تحقیق کرنے کی ہمت اور اپنے مشاہدات و مطالعے کی بنیاد پر پیدا ہونے ہونے والے نظریات کو بیان کرنے کا سلیقہ بھی موجود ہوتا ہے۔
کتاب کے سارے حصے دلچسپ ہیں۔فہرست پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا ذہن کتنا صاف ہے، اردو میں لکھی جانے والی اس کتاب کا بلاشبہ اگر ہندی اور انگریزی میں ترجمہ ہو تو بہت سے نئے ذہن اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، بلکہ اس کتاب کا تو کئی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔بلوچی، سندھی، مراٹھی، بنگالی، پنجابی اور گجراتی۔خاص طور پر ان زبانوں میں کیونکہ ان میں ایسی کتابوں کی کمی ہے۔بنگالی میں شاید نہ ہو،لیکن باقی زبانیں تہذیب اور اس کے خول میں اتنی بری طرح قید ہیں کہ ان میں اس کتاب کو پڑھنے والے واقعی بہت کچھ نیا جان سکیں گے اور شرم کے اس نام نہاد دائرے سے باہر آکر اپنے بنیادی مسئلوں پر گفتگو کرنے کا سلیقہ سیکھیں گے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف اردو بولنے والوں کا نہیں ہے۔ہندوستان کے اتراکھنڈ یا ہماچل پردیش میں صورت حال یہ ہے کہ آج بھی حیض شدہ عورت کا بستر الگ کردیا جاتا ہے، اس کے گرد ایک دائرہ بنادیا جاتا ہے، وہ کچن میں نہیں جاسکتی، اس کے برتن الگ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر دودھ پینے والا بچہ اس کے ساتھ موجود ہے، تو اسے بھی اس کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اگر وہ اپنی نادانی کی وجہ سے لکیر پار کرکے کسی جگہ پہنچ جائے تو اس جگہ کو گائے کے پیشاب سے دھوکر پاک کیا جاتا ہے۔ہریانہ میں حیض کےدوران عورتوں کو بہت وقت تک طبیلوں میں باندھ دینے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ایسا کئی جگہوں پر ہوتا ہے، جہاں حیض کی شکار عورت کو نفسیاتی اور جسمانی تنہائی گھوڑوں یا بھینسوں کے ساتھ گزارنا پڑتی ہے۔پاکستان کی صورت حال اس معاملے میں زیادہ مختلف نہیں ہے، وہاں بھی حیض کو ایک آسمانی آفت تصور کیا جاتا ہے، حیض آنے پر گویا عورت عورت نہیں رہتی، وہ نماز نہیں پڑھ سکتی، روزہ نہیں رکھ سکتی۔مذہب اسے چٹکی میں پکڑ کر ایک ایسے اجنبی ریگستان میں چھوڑ دیتا ہے جہاں صرف اپنے عورت پن کو کوسنے کے علاوہ اور دوسرا کوئی چارہ نہ رہے۔حیض آج بھی ایک بڑا موضوع ہے، جس پر ہمارے معاشروں میں موجود مختلف تصورات پر تحقیق کرکے سعید ابراہیم جیسے مصنف ہی بہت کچھ لکھ سکتے ہیں اور ان کے تعلق سے موجود غلط فہمیوں کو دور کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کو بہت سی سہولیات مہیا کرائی جائیں، ایسے مصنفین کو تو باقاعدہ حکومت کی امداد ملنی چاہیے، مگر حکومتیں ہمارے معاشروں میں ایسے غلیظ تصورات کا فائدہ اٹھاکر ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ خوشحال اور امیر طبقہ یا خود کفیل پرائیوٹ ادارے ایسے موضوعات پر بات کروانے یا کتابیں لکھوانے کے لیے مصنف کو ایک آرام دہ زندگی میسر کرانے کے لیے آگے آئیں۔اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ مصنف پر بالکل احسان نہ کریں گے بلکہ اپنے معاشرے کو صحیح سمت میں لے جانے اور اسے ابتذال سے بچانے کے لیے، ایک بہتر مستقبل عطا کرنے کے لیے کام کریں گے، جس کا اثر ظاہر ہے کہ ان کی نسلوں پر تو پڑے گا ہی بلکہ ان کی موجودہ شناخت کو بھی یہ تبدیلی متاثر کرے گی اور وہ اپنے وطن میں موجود سیکولر ذہنوں کو زیادہ سے زیادہ پیدا کرسکیں گے۔
سیکس اور سماج جیسی کتابیں سرکاری نصاب کا حصہ تو شاید نہ ہوسکیں۔ لیکن انہیں نصاب کا حصہ بہرحال ہونا چاہیے،ایسے مصنفین کو سکولوں، کالجز میں طلبا سے بات چیت کے لیے بلایا جانا چاہیے، طلبا کو اس بات پر آمادہ کرنا اساتذہ کا کام ہے کہ وہ جو باتیں اپنے والدین، دوستوں یا عزیز و اقارب سے کہتے ہوئے گھبراتے ہیں، مصنف سے کھل کر کہہ سکیں۔اس سے معاشرے میں لگے ہوئے فرسٹریشن کے گھن کا کچھ علاج ہوگا اور رفتہ رفتہ یہ تبدیلی آزاد ذہنوں کو پیدا کرے گی اور وہی طلبا کل کو اپنے دوستوں اور بہت ممکن ہے کہ اپنے والدین کو بھی اس بات پر آمادہ کرسکیں کہ سیکس کے موضوع پر بات کرنے یااس سے جڑے مسائل کا تذکرہ کرنے سے بے شرمی نہیں پھیلتی بلکہ معاشرہ ایک غیر ضروری ذہنی و نفسیاتی تکلیف سے آزادی حاصل کرتا ہے۔
دلی میں ریپ بڑھ رہے ہیں، ظاہر ہے دوسری جگہوں پر بھی ان کی تعداد میں کمی نہیں ہورہی ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ ریپ اب بے رحمی سے کیے جاتے ہیں، ریپ کرنے والا معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے کسی قسم کا بدلہ لے رہا ہے، وہ اس کے وجود سے گھبرایا ہوا ہے، عورت کے بدن سے چپکی دو نازک جھلیوں کو وہ اپنے غصے سے پھاڑ دینا چاہتا ہے، اس کے بدن میں نہ جانے کیسے کیسے خطرناک آلات گھسیڑ کر وہ بچہ دانی اور آنتوں تک کو باہر نکال لینا چاہتا ہے۔ریپ ہوجاتا ہے، میڈیا میں شور مچتا ہے، باتیں ہوتی ہیں، لوگ اسے قیامت کے آثار میں شامل ایک بات کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں، کینڈل مارچ ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عورتوں یا لڑکیوں کی بھیڑ پھانسی کا مطالبہ کرتی ہے۔دلی میں ہی چند برسوں قبل ہونے والے نربھیا کانڈ کے سبھی ملزمین کو پھانسی کی سزا ہوئی،لیکن راجدھانی میں ریپ نہیں رکے، ہوتے رہے اور اسی بے رحمی سے ہوتے رہے۔اگر پھانسی کی سزا اس بیماری کا علاج ہوتی تو یہ بے رحم عمل رک جانا چاہیے تھا۔لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ ریپ کرنے والوں کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے، وہ اتنے ناراض کیوں ہیں۔عورت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔بلکہ سماج ہی اس معاملے میں ملزمین کا بھی دوشی ہے اور عورتوں کا بھی۔وہی نہیں چاہتا کہ یہ مسئلہ حل ہو کیونکہ اگر مسئلہ حل ہوا تو اسی صورت میں حل ہوگا جب لوگ بالغ ہوکر ان معاملات پر سوچیں گے اور لوگوں کو سوچنے سے جتنا زیادہ دور رکھا جاسکتا ہے، اتنا اچھا ہے۔سعید ابراہیم کی کتاب اسی سوچنے سمجھنے کےرویے کو عام کرسکتی ہے۔انہیں بھی اس سوسائٹی میں خطرہ ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ اسی سوسائٹی میں ان کے ہمدرد بھی پیدا ہوچکے ہوں گے۔
آپ اس کتاب کا کوئی بھی حصہ پڑھ جائیے، یہ کتاب آپ کو پریشان کرے گی، پریشان اس معاملے میں کہ اتنی اچھی باتیں سمجھنے سے آپ کو کیوں روکا جاتا ہے۔والدین کیوں اپنے بچوں کی پرابلم نہیں سنتے۔سیکس آخر ہے کیا چیز؟ سیکس کا مذہبی تصور کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ ماسٹربیشن کا معاملہ کیا ہے اور اس کی حقیقت اور اس سے پڑنے والے نفسیاتی اثرات کے درمیان کتنا فرق ہے۔اس کے علاوہ خود عورتیں اس معاملے میں کتنی کنفیوزڈ ہیں، ہمارے وہ بڑے اذہان جنہیں ہم اقبال یا اکبر الہہ آبادی کے نام سے جانتے ہیں، تہذیب کے نام پر سماج سے کیسی دشمنیاں نبھاتے رہے ہیں۔مردانگی کے اوندھے الٹے تصورات کیا ہیں، عورت سے خوف کیوں آتا ہے، شادی اور جہیز کا سسٹم اتنا عام اور لعنت کی طرح کیوں مسلط ہے۔یہ تمام مسائل اور ان پر گفتگو کرنے والی سعید ابراہیم کی کتاب کو اگر آپ نے نہیں پڑھا ہے اور اپنے دوستوں کو پڑھنے کے لیے اب تک آمادہ نہیں کیا ہے تو ضرور کیجیے کیونکہ یہ مسئلہ ہر ذہن کو متاثر کرتا ہے، یہ صرف ایک آدمی کی پرابلم نہیں ہے۔
Leave a Reply