[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
سرمئی شام میں گھٹی چیخیں
[/vc_column_text][vc_column_text]
دھلے ہوے اجلے روشنی میں اٹے ہوے
لفظ لکھ کر کیا بتاؤں؟
میں ایک دفعہ پھر ہار گیا ہوں؟
لفظ لکھ کر کیا بتاؤں؟
میں ایک دفعہ پھر ہار گیا ہوں؟
میں نے سنا ہے
ایک شام ہے سرمئی سی سبز قدم
جو آتی جاتی رہتی ہے
اس شام نے مستقل
مجھے دیوار چنا ہے
ایک شام ہے سرمئی سی سبز قدم
جو آتی جاتی رہتی ہے
اس شام نے مستقل
مجھے دیوار چنا ہے
میری ہڈیوں کے ایمان لرز گئے ہیں
جیسے شہروں میں زلزلے آ جائیں
میرا گوشت گھبرا گیا ہے
پرانی شکار گاہ میں جیسے
کوئی پتہ ہلا ہو
جیسے شہروں میں زلزلے آ جائیں
میرا گوشت گھبرا گیا ہے
پرانی شکار گاہ میں جیسے
کوئی پتہ ہلا ہو
تمہیں لگتا ہے میں گر گیا ہوں
میں تو مستقل گر رہا ہوں
میری ہر دھڑکن اپنی
کلایاں کاٹ کر نکلتی ہے
سانس کا نیزہ
حلق کے دروازے پر رگڑتا ہوا
لفظ بن رہا ہے
اور ہر لفظ،
لشکری
مجھ سے دشمنی پر اترا ہوا ہے
یہ بول نہیں رہے
میں چنا گیا ہوں
کہ میں کتنا چلا رہا ہوں
کیا آفت ہے جو میرے معانی میں مچی ہے
میں تو مستقل گر رہا ہوں
میری ہر دھڑکن اپنی
کلایاں کاٹ کر نکلتی ہے
سانس کا نیزہ
حلق کے دروازے پر رگڑتا ہوا
لفظ بن رہا ہے
اور ہر لفظ،
لشکری
مجھ سے دشمنی پر اترا ہوا ہے
یہ بول نہیں رہے
میں چنا گیا ہوں
کہ میں کتنا چلا رہا ہوں
کیا آفت ہے جو میرے معانی میں مچی ہے
میں بھوت ہوں
میں نے بھسم ہو جانا ہے
ایک دن چلتے ہوئے
اربوں کھربوں حصّے میرے
یوں
الگ ہو جائیں گے
تم ان کے ٹوٹے ہوئے رشتے یاد رکھنا
میں نے بھسم ہو جانا ہے
ایک دن چلتے ہوئے
اربوں کھربوں حصّے میرے
یوں
الگ ہو جائیں گے
تم ان کے ٹوٹے ہوئے رشتے یاد رکھنا
ہاتھوں کا وہ آخری بار مسلنا
وہ گردن کے اندر
مایوس سا درد
ہارتے جانے کا ڈر
جو اب تمہاری قسموں سے نہیں جاتا
وہ کہیں جانا ہی نہیں چاہتا
سرمئی شام نے مجھے مستقل
دیوار چنا ہے
وہ گردن کے اندر
مایوس سا درد
ہارتے جانے کا ڈر
جو اب تمہاری قسموں سے نہیں جاتا
وہ کہیں جانا ہی نہیں چاہتا
سرمئی شام نے مجھے مستقل
دیوار چنا ہے
یہ اندر بیٹھے ہوے لوگ
یہ باہر بیٹھے ہوے لوگ
یہ سب کے سب پاگل ہیں
کم یا زیادہ
آنکھیں دیکھنا ان کی
آنکھیں ہیں یا اینٹ پتھر کنکریٹ؟
ہم سب کی
ان پھٹی ہوئی آنکھوں پر
میں اور تم بھی ہارے ہیں
یہ باہر بیٹھے ہوے لوگ
یہ سب کے سب پاگل ہیں
کم یا زیادہ
آنکھیں دیکھنا ان کی
آنکھیں ہیں یا اینٹ پتھر کنکریٹ؟
ہم سب کی
ان پھٹی ہوئی آنکھوں پر
میں اور تم بھی ہارے ہیں
آج تیسویں سال کے چھٹے مہینے میں بھی
میں ہارنے کی روایت کا جھنڈا گاڑ کر کھڑا ہوں
مجھے لگتا ہے ہم سب ایک جنگِ عظیم کے
ہراول دستوں میں بھاگ رہے ہیں
ایک سرمئی شام کے اندر
ساکت جسم دیوار کے اندر
ایک جست کا خواب دیکھ رہے ہیں
میں ہارنے کی روایت کا جھنڈا گاڑ کر کھڑا ہوں
مجھے لگتا ہے ہم سب ایک جنگِ عظیم کے
ہراول دستوں میں بھاگ رہے ہیں
ایک سرمئی شام کے اندر
ساکت جسم دیوار کے اندر
ایک جست کا خواب دیکھ رہے ہیں
Image: Devon Raines
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]