سعودی عرب اور ایران کی پراکسی جنگ کے آغاز کو اب دہائیاں بیت چکی ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ نے جہاں مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں ابتری اور افراتفری پھیلائی وہیں پاکستان میں بھی ان ممالک کی اس سرد جنگ نے فرقہ وارانہ کشیدگی، مذہبی فسادات اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں موجود سنی انتہا پسند تنظیمیں ہوں یا شیعہ انتہا پسند تنظیمیں ان کی مالی سرپرستی یہی دونوں ممالک کرتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کی اس پراکسی جنگ میں ہم لوگ تجربہ گاہ کے جانوروں کی طرح مارے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے اپنے فرقے کے تعصب کا شکار ہونے کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ سعودی عرب یا ایران کے وفادار بنے رہتے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں مزاحمت کرنے والے شیعہ مفکر شیخ النمر کا سرقلم کیے جانے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں۔ سزا پر عملدرآمد کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل مظاہرین نے حملہ کیا اور آگ لگا دی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کر لیے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے ایران سے سفارتی تعلقات توڑے جانے کے بعد پہلے بحرین، سوڈان اور کویت اور اب قطر نے بھی ایران سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ ایران نے سعودی عرب پر یمن میں ایرانی سفارت خانے پر میزائل حملے کا بھی الزام عائد کیا ہے جس کی سعودی عرب نے تردید کی ہے۔
پاکستان میں موجود سنی انتہا پسند تنظیمیں ہوں یا شیعہ انتہا پسند تنظیمیں ان کی مالی سرپرستی یہی دونوں ممالک کرتے ہیں۔
ان دونوں ممالک کی اس کشیدگی کا اثر ایک مرتبہ پھر ہمارے ملک اور معاشرے پر پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان ایک مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔ سعودی عرب سے دیرینہ تعلقات اور ایران کے ساتھ امریکہ ایران مصالحتی عمل کے بعد مفاہمتی خارجہ پالیسی اپنانے کی وجہ سے پاکستان نہ تو کھل کر سعودی عرب کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ ایران کی۔ بی بی سی اردو پر گزشتہ دنوں معروف کالم نگار وسعت اللہ خان کے ایک تجزیے میں پاکستان کی اس مشکل کا ذکر کیا گیا ہے اور ماضی میں جاری رہنے والی ایران سعودی کشیدگی میں پاکستان کے سفارتی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان کا سرکاری موقف کچھ بھی ہو البتہ معاشرے میں شیعہ سنی تفریق میں شدت آنے لگی ہے۔ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے حضرات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ان دونوں ممالک کے خلاف اپنی اپنی فرقہ وارانہ وابستگی کے تحت نعرے مارنے میں حسب عادت مصروف ہیں۔ محمد احمد لدھیانوی کی جانب سے سعودی سرزمین کا تحفظ جبکہ شیعہ تنظیموں کے سعودی سفارت خانے کے باہر مظاہرے سے اس محاذ آرائی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سنی اور شیعہ مسلک کے لوگ اپنے اپنے فرقے، مقدس مقامات اور سرپرست ممالک کی بڑائی ثابت کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ حیران کن طور پر پڑھا لکھا طبقہ بھی اس میں پیش پیش ہے۔ ایک سیاسی مسئلے کو مذہبی اور مسلکی رنگ دیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے کسی طرح مناسب نہیں۔ ایک جانب جہاں پوپ فرانسس بھی مذہب کی پرستش سے زیادہ انسانوں کے ایک دوسرے کو سمجھنے اور امن سے رہنے کا درس رہے ہیں وہیں ہمارے ہاں مذہب کی بنیاد پر جان لینے اور دینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ہم لوگ غالباً ابھی تک زمانہ قدیم کے جہلاء کی طرح اپنے اپنے فرقے اور مقدس مقامات کو بلندتر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ زندہ انسان کی جان کسی بھی مقدس مقام سے زیادہ معتبر ہے۔ جو لوگ قبروں میں دفن لوگوں کو زندہ انسانوں پر فوقیت دیتے ہیں وہ جلد یا بدیر خود تاریخ کے قبرستانوں میں دفن ہو جایا کرتے ہیں۔
مذہبی اور مسلکی اختلافات سے قطع نظر حیران کن امر یہ ہے کہ سعودی ایران جنگ میں ہم لوگ اپنے وطن کو میدان جنگ بنانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں۔
مذہبی اور مسلکی اختلافات سے قطع نظر حیران کن امر یہ ہے کہ سعودی ایران جنگ میں ہم لوگ اپنے وطن کو میدان جنگ بنانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں۔ سعودیہ کے آمر بادشاہ اچھے ہیں یا ایرانی ملائیت یہ ہمارے مسائل حل کرنے میں کیسے معاون ہے یہ اپنی جگہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ پاکستان کو سعودی شاہی خاندان کا ساتھ دینا چاہیے یا ایران کے حکمرانوں کا ہم اس سوال کو لیے یوں بحث مباحثہ کر رہے ہیں گویا ہم نے اپنے ملک میں موجود قومیتوں کے مابین افہام و تفہیم پیدا کر لیا ہے۔ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر نام نہاد مذہبی علماء اور دفاعی تجزیہ نگار کمال مہارت سے ایک منظم پراپیگینڈے کے تحت عوام کو اس فرقہ وارانہ کشیدگی کی بحث میں الجھائے ہوئے ہیں۔ کون مسلمان ہے کون کافر ہے اس بات سے آگے ہماری سوچ شاید ختم ہو جاتی ہے۔ مزاروں میں جانے سے زیادہ ثواب ملتا ہے یا مساجد میں، یہ سوال ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے نا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور عدم برداشت۔ انسانی حقوق اور ان کی ادائیگی میں ناکام لوگ عقیدتوں اور تقلید کی اندھی روش میں انسانیت کو پیروں تلے کچلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
ہمیں اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ سعودی یا ایرانی حکمرانوں کی پالیسیوں، آمرانہ رویوں اور ان ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید ہرگز مقدس ہستیوں پر تنقید کے مترادف نہیں۔ یہ دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کی جنگ کو مذہب اور عقیدت کے نام پر غریب مسلمان ملکوں پر تھوپتے ہیں۔ روپے پیسے کی چمک سے یہ دونوں ممالک اپنے سیاسی مفادات کے حصول کو مذہبی رنگ دے کر مولویوں، ذاکروں، سیاستدانوں اور فوجوں کی ہمدردیاں بھی خریدتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے حکمرانوں نے آپس کی رنجشوں کے باعث پراکسی جنگوں کے ذریعے مسلمان ممالک میں بے بہا خون بہایا ہے، اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے دونوں ممالک کے حکمران مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے آمرانہ طرز حکومت کو استحکام بھی پہنچاتے ہیں۔ اور ان کی محبت میں ایک دوسرے کو کاٹنے والے ہم لوگ ان کی جنگ میں ایک چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے تعصب اور اندھی تقلید کی پٹی اتار کر ان دونوں ممالک میں انسانی حقوق کی پاسداری کی صورت حال کا جائزہ لیجیے۔ کیا ان دونوں ممالک میں دونوں مسالک کی مقدس ہستیوں کی بتائی گئی اعلیٰ انسانی اقدار کی ذرا سی بھی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے؟ کیا ان دونوں ممالک میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو جو لاکھوں روپے خرچ کر کے حج و عمرہ یا دیگر مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں انہیں ذرا بھی عزت و تکریم دی جاتی ہے؟ کیا یورپی ممالک کی طرح آپ کو ان ممالک کی شہریت ملتی ہے؟ کیا ان دونوں ممالک میں آزادی رائے کا احترام ہوتا ہے؟ ان دونوں ممالک نے خود اپنا قبلہ عالمی طاقتوں سے درست رکھا ہوا ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کے علماء، سیاستدانوں، افواج اور عوام کو یہ دونوں ممالک کبھی عقیدے اور کبھی عالمی طاقتوں کے ان دیکھے ایجنڈے کے نام پر لڑواتے ہیں۔ دیگر ممالک کی عوام
ہمیں اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ سعودی یا ایرانی حکمرانوں کی پالیسیوں، آمرانہ رویوں اور ان ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید ہرگز مقدس ہستیوں پر تنقید کے مترادف نہیں۔
میں دیگر اقوام عالم سے نفرتوں کے بیج بوتے ہیں اور خود ان ممالک میں فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بننتے ہیں۔ پاکستان میں 70 کی دہائی تک فرقہ وارانہ دہشت گردی اور شدت پسندی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایران میں انقلاب کے بعد دونوں ممالک نے اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لیے دیگر مسلم ممالک میں بسنے والے اپنے اپنے مسلک کے مسلمانوں کو متاثر کرنا اور ان کے ذریعے اپنی عالمی حیثیت مضبوط کرنا شروع کردی۔ سعودی اور خلیجی ممالک میں پاکستانی مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد کے کام کرنے کی غرض سے آنے جانے کے بعد فرقہ واریت اور شدت پسندی کا ناسور تیزی سے ہمارے معاشرے میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ لشکر جھنگوی ہو یا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایسی لاتعداد شدت پسند تنظیمیں سعودی عرب اور ایران کی ہی پشت پناہی اور پیسے کے بل پر وجود میں آئیں۔ لیکن ہم اپنے مسائل حل کرنے کی بجائے ان حقائق سے منہ موڑ کر انہی ممالک کی محبت میں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
بطور قوم اپنی ایک ثقافت اور تاریخ رکھتے ہیں جو کہ صدیوں پر محیط ہے ہم نہ تو عربی بن سکتے ہیں اور نہ ایرانی۔ اگر ان ممالک کی پراکسی جنگوں میں ہم یوں ہی عربوں سے زیادہ عرب اور ایرانیوں سے زیادہ ایرانی بن کر شریک ہوتے رہے تو ہم اپنی اصل شناخت اور تشخص کھو دیں گے۔ مسخ شدہ لاشوں کی طرح مسخ شدہ قوموں اور معاشروں کی شناخت بھی آہستہ آہستہ ناممکن ہو جاتی ہے۔ جن معاشروں اور قوموں کی اپنی شناخت باقی نہ رہے تو وہ تاریخ کے قبرستان میں لاوارث لاشوں کی مانند دفنا دی جاتی ہیں۔ اس لیے بدلیں اپنے آپ کو اور اپنے خیالات کو کم سے کم آنے والی نسلوں کو مسلکی شناخت، تعصب و نفرت سے پاک معاشرہ دے کر جائیں۔ سعودیہ میں شیعہ مذہبی عالم کا سر قلم کیا جانا بلا شبہ اندوہناک تھا اور انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی پراحتجاج ہونا بھی چاہیئے لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمیں اپنی اپنی فرقہ وارانہ وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ایسے سانحات پر رد عمل دینا چاہیئے اور ایسے تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو ان حادثات کے ذریعے تعصب اور فرقہ پرستی کا زہر معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔