Laaltain

سزائے موت حل نہیں

18 دسمبر, 2014
Picture of لالٹین

لالٹین

پشاور سانحہ پر ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی اتفاق رائے اگرچہ خوش آئند ہے اور اس کی ضرورت بہت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی تاہم اس سانحہ کے ردعمل میں سزائے موت پر عائد غیر رسمی پابندی اٹھائے جانے کا فیصلہ بحث طلب ہے۔ عوامی جذبات اور عسکری قیادت کے دباو کے تناظر میں کیا جانے والا یہ فیصلہ جلدبازی اور سول قیادت کی کم زور ی کا مظہر ہے۔ نو گیارہ کے بعد دنیا بھر میں انسداددہشت گردی کے سخت قوانین اپنائے گئے ہیں اور بعض ممالک نے ان قوانین کے تحت دہشت گردوں کے لیے موت کی سزا رکھی ہے تاہم پاکستان میں تھانے سے لے کر عدالتوں تک موجود نقائص سزائےموت جیسی سخت سزا کے جواز کو مزید کم زور کرتے ہیں۔پاکستان میں قوانین کے غلط استعمال کی روایت موجود ہونے کے باعث دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر ریاست کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بننے والے قوانین مرتب کرنے اور سزائیں دینے کا اختیار کسی صورت نہیں دیا جا سکتا۔
نو گیارہ کے بعد دنیا بھر میں انسداددہشت گردی کے سخت قوانین اپنائے گئے ہیں اور بعض ممالک نے ان قوانین کے تحت دہشت گردوں کے لیے موت کی سزا رکھی ہے تاہم پاکستان میں تھانے سے لے کر عدالتوں تک موجود نقائص سزائےموت جیسی سخت سزا کے جواز کو مزید کم زور کرتے ہیں۔
ریاستی اداروں اور عام افراد کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال کی مثالوں کی موجودگی میں ان قوانین کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات کے اندراج کے طریقہ کار ، تفتیش اور سماعت کے نظام میں غلطی کی گنجائش یقیناً عام اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی رپورٹ Terror on Death Rowکے مطابق دہشت گردی کی مبہم تعریف، انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال، پولیس تشدد کے ذریعہ اعتراف جرم اورسماعت کے ناقص عمل کے باعث یہ قوانین دہشت گردی کی روک تھا م میں موثر ثابت نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پھانسی کی سزا کی متنازعہ حیثیت سے قطع نظرموجودہ عدالتی نظام کالعدم دہشت گرد گروہوں کے بااثر اراکین کو سزا دینے میں ناکام ہو چکا ہے جس کی اہم ترین مثال لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ اور دیگر جہادی تنظیموں کے کارکنان کا عدالتوں سے باآسانی رہا ہوجانا ہے۔
دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے جانے والے مقدمات کے تحت سزائے موت پانے والے افراد کی سزا پر عملدرآمد کے عوامی مطالبہ پشاور واقعہ کا جذباتی ردعمل ہے لیکن اس بناء پر سزائے موت کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔گوموت کی سزااپنی قانونی اور اخلاقی بنیاد کھو چکی ہے اور اسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم اگر بوجوہ دہشت گردوں کو سزائے موت دینا ناگزیر بھی ہے تو اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا بھی ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ تفتیشی اورعدالتی نظام کے نقائص دور کیے بغیر سزائے موت پر عملدرآمد نہ صرف غیر انسانی بلکہ ظالمانہ اقدام ہے جس کی مذمت کی جانی چاہئیے۔
شدت پسند جہادی نظریات کا متبادل بیانیہ تشکیل دیے بغیر محض چند شدت پسندوں کو پھانسی دینے سے نہ تو ان گروہوں کو خوف زدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں دہشت گردکارروائیوں سے روکا جا سکتا ہے۔
شدت پسند جہادی نظریات کا متبادل بیانیہ تشکیل دیے بغیر محض چند شدت پسندوں کو پھانسی دینے سے نہ تو ان گروہوں کو خوف زدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں دہشت گردکارروائیوں سے روکا جا سکتا ہے۔ سیاسی حکومت کا عوامی مطالبہ پر سزائے موت پر عمدرآمد کا فیصلہ دہشت گردوں کے علاوہ ان عام قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کا باعث بھی بن چکاہے جو کال کوٹھڑیوں میں موت کی سزا پانے کے بعد سے قید ہیں اور جن کی اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق17 دہشت گردوں سمیت 55 افراد کو اگلے چند روز میں موت کی سزا دے دی جائے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت پاکستانی جیلوں میں آٹھ ہزار افراد سزائے موت کے منتظر ہیں جن میں سے محض 522 افراد سنگین جرائم یا دہشت گردی کی دفعات کے تحت اس سزا کے مرتکب ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے قیدی عمر قید کی حد کے برابر سزا کاٹ چکے ہیں اور انہیں پھانسی کی سزا دینا ایک ہی جرم میں دو بار سزادینے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔
سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد اگر ناگزیر ہے تو حکومت کو انسداد دہشت گردی کے قوانین کو موثر بنانے ، ان کے غلط استعمال کی روک تھام اور دہشت گردی کے علاوہ دیگر جرائم میں سزائے موت کو ختم کرنے کو یقینی بنانا ہوگا۔سزائے موت کو دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے طور پر دیکھنے کی بجائے انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئیے۔ اس ضمن میں سیاسی قیادت کو سزائے موت کے حوالے سے باقاعدہ عوامی اور پارلیمانی بحث کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ موت کی سزا جیسی غیر انسانی سزا کا متبادل تجویز کیا جاسکے۔

ہمارے لیے لکھیں۔