قیصر شہزاد فاروق
"میں تہذیب و تمدن کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔اور میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ یہ میرا نہیں درزیوں کا کام ہے۔”یہ جملے ہندوستان کے اس عظیم افسانہ نگار کے ہیں جسے دنیا سعادت حسن منٹو کے نام سے جانتی ہے۔سعادت حسن منٹو 11 مئی1912 کو ضلع لدھیانہ کے موضع سمبرانہ کے گاوں پپروڈی میں کشمیری مسلمان غلام حسن منٹو کے گھر پیدا ہوئے۔ سعادت حسن منٹو ایک سہما ہوا بچہ تھاجسے دوست ٹامی کے نام سے پکارتے تھے۔منٹو کو 1921میں ایم اے او مڈل سکول امرتسر میں داخل کروا دیا گیا میٹر ک کے امتحان میں دو تین بار فیل ہونے کے بعد 1931میں منٹو یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوئے منٹو کے قریبی دوست کہتے ہیں کہ وہ امتحانات کے دنوں میں ایک مشہور انگریزی ناول کے مطالعہ میں مصروف تھے جو انہوں نے امرتسر ریلوے اسٹیشن کے بک سٹال سے چوری کی تھی۔
سعادت حسن منٹو اپنے پہلے افسانے تماشا میں جو 1931میں سانحہ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں لکھا گیا تھایوں رقمطراز ہیں۔دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھیلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں سرخ آندھیاں وقتافوقتاکسی آنیوالے خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھیں سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہولناک سماں پیش کر رہی تھی۔1934میں سعادت حسن منٹو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں ان کی ملاقات ہندوستان کے نامور ادیب جنابِ علی سردار جعفری اور ترقی پسندمصنف جنابِ عبدلباری علیگ سے ہوئی جن کی صحبت میں سعادت حسن منٹو نے نامور مغربی ادباءکے تراجم تحریر کیے جن میں وکٹر ہیوگو.لارڈلٹن.میکسم گورکی.چیخوف ،آسکروائلڈ اور ماوزے تُنگ شامل ہیں۔ 1935میں منٹو کا دوسرا افسانہ انقلاب پسند شائع ہوااور 26اپریل 1939کو سعادت حسن منٹو کی صفیہ خاتون کے ساتھ شادی کر دی جاتی ہے.سعادت حسن منٹو گھر گرہستی چلانے کے لیے ہندی فلموں کے سکرپٹ لکھتے ہیں اور آل انڈیا ریڈیو اردو سروس کے لیے ڈرامے بھی تحریر کرتے ہیں اور افسانہ تو سعادت حسن منٹو ہر وقت تراشتے ہی رہتے تھے. 1943میں سعادت حسن منٹوکی دو کتابیں منٹو کی مضامین اور ڈرامے اور افسانے چھپتی ہیں ان میں شامل متنازعہ افسانے کالی شلوار ،دھواں اور بو کی وجہ سے سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کے مقدمات بھی چلتے ہیں۔
سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے ہندوستان میں جلسے جلوس اور ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آتے ہیں آزادی کے جشن منائے جاتے ہیں چھینا جھپٹی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ہے.آذادی کے نام پر تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوتی ہے سعادت حسن منٹو آگ اور خون کا یہ کھیل متحیر آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہیں گہری حساسیت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور خلوصِ نیت کے ساتھ نوکِ قلم کے سپرد کر دیتے ہیں سعادت حسن منٹو بٹوارے کا دکھ اپنے مشہور افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رقم کرتے ہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ دراصل ان پاگل قیدیوں کی کہانی ہے جو ہندوستان کے مختلف پاگل خانوں میں قید ہیں دونوں طرف کی حکومتیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ مسلمان پاگلوں کو پاکستان پہنچا دیا جائے اور ہندو اور سکھ پاگلوں کو بھارت کے حوالے کر دیا جائے لیکن پاگل ان سیاسی فیصلوں سے بے نیاز اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔ پاگل خانے میں ایک ہندو پاگل مسلمان پاگل دوست سے پوچھتا ہے.مولبی صاب یہ پاکستان کیا ہوتا ہے تو مسلمان پاگل بڑے غورو فکر کے بعد جواب دیتا ہے ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں اور پھر وہ ہندو پاگل بشن جو بھارت نہیں جاتا اور واہگہ بارڑرپہ کھڑے کھڑے گرتا ہے اور جان دے دیتاہے جسے بھارت کے مشہور شاعر گلزار ان الفاظ میں خراج پیش کرتے ہیں۔
مجھے واہگہ پہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والے بشن سے جا کے ملنا ہے
سنا ہے وہ ابھی تک سوجے پیروں پر کھڑا ہے
جس جگہ منٹو نے چھوڑا تھا اسے۔
خبر دینی ہے اس کے دوست افضل کو
وہ لہنہ سنگھ.ودھاوا سنگھ .وہ بہن امرت
وہ سارے قتل ہو کر اس طرف آئے تھے
اور ان کی گردنیں سامان ہی میں لٹ گئی پیچھے۔
سعادت حسن منٹو نے ہجرت کے ایام میں وحشت اور بربریت ،انسان کی سفاکیت اور اخلاقی گراوٹ کے جو مناظر دیکھے لاہور پہنچتے ہی انہیں افسانے کی شکل دیکر صفحہ قرطاس پر بکھیرنا شروع کر دیا جو اس دور کی اشرافیہ کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں تھے اسی لیے سعادت حسن منٹو کے خلاف ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے لکھنے پر مقدمات بھی درج ہوئے او ران میگزینز کے ایڈیٹرز اور پبلشرز جن میں احمد ندیم قاسمی،ہاجرہ مسرور اور عارف عبدالمتین شامل تھے کو بھی نوٹس جاری کیے گئے اور آئندہ کے لیے سعادت حسن منٹو کی تحریروں پر پابندی عائد کر دی گئی شاید اسی لیے سعادت حسن منٹو کے بارے میں لکھی گئی تحریریں آج بھی قابلِ گردن ذدنی ٹھہرتی ہیں۔
لاہور کے تاریخی پاک ٹی ہاؤس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب کسی رانداہ درگاہ ادیب،شاعر یا صحافی پر پابندی عائد کر دی جاتی اور گھریلو پریشانیوں کا بوجھ اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کرتا تب پاک ٹی ہاؤس ان قلم مزدوروں کو گلے سے لگاتا اور گرما گرم چائے سے ان کی بھوک ماری کرتااور مغز ماری کا ماحول مہیا کرتاایسے حالات میں پاک ٹی ہاؤس کا دوبارہ کھلنا ادب دوستوں کے لیے یقیناًایک خوشگوار اور گرم احساس ہے۔پاک سر زمین کی عدالتوں میں سعادت حسن منٹو کے خلاف مقدمات چل رہے تھے منٹو اپنے نحیف کاندھوں پرمالی پریشانیوں، بیوی اور تین بیٹیوں کا بوجھ اٹھائے پا ک ٹی ہاؤس آیا کرتے آنیوالی پیشی کا جواب دعویٰ داخل کروانے کے بارے میں دوستوں سے صلاح مشورہ کرتے اور اپنی قبر کے کتبے کے تحریر پر غور کرتے۔مقدمات ابھی چل رہے تھے لیکن قبر کا کتبہ تحریر ہو چکا تھا کہ بلاوا آگیا اور برِصغیر پاک و ہند کا یہ عظیم افسانہ نگاراپنی موت کا قصہ بھی متنازعہ چھوڑ کر عاقبت سدھار گیا۔محترم قاریٗن کتبے کی تحریر اس کالم سے قصداَ حذف کی جاتی ہے کیونکہ وہ تحریر منٹو کے افسانوں سے بھی زیادہ متنازعہ ہے اور اسی لیے سعادت حسن منٹو کی قبر سے اصل اتار کر اب وہاں ایک ڈپلومیٹک کتبہ لگادیا گیا ہے تاکہ آئندہ کسی مقدمہ کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔
سعادت حسن منٹو اپنے پہلے افسانے تماشا میں جو 1931میں سانحہ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں لکھا گیا تھایوں رقمطراز ہیں۔دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھیلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں سرخ آندھیاں وقتافوقتاکسی آنیوالے خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھیں سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہولناک سماں پیش کر رہی تھی۔1934میں سعادت حسن منٹو نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں ان کی ملاقات ہندوستان کے نامور ادیب جنابِ علی سردار جعفری اور ترقی پسندمصنف جنابِ عبدلباری علیگ سے ہوئی جن کی صحبت میں سعادت حسن منٹو نے نامور مغربی ادباءکے تراجم تحریر کیے جن میں وکٹر ہیوگو.لارڈلٹن.میکسم گورکی.چیخوف ،آسکروائلڈ اور ماوزے تُنگ شامل ہیں۔ 1935میں منٹو کا دوسرا افسانہ انقلاب پسند شائع ہوااور 26اپریل 1939کو سعادت حسن منٹو کی صفیہ خاتون کے ساتھ شادی کر دی جاتی ہے.سعادت حسن منٹو گھر گرہستی چلانے کے لیے ہندی فلموں کے سکرپٹ لکھتے ہیں اور آل انڈیا ریڈیو اردو سروس کے لیے ڈرامے بھی تحریر کرتے ہیں اور افسانہ تو سعادت حسن منٹو ہر وقت تراشتے ہی رہتے تھے. 1943میں سعادت حسن منٹوکی دو کتابیں منٹو کی مضامین اور ڈرامے اور افسانے چھپتی ہیں ان میں شامل متنازعہ افسانے کالی شلوار ،دھواں اور بو کی وجہ سے سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کے مقدمات بھی چلتے ہیں۔
سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے ہندوستان میں جلسے جلوس اور ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آتے ہیں آزادی کے جشن منائے جاتے ہیں چھینا جھپٹی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ہے.آذادی کے نام پر تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوتی ہے سعادت حسن منٹو آگ اور خون کا یہ کھیل متحیر آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہیں گہری حساسیت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اور خلوصِ نیت کے ساتھ نوکِ قلم کے سپرد کر دیتے ہیں سعادت حسن منٹو بٹوارے کا دکھ اپنے مشہور افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رقم کرتے ہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ دراصل ان پاگل قیدیوں کی کہانی ہے جو ہندوستان کے مختلف پاگل خانوں میں قید ہیں دونوں طرف کی حکومتیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ مسلمان پاگلوں کو پاکستان پہنچا دیا جائے اور ہندو اور سکھ پاگلوں کو بھارت کے حوالے کر دیا جائے لیکن پاگل ان سیاسی فیصلوں سے بے نیاز اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔ پاگل خانے میں ایک ہندو پاگل مسلمان پاگل دوست سے پوچھتا ہے.مولبی صاب یہ پاکستان کیا ہوتا ہے تو مسلمان پاگل بڑے غورو فکر کے بعد جواب دیتا ہے ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں اور پھر وہ ہندو پاگل بشن جو بھارت نہیں جاتا اور واہگہ بارڑرپہ کھڑے کھڑے گرتا ہے اور جان دے دیتاہے جسے بھارت کے مشہور شاعر گلزار ان الفاظ میں خراج پیش کرتے ہیں۔
مجھے واہگہ پہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والے بشن سے جا کے ملنا ہے
سنا ہے وہ ابھی تک سوجے پیروں پر کھڑا ہے
جس جگہ منٹو نے چھوڑا تھا اسے۔
خبر دینی ہے اس کے دوست افضل کو
وہ لہنہ سنگھ.ودھاوا سنگھ .وہ بہن امرت
وہ سارے قتل ہو کر اس طرف آئے تھے
اور ان کی گردنیں سامان ہی میں لٹ گئی پیچھے۔
سعادت حسن منٹو نے ہجرت کے ایام میں وحشت اور بربریت ،انسان کی سفاکیت اور اخلاقی گراوٹ کے جو مناظر دیکھے لاہور پہنچتے ہی انہیں افسانے کی شکل دیکر صفحہ قرطاس پر بکھیرنا شروع کر دیا جو اس دور کی اشرافیہ کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں تھے اسی لیے سعادت حسن منٹو کے خلاف ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے لکھنے پر مقدمات بھی درج ہوئے او ران میگزینز کے ایڈیٹرز اور پبلشرز جن میں احمد ندیم قاسمی،ہاجرہ مسرور اور عارف عبدالمتین شامل تھے کو بھی نوٹس جاری کیے گئے اور آئندہ کے لیے سعادت حسن منٹو کی تحریروں پر پابندی عائد کر دی گئی شاید اسی لیے سعادت حسن منٹو کے بارے میں لکھی گئی تحریریں آج بھی قابلِ گردن ذدنی ٹھہرتی ہیں۔
لاہور کے تاریخی پاک ٹی ہاؤس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب کسی رانداہ درگاہ ادیب،شاعر یا صحافی پر پابندی عائد کر دی جاتی اور گھریلو پریشانیوں کا بوجھ اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کرتا تب پاک ٹی ہاؤس ان قلم مزدوروں کو گلے سے لگاتا اور گرما گرم چائے سے ان کی بھوک ماری کرتااور مغز ماری کا ماحول مہیا کرتاایسے حالات میں پاک ٹی ہاؤس کا دوبارہ کھلنا ادب دوستوں کے لیے یقیناًایک خوشگوار اور گرم احساس ہے۔پاک سر زمین کی عدالتوں میں سعادت حسن منٹو کے خلاف مقدمات چل رہے تھے منٹو اپنے نحیف کاندھوں پرمالی پریشانیوں، بیوی اور تین بیٹیوں کا بوجھ اٹھائے پا ک ٹی ہاؤس آیا کرتے آنیوالی پیشی کا جواب دعویٰ داخل کروانے کے بارے میں دوستوں سے صلاح مشورہ کرتے اور اپنی قبر کے کتبے کے تحریر پر غور کرتے۔مقدمات ابھی چل رہے تھے لیکن قبر کا کتبہ تحریر ہو چکا تھا کہ بلاوا آگیا اور برِصغیر پاک و ہند کا یہ عظیم افسانہ نگاراپنی موت کا قصہ بھی متنازعہ چھوڑ کر عاقبت سدھار گیا۔محترم قاریٗن کتبے کی تحریر اس کالم سے قصداَ حذف کی جاتی ہے کیونکہ وہ تحریر منٹو کے افسانوں سے بھی زیادہ متنازعہ ہے اور اسی لیے سعادت حسن منٹو کی قبر سے اصل اتار کر اب وہاں ایک ڈپلومیٹک کتبہ لگادیا گیا ہے تاکہ آئندہ کسی مقدمہ کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔
(قیصر شہزاد فاروق اسلام آباد میں مقیم لکھاری، محقق اور بلاگر ہیں ۔قومی، بین الاقوامی ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر ان کی تحاریراردو اور انگریزی رسائل اور بلاگز کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ قیصر کا تحقیقی مقالہ "فریمنگ وار اگینسٹ ٹیررازم” مورخین اور ناقدین سے داد پا چکا ہے۔ )
عمدہ