جے این یو کی لائبریری اردو کی کتابوں کے تعلق سے کچھ خاص نہیں ، بہت خراب اور غیر ضروری کتابوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ہے جس میں کہیں کہیں کام کی کوئی کتاب رکھی نظر آجاتی ہے، حالاں کہ نئے پڑھنے والوں کے لئے تو ندا فاضلی کا شعری دیوان بھی کسی نعمت سے کم نہیں مگر جب کوئی کہنہ مشق پڑھاکو شخصیت جے این یو کی لائبریری میں نظرآجائے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں۔میں خود جے این یو کی لائبریری سے گزشتہ ایک برس میں کچھ خاص استفادہ نہ کرسکا ،بس میر امعمول تو یہ ہے کہ صدف کے ہمراہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر لائبریری کے ائر کنڈیشن روم میں آکربیٹھ جاتا ہو ں اورریختہ ڈاٹ کام پر اپنی محبوب کتابوں کا مطالعہ کر تا رہتا ہوں ، آج صبح جب میں حسب روایت لائبریری میں داخل ہوا تو کتابوں کی دو الماریوں کے درمیان ڈاکٹر سرور الہدی کھڑے نظر آئے، جب میری نظر ان پر پڑی تو وہ کوئی کتاب دیکھنے میں مصروف تھے، میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کےموجودہ دور کے کثیر المطالعہ شخص کو جے این یو کی لائبریری میں دیکھا تو پہلے چونکا، پھر جے این یو سے سرور صاحب کے پرانے تعلق کا خیال آتے ہی سنبھل گیا کہ یہ تو وہ ہی لائبریری ہے جہاں بیٹھ بیٹھ کر انہوں نے فغاں سے امداد امام اثر تک کا سفر طے کیا ہے۔ سرور صاحب کو دیکھ کر جیسے ہی میں نے ان کی جانب قدم بڑھائے انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا اور ہمیشہ کی طرح پر تپاک انداز میں ملے۔ ان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ نوجوانوں سے اکثر بہت محبت سے ملا کرتے ہیں اور خاص کر وہ نوجوان جو اردو زبان و ادب سے کسی طرح کی دلچسپی رکھتے ہوں، یہ ہی وجہ ہے کہ میرا ایک دوست حسین ایاز جو کہ بالکل نووارد ادیب ہے اس سے بھی سرور صاحب بہت محبت کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ ثاقب فریدی، ضیا، نوشاد منظر اور اسی طرح کے دوسرے نوجوان ان سے چمٹے رہتے ہیں اور سرور صاحب بھی ان سے خوب گفتگو کرتے ہیں ۔
بہر کیف ان کے اس طرح اچانک ملنے سے مجھے خوشی اور حیرت ہوئی ،میں نے اور سرور صاحب نے لائبریر ی میں کتابوں کی الماری کے ارد گرد گھوم گھوم کر گفتگو کا سلسلہ شروع کردیا ، مجھے سرور صاحب کی یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ کبھی اپنے سے کم عمر لوگوں پر اپنا رعب نہیں جماتے ، ان سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتے ہیں ، جہاں اتفاق ظاہر کرنا ہوتا ہے وہاں اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور اگر کسی بات سے اختلاف ہوتا ہے تو اپنے مخصوص انداز میں برا سا منہ بنا کر صاف انکار کر دیتے ہیں ۔ میری بھی بہت سی باتوں سے انہوں اختلاف کیا ہے ، مگر میں ہمیشہ ان کے اختلاف کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہوں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اختلاف میں ایک قسم کی منطق ہوتی ہے ، خواہ اس منطق سے کسی تیسرے شخص کو اتفاق ہو نہ ہو مگر وہ ایسی نہیں ہوتی جس کو یک بارگی نظر انداز کر دیا جائے۔ میں نے سرور صاحب سے لائبریری میں کتابوں کی شیلف کے درمیان ٹہلتے ہوئے اپنی موجودہ مصروفیات کے بارے میں بتا یا تو انہوں نے اس کو خاموشی سے سنا اور فوراً کلیم عاجز کا شعری مجموعہ شیلف سے نکال کر اس پر گفتگو کرنا شروع کر دی۔ یہ ان کی عادتوں میں شمار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی ذات پر نہ زیادہ سنتے ہیں اور نہ زیادہ بولتے ہیں ، ادیبوں شاعروں کی ہر طرح کی بات کرتے ہیں ، ان کی برائی بھی کرتے ہیں اور تعریف بھی لیکن سب کی سب ان کے ادبی کاموں، کارناموں اور کوتاہیوں سے متعلق ہوتی ہیں ۔ کلیم عاجز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مجھے ان کی ایک غزل پر اپنے تاثرات تحریر کرکے دینے کو کہا اور ساتھ ہی اسلم پرویز کی کتاب گھنے سائے اور خلیل الرحمان اعظمی کی مضامین کے تعلق سے بھی ایک ایک مضمون لکھنے کی ہدایت دی۔دراصل سرور صاحب کا اوڑھنا بچونا یہ ہی ساری چیزیں ہیں ، میں ان سے جب جب ملتا ہوں تو اردو کے پرانے سے پرانے ادیبوں شاعروں سے لے کر موجودہ دور تک کے ادبا پر مختلف حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ مجھے بعض مرتبہ تو حیرت بھی ہوتی ہے کہ میں جو چیزیں یہ سمجھ کر پڑھتا ہوں کہ غالبا کوئی اردو والا جلدی ان چیزوں تک نہیں پہنچے گا سرور صاحب ان پر بھی بے تکان بول لیتے ہیں ۔ اس سے ان کے مطالعے کا علم ہوتا ہے۔ حسین ایا ز نے مجھے آج سے تقریباً دو برس پہلے یہ بات کہی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں اگر کوئی شخص صبح کے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک ادب ادب کرتا رہتا ہے تو وہ سرور الہدی ہی ہیں ۔اکثر تو میں نے سرور صاحب سے امتحاناً بھی بہت سی باتوں کے متعلق دریافت کیا ہے ، مگر وہ ان کا جواب بھی بہت اطمینان سے دیتے ہیں ۔ آج بھی لائبریری کی الماریوں کے درمیان طواف کرتے ہوئے ان سے کلیم عاجز، لطف الرحمان، شکیل الرحمان، شمس الرحمان فاروقی ،علی اکبر ناطق ، ادریس بابر، ریاض مجید ، اسلم پرویز ، جمال احسانی، غالب اور چکبست کے حوالے سے باتیں ہوئیں ۔ سرور صاحب کی ایک عجیب و غیریب بات یہ بھی ہے کہ وہ اردو کےسیمیناراور سمپوزیمس کو بہت زیادہ نظر انداز کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی ان میں شرکت کرتے ہیں، اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر انہیں اردو کے مختلف موضوعات پر ہونے والے سیمیناروں کی پوری خبر رہتی ہے ۔ اردو کے ان لکھنے والوں کو بھی جانتے ہیں جو بالکل جدید ہیں اور ان کو بھی جو مابعد جدید ہیں ۔ لائبریری کی شیلف میں عزیز نبیل کی فراق گورکھ پوری پر ترتیب کردہ کتاب پر ہاتھ رکھ بولے” یہ دیکھئے آپ کے دوست کا کام”اور جب میں نے ان سے کہا کہ عزیز نبیل ان دنوں پہلے سے بہتر شعر کہنے لگے ہیں ،بس مشاعروں کے چکر میں زیادہ پڑ گئے ہیں تو خاموشی سے دوسری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے سرور صاحب سے ہمیشہ نئے لوگوں کی تعریف اور پرانے لوگوں کی تذکیر سنی ہے۔ وہ ہمیشہ بتاتے رہتے ہیں کہ شہر یار کیسے تھے ، محمد حسن کیا کرتے تھے،وحید اختر کے کیا خیالات تھے، محمود ہاشمی نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے، وارث علوی، باقر مہدی، شمیم حنفی ، شمس الحق عثمانی اور بلراج مین را ان کے فنی کارنامے کیا کیا ہیں ۔
ابھی میں نے گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی تھی جس میں میں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ بہت سے لوگ اپنے مطالعے کو وسیع اور کثیر جتانے کے لئے حافظ، سعدی ، رومی، انوری، خسرو، بیدل ،امرالقیس اور متبی وغیرہ کی باتیں کرتے ہیں ، کبھی وہاں سے اچانک مغربی ادب پر کود جاتے ہیں اور کبھی ہندی اور سنسکرت کے ادیبوں کا تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں ۔ سرور صاحب کو میں نے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا ۔ ان کا ایک مخصوص رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے دائرہ علم کے اندر رہ کر گفتگو کرتے ہیں ، بلا وجہ لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے انگریزی، جرمنی، فرانسسی اور رشین ادیبوں کا نام نہیں لیتے۔ امداد امام اثر اگر ان کا موضوع ہیں تو ان کا زیادہ تر وقت انہیں پر گفتگو کرتے ہوئے گزرے گا، کبھی جدیدیت کی بات نکلے گی تو الف سے لے کر بڑی ے تک تمام جدیدیوں کے خیالات کو آپ کے سامنے رکھ دیں گے، مابعد جدیدیت یا ترقی پسندوں کی بات کریں گے تو از اول تا آخر سب کا تذکرہ کر جائیں گے۔ حالاں کہ اگر وہ چاہیں تو دنیا کی دوسری زبانوں میں ادب لکھنے والوں پر بھی ایک ، دو کتابیں پڑھ کر بول سکتے ہیں ، مگر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ کبھی اپنے میدان سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے ۔ میں نے بھی کبھی ان سے فاوسٹ، دانتے، بولو، لانجوئنس ، ٹالسٹائی، دوستو فسکی، پیرڈائز لوسٹ، پیر کرم شاہ ازہری ، اسماعیل دہلوی، امام احمد رضا ، اوشا سانیہال اور وارث مظہری کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی ہے تو انہوں نے ہاں ہوں کر کے چھوڑ دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کبھی اس بات کی شعوری کوشش نہیں کرتے کہ سامنے والا انہیں قابل سمجھے ۔ ان کے مطالعے کومیرے بہت سے احباب اکثر محدود کہتے ہیں ، مگر مجھے یہ بات زیادہ اہم لگتی ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ انہیں کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا ہے۔ ان کے یہاں مطالعے کا ایک نظام بنا ہوا ہے جو اردو کے بہت کم ادیبوں کے یہاں نظر آتا ہے۔ میں خود بھی اسی مرض کا شکار ہوں کہ گھوم گھوم کے چیزوں کا مطالعہ کرتا ہوں ، جب کہ سرور صاحب مطالعے کی ایک سیدھ میں چل رہے ہیں ، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ اتنے کام کر پاتے ہیں ۔
لائبریری میں کتابوں کی الماریو ں کے درمیان چکر لگاتے لگاتے جب میں اور سرور صاحب تھکنے لگے تو انہوں نے مجھ سے قریب کے ایک کینٹین میں چلنے کو کہا،ہم وہاں پہنچے تو ان کا ایک شاگرد نثار اور دو ایک لوگ اور بھی مل گئے ، وہیں انہوں نے جے این یو کے ایک اور رسرچ اسکالر ضیا کو بھی بلوا لیا اور پھر وہاں نئے سرے سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، ہم نے اسی دوران ہیں بیٹھ کر کھانا کھایا جس میں میری عزیز دوست صدف فاطمہ بھی شامل تھیں ۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے چائے پی اور امداد امام اثر پہ گفتگو ہونے لگی۔ ان دنوں سرور صاحب نےان پر ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے جو تقریبا دسمبر تک منظر عام پر آئے گی ۔ سرور صاحب اردو گھر سے نکلنے والے ایک پرچے اردو ادب کے معاون مدیر بھی ہیں اس لئے انہوں نے مجھے اس بار کا وہ پرچہ بھی دکھایا جو شمس الرحمان فاروقی کے بیاسی سال کے ہو جانے پر خصوصی شمارے کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں فاروقی صاحب کا بھی ایک مضمون تھا جس میں فاروقی صاحب نے سرور صاحب کی امداد امام اثر پر آنے والی کتاب کی زبان و بیان کو بہت سراہا ہے۔ غالبا فاروقی صاحب نے اس کتاب پر دیباچہ یا پیش لفظ لکھا ہے۔ مگر مجھے فاروقی صاحب کا مضمون پڑھتےہوئے اس بات پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایک جگہ سرور صاحب کی گرفت کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ سرور صاحب نے کاشف الحقائق کے نظر انداز کئے جانے کی وجوہات پر بات نہیں کی ہے ، میں نے فاروقی کا یہ جملہ پڑھ کے جب سرور صاحب سے اس سے متعلق استفسار کیا تو وہ مسکرا کر خاموش ہو گئے ، جب میں نے مزید اسرار کیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آپ نے ایک پوری کتاب ترتیب دے دی اور اتنی سامنے کی بات کو نظر انداز کر دیا ، تو انہوں نے کہا کہ میں فاروقی صاحب پر اس عمر میں تنقید نہیں کرنا چاہتا ، لیکن جب آپ وہ کتاب پڑھیں گے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ جس بات کے فقدان کی بات فاروقی صاحب کر رہے ہیں وہ کتنی جگہوں پر موجود ہے ۔ میں ان کا یہ جملہ سنتے ہی ہنس دیا۔ یہ ایک عجیب رویہ ہمارے ناقدین کا ہے کہ جو باتیں وہ دوسروں کو کرنے سے روکتے ہیں اس کو خود بڑی کثرت سے سر انجام دیتے ہیں ۔ سرسری مطالعے کا رونہ مجھے شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ ، ظفر اقبال وغیرہ سے بہت زیادہ رہا ہے ۔ مثلا ً یہ بات میں نے سرور صاحب سے بھی کہی کہ نارنگ صاحب کی کتاب کاغذ آتش زدہ ایسی ہے کہ اس کو انہیں جلا ہی دینا چاہئے تھا، مگر انہوں سے اسے چھپوایا۔ خود تو ابواللیث صدیقی کو لکھنو کا دبستان شاعری پر لعن طعن کیا ہے اور یوسف سلیم چشتی کو برا کہتے نہیں تھکے ہیں اور اپنی اتنی ہلکی کتاب کو بھی ضخیم بنا کر سجا سنوار کر سامنے لے آئے ، اگر یہ ہی کتاب جو کہ نارنگ صاحب کی کاوش قلم کا نتیجہ ہے اگر ابوالکلام قاسمی ، شہپر رسول ، ابن کنول ، خواجہ اکرام الدین یا انور پاشا کی ہوتی تو نارنگ صاحب اس کی لاکھ برایاں کرتے ۔ مگر چونکہ وہ ان کی خود کی ہے اس لئے کسی نابغے سے کم نہیں ۔ یہ ہی فاروقی صاحب کا حال ہے کہ تفہیم غالب سے لے کر شعر شور انگیز تک کئی ایک کتابوں میں بلا کا جھول ہے ، مگر اس پر نگاہ ہی نہیں جاتی۔ سرور صاحب جب محمد حسن ، وحید اختر ، محمود ہاشمی اور باقر مہدی کی باتیں کرتے ہیں تو فاروقی کی شخصیت بونا دکھائی دیتی ہے ، مگر یہ ان کا مزاج ہے کہ وہ کبھی فاروقی کے تعلق کوئی تنقیدی جملہ نہیں کہتے۔ بس زیادہ ہوا تو ناصر عباس نیر، خالد جاوید، بورخیس ، عتیق اللہ، نصیر صاحب، عبدالحق اورجے این یو کی پرانی باتوں کا پٹارا کھول دیتے ہیں جس میں سے قہقہے لگانے والی بے شمار کہانیاں کود کود کر باہر آنے لگتی ہیں۔