[blockquote style=”3″]

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے مشیر برائے سلامتی بروس ریڈل تیس سال تک امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے وابستہ رہ چکے ہیں، ساٹھ کی دہائی میں بھارت چین کشیدگی ہو ایوب دور میں پاکستا ن امریکہ تعلقات کی نئی اڑان ہو یا افغان جہاد میں امریکی کردار۔۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کی کہانی ہو یا پھر کارگل جنگ کے بعد نواز کلنٹن ملاقات کے راز، بروس ریڈل کئی اہم معاملات کے عینی شاہد ہیں۔ رفیع عامر پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو ایک عرصے سے نیوجرسی میں مقیم ہیں، کہنے کو تو سافٹ وئیر بیچتے ہیں لیکن تاریخ، سیاسیات اور جغرافیائی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی وہ پاکستان سے ایسے بندھے بیٹھے ہیں جیسے کشتی سے ملاح۔ ان کی حالیہ کاوش بروس ریڈل کی کتاب ‘اوائیڈنگ آرماگیڈن’ کے ایک باب کاترجمہ ہے، جس کی دوسری کڑی قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ کہانی طویل ہے اور ایسے میں تمام تر حوالہ جات کا نقل کرنا قدرے مشکل تھا لہذا حسب ضرورت کسی بھی حوالے کے لئے کتاب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ (تعارف: اجمل جامی)

[/blockquote]

اس سلسلے کی پہلی اور تیسری قسط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

لیکن نکسن اور کسنجر نے مشرقی پاکستان میں قتل عام روکنے کے لئے کوئی بھی سنجیدہ اقدامات کرنے سے انکار کیا۔ کسنجر نے امریکی صدر کی ہدایت پر تمام حکومتی اداروں کو پاکستان اور یحیی خان حکومت کی طرف جھکاؤ کا حکم دے دیا باوجود اس کے کہ بیوروکریسی کی اکثریت اس کی مزاحمت کرتی رہی۔

قومی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے بروس ریڈیل لکھتا ہے کہ علاقائی ماہرین (جنوبی ایشیا) کی مزاحمت کی وجہ سے کسنجر نے چلاتے ہوئے کہا، "صدر مملکت ہمیشہ پاکستان کی جانب جھکاؤ کی ہدایت کرتے ہیں اور یہاں مجھے ہر تجویز اس سے متضاد سمت میں دی جاتی ہے، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں کسی پاگل خانے میں مقیم ہوں۔”

الغرض یہ کہ مشرقی پاکستان میں موجود امریکی سفارتکار اپنے ملک کی پالیسی پر ورطہ حیرت میں تھے۔ اپریل انیس سو اکہتر میں ڈھاکہ میں موجود تقریباً ہر امریکی سفارتکار کے دستخطوں کے ساتھ ایک اختلافی نوٹ امریکی وزارت خارجہ کو بھیجا گیا، جس کا ایک حصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے؛

"ہماری حکومت جمہوریت کچلے جانے کی مذمت اور ظلم کے خلاف بولنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ امریکہ اپنے شہریوں (دہری شہریت والے بنگالی امریکی) کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں- اور دوسری طرف ہماری حکومت نے اپنا تمام وزن مغربی پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سےعالمی برادری پاکستان کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کاروائی سے گریزاں ہے- ہماری حکومت کے پاس اس فوجی آپریشن کے اخلاقی دیوالیہ پن کے تمام شواہد موجود ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ سوویت یونین نے تو یحییٰ خان کو پیغام بھیج دیا ہے جس میں جمہوریت کا دفاع کیا گیا اور انتخابات جیتنے والی پارٹی کے لیڈروں کی گرفتاریوں کی مذمت کی گئی ۔مگر ہم نے یہ طے کیا کہ اخلاقی بنیادیں ہمیں ایسے عمل میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتیں۔ جسے ہر طرح سے محض نسل کشی کہا جا سکتا ہے اور اسے انسانی بحران کی بجائے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینا قطعا درست نہیں۔”

امریکی قونصل جنرل آرچر بلڈ نے یہ مراسلہ، جسے بعد میں بلڈ ٹیلی گرام کا نام دیا گا، واشنگٹن بھیجا جسے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے اپنی حمایتی دستخطوں کے ساتھ وزیر خارجہ ولیم راجرز کو بھیج دیا- قونصل جنرل نے اس مراسلے کی کلاسیفکیشن "خفیہ” رکھی تھی لیکن نکسن سے اسے تبدیل کر کے "خفیہ / نو ڈس ” کر دیا جو کسی بھی ایسے مراسلے کے لئے سب سے خفیہ کلاسیفکیشن تھی-

نکسن کے پاکستان کی طرف جھکاؤ کی واحد وجہ اس کی بھارت دشمنی نہیں تھی- پس پردہ ،صدر نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر کسنجر امریکہ کی چین کے بارے دو دہائی پر محیط پالیسی کو الٹانے میں مصروف تھے اور اس کے لئے انہیں پاکستان اور یحییٰ خان کی ضرورت تھی ۔ یہ اس قدر خفیہ کاوش تھی کہ وزیر خارجہ راجرز تک کو اس کا علم نہیں تھا۔

اپنی نائب صدارت اور صدارت کے ادوار کے درمیانی عرصہ میں نکسن نے ایک عام شہری کے طور پر جنوبی ایشیا کے تین دورے کیے اور ہر دفعہ اسے بھارت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان میں اس کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ اگست انیس سو انہتر میں نکسن نے بھارت اور پاکستان کا بطور صدر دورہ کیا۔ بھارت میں اس کی اندرا گاندھی سے ملاقات انتہائی تناؤ کے ماحول میں ہوئی۔ ایک سابقہ دورے میں اندرا گاندھی نے نکسن سے ملاقات کے دوران اپنے سیکرٹری سے ہندی میں پوچھا تھا "مجھے اور کتنی دیر اس شخص سے باتیں کرنی ہیں۔” لیکن اس دفعہ نکسن بطور امریکی صدر دورہ کر رہا تھا سو اب اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا لیکن اس ملاقات میں دونوں کی ایک دوسرے کے لئے ناپسندیدگی بہت واضح تھی۔

اندرا گاندھی اور صدر نکسن ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے

اندرا گاندھی اور صدر نکسن ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے

اسلام آباد میں نکسن کا والہانہ اسقبال کرنے والا اس کا قریبی دوست یحییٰ خان تھا جس کے لئے نکسن کے پاس ایک غیر متوقع فرمائش موجود تھی- نکسن نے یحییٰ خان سے چین کے چیئرمین ماؤ کو ایک اہم پیغام دینے کو کہا۔ اس پیغام میں نکسن نے چین کی کئی دہائیوں پر محیط تنہائی ختم کرنے کے لئے اعلیٰ ترین سطحی مذاکرات میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ نکسن نے یحییٰ سے درخوست کی اس پیغام کا کسی امریکی سفارتکار کو علم نہیں ہونا چاہیے اور اس معاملے میں امریکہ میں پاکستانی سفیر صرف کسنجر سے رابطے میں رہے۔

صدر رچرڈ نکسن لاہور آمد پر لیموزین کار سے چھلانگ لگا کر اترتے ہوئے

صدر رچرڈ نکسن لاہور آمد پر لیموزین کار سے چھلانگ لگا کر اترتے ہوئے

بیجنگ نے اس پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا لیکن فروری انیس سو ستر میں پاکستانی سفیر نے کسنجر کو اطلاع دی کہ چین مذاکرات کے لئے تیارہے- پھراکتوبر میں یحییٰ خان نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔ صدر پاکستان کے استقبال میں نکسن نے پاکستان پر انیس سو پینسٹھ سے موجود ہتھیاروں کی رسد پر پابندی ختم کی اور پاکستان کو تین سو بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی کا وعدہ کیا۔ پچیس اکتوبر انیس سو ستر کو نکسن نے یحییٰ کو ماؤ کے لئے ایک اور پیغام دیا کہ نکسن چاہتا ہے کہ کسنجر چین کا خفیہ دورہ کر کے ماؤ اور اس کے ساتھیوں سے ملے- آٹھ دسمبر انیس سو ستر، عوامی لیگ کے الیکشن کے جیتنے کے اگلے دن، کو پاکستانی سفیر کو چین کی آمادگی سے آگاہ کیا گیا۔ لیکن بیجنگ کسی جلدی میں نہیں تھا سو دورے کی تاریخ کے بارے میں بیجنگ نے انتظار کرنے کا کہا –

آپریشن سرچ لائٹ کے آغاز کے بعد نکسن اور کسنجر نے محسوس کیا کہ وہ چین سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے یحییٰ خان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے- چین سے رابطہ ابھی تک ایک انتہائی خفیہ امر تھا جس کا علم تاحال وزیر خارجہ سمیت پوری وزارت خارجہ کو نہیں تھا اور ان کے لئے یہ ناقابل فہم تھا کہ نکسن پاکستان کی مذمت سے کیوں کترا رہا ہے۔

(باقی آئندہ)

2 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: