ناول "سرخ شامیانہ” کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
” کب جائن کر رہے ہو ڈاکٹر؟” بہنوئی نے پوچھا۔
"اگلے ہفتے”، شاہد نے مختصر جواب دیا۔
"کتنا عرصہ وہاں رہنا پڑے گا بیٹا؟” ماں نے پوچھا۔
"تین سال”، شاہد نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
"چلو نوکری جائن تو کرو، شاید کبھی تبادلے کا چانس مل جاے”، بہنوئی نے تسلی دینے کے انداز میں کہا۔
"شادی کر لو بیٹا، ساتھ لے جانا دلہن کو، خدمت کرے گی وہاں تیری، اکیلے میں پردیس کاٹنا بڑا مشکل ہے”، ماں نے مشورہ دیا۔
"اپنی خدمت کے لیئے میں آپ ہی کافی ہوں”۔
"دیتا ہے کسی بات کا جواب انسانوں کی طرح”، خاور کے لہجے میں پھر غصہ عود آیا،”میں کہتا نہیں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے”۔
"اچھا یار ناراض مت ہو، مجھ پر بڑے احسان ہیں تمہارے، بس شادی کے موضوع پرمجھ سے بات نہ کرو”،شاہد نے گہری سانس لے کر صُلح جُوئی سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنگ کوچوں میں شام اُتر رہی تھی۔ ٹاٹ کے پردوں اور سلاخ دار کھڑکیوں میں سے بچوں، برتنوں اور ٹیلی وژن کی آوازیں آرہی تھیں، آسمان پر ختم ہوتی روشنی میں چند پتنگیں ہلکی ہوا پر ڈول رہی تھیں۔بازار میں چھڑکاؤ کے بعد کی تازگی اور گہماگہمی تھی، شاہد نے چاچا مجید کے کھوکھے پر رک کر سگریٹ لئے اور کچھ دیر اس سے فقرہ بازی کی، منحنی بدن،خشخشی داڑھی،اندر کو دھنسی ہوئی چمکیلی آنکھیں جو ہر گاہک پر مذاق کے شرارے چھوڑنے کوبے چین رہتی تھیں،چاچا مجید حسبِ عادت اُکڑوں بیٹھا تیزی سے پانوں پر کتھا چُونالگا رہا تھا اور شاہد کو شاہی قوام والا پان کھلانے پر مُصر تھا ، اس کا بیان تھا کہ قوام والے پان سے آدمی کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے، کانوں پر پڑے چبے ہٹ جاتے ہیں اور جگر میں اصلی اور سُچی گرمی پیدا ہوتی ہے۔ شاہد کا اصرارتھا کہ وہ اس بہشتی سفر کے لئیے ابھی نابالغ تھا۔
بازار سے گزرتا وہ اقبال کی پتنگوں کی دُکان پر پہنچا، دُکان کے آگے پڑے بنچ پر اقبال کا باپ اپنے چند دوستوں کے جلو میں حقے کے کش لے رہا تھا، بزرگوں سے علیک سلیک کر کے وہ دُکان میں داخل ہوا۔ اس وقت ڈور پتنگ کے گاہکوں کی آمد کا امکان نہیں تھا لیکن دُکان بند کرنے کی کوئی جلدی نہیں پائی جاتی تھی۔ اقبال پچھلی دیوار سے ٹیک لگائے پتنگوں کے شہتیر چھیل رہا تھا۔ شاہد کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکیں۔ شاہد نے اسے بتایا کہ اسے جھنگ کے ایک دوردراز گاؤں میں نوکری ملی تھی۔ اقبال نے ایک مفصل گالی کے ذریعے اس خبر پراپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ شاہد اور وہ بچپن میں ایک ہی سکول میں پڑھتے رہے تھے۔ تمام ذمہ دار باپوں کی طرح اقبال کے باپ کا بھی یہی نصبُ العین تھا کہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر ایک بڑا سرکاری افسر بنے، اپنے باپ کا نام روشن کرے اور اس کی طرح مانجھے سے اپنے ہاتھ کاٹنے میں زندگی گزارنے سے بچ جائے۔اقبال کی نظر لیکن آسمان پر رہتی تھی،استادوں کی جھڑکیاں، ڈنڈے، سزائیں،باپ کی لعن طعن، ہم جماعتوں کے ٹھٹھے، کوئی حیلہ اس کی توجہ بے رنگ الفاظ پر مرکوز کروانے میں کامیاب نہ ہوا۔ آٹھویں کے امتحان سے کچھ دن پہلے اس نے بستہ موچی دروازے کے باہر لیٹے نالے میں پھینک دیا اور باپ کو دھمکی دی کہ اگر اس کے سامنے کسی نے سکول کا نام لیا تو وہ ایک بہت بڑی پتنگ بنائے گا اور اس کے ساتھ لٹک کر ہمیشہ کے لیئے اُڑ جائے گا۔
اب اس کی بازار میں دو دکانیں تھیں، شاگرد تھے،ملازم تھے ، اس کے ہاتھ کے بنے سُدھ تیِرے اور کُپ شہر میں مشہور تھے۔اس کا باپ اب اپنی ریٹائرمنٹ کا زمانہ اس دکان کے آگے رکھے بنچ پر گزارتا تھا جو اس کے وقتوں کے ڈربے سے پھیل کر ایک بڑی، شیشے کی الماریوں سے سجی رنگا رنگ اور مشہور دکان بن گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ حقے کا کش لے کر اپنے دوستوں سے کہتا،”چلو جو خدا کو منظور، اس کے کاموں میں بہتری ہی ہوتی ہے، لیکن ظہورعلی کا لڑکا دیکھو ڈاکٹر بن گیا ہے”۔
دکان بند کرنے تک شاہد اقبال سے گپیں لگاتا رہا، پھر وہ گھر واپس چل دیا۔ اگلے ہفتے اسے چک بھمبراں روانہ ہونا تھا، چک بھمبراں کہاں تھا؟ کیا وہاں اونٹ پر بیٹھ کر پہنچنا پڑے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔
چک بھمبراں جانے والا چوڑا پگڈنڈی نما راستہ ریت کے سنسان ٹیلوں میں لیٹا تھا، شاہد بھوسے کے نیم شکستہ چھپر تلے کھڑا گنڈیریاں چوس رہا تھا۔چھپر کا مالک پھلوں کی چند ٹوکریوں اور مکھیوں کے بیچ سہ پہر کی غنودگی میں جھول رہا تھا۔دور دراز تک مکمل خاموشی اور سکوت تھا جس میں شاہد گنڈیریاں چوسے جانے کی سڑک سڑک سن رہا تھا۔ جھنگ سے روانہ ہونے والی لاری نے ڈھائی گھنٹے کے سست رو سفر کے بعد اسے اس مقام پر جسے اڈہ خاص کہلانے کا شرف حاصل تھا،اتار دیا تھا۔ اڈہ خاص ایک بوسیدہ کھوکھے پر مشتمل تھا جس کے مالک نور علی نے شاہد کو اطمینان دلایا کہ بابا رحمت اپنے ٹانگے سمیت آتا ہی ہوگا، اڈے سے ہسپتال تک تین میل کا فاصلہ تھا ، گاؤں ہسپتال سے کوئی ایک فرلانگ پہلے تھا۔سیدوں کی گاڑی کے علاوہ بابا رحمت کا ٹانگہ اس رستے کو طے کرنے والی واحد سواری تھی۔
نور علی نے اس اطلاع پر کہ شاہد کا ارادہ وہاں قیام کرنے اور ہسپتال چلانے کا تھا اسے تشویش اور تعجب سے دیکھا تھا۔ جب سے یہ مرکز بنا تھا کسی ڈاکٹر نے وہاں قیام کرنے کی تمنا کا اظہار نہیں کیا تھا۔ موجودہ ڈیوٹی ڈاکٹر تین چار مہینوں میں ایک بار یہاں کا چکر لگاتا تھا، ہسپتال میں چند منٹ رکنے کے بعد وہ سیدوں کی حویلی سلام کرنے جاتا اور اسی شام واپس روانہ ہو جاتا۔ہسپتال کا عملی ڈاکٹر وہاں کا ڈسپنسر نذیر تھا جو اسی گاؤں کا رہائشی تھا۔
نور علی نے اس اطلاع پر کہ شاہد کا ارادہ وہاں قیام کرنے اور ہسپتال چلانے کا تھا اسے تشویش اور تعجب سے دیکھا تھا۔ جب سے یہ مرکز بنا تھا کسی ڈاکٹر نے وہاں قیام کرنے کی تمنا کا اظہار نہیں کیا تھا۔ موجودہ ڈیوٹی ڈاکٹر تین چار مہینوں میں ایک بار یہاں کا چکر لگاتا تھا، ہسپتال میں چند منٹ رکنے کے بعد وہ سیدوں کی حویلی سلام کرنے جاتا اور اسی شام واپس روانہ ہو جاتا۔ہسپتال کا عملی ڈاکٹر وہاں کا ڈسپنسر نذیر تھا جو اسی گاؤں کا رہائشی تھا۔
بابا رحمت کا ٹانگہ نمودار ہوا تو اگلی سیٹ پر بیٹھے صاف ستھری شلوار قمیض میں ملبوس، اندر کو دھنسی آنکھوں اور تیل سے چپڑے بالوں والے نوجوان نے ٹانگے سے اتر کر ہاتھ اٹھا کر ادب سے ڈاکٹر شاہد علی کو سلام کیا۔یہ ڈسپنسر نذیر تھا جو اپنے نئے افسر کا استقبال کرنے بذاتِ خود حاضر ہوا تھا۔ شاہد کے اس استفسار پر کہ اسے اس کی آمد اور خصوصاً آمد کے وقت کا علم کس طرح ہوا، نذیر نے نہایت انکساری سے مطلع کیا کہ نوکر پر لازم ہے کہ مالک کی خبر رکھے۔
نذیر نے راستے میں شاہد کو بتایا کہ وہ لاری کے اڈہ خاص پہنچنے سے پہلے وہاں استقبال کے لئے موجود ہونا چاہتا تھالیکن عین وقت پر سیدوں کی حویلی سے اسے بلاوا آگیا، بڑی شاہنی کے پیٹ میں زبردست مروڑ اٹھا تھا اور اسے فوری طور پر دوا کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے اسے اڈہ خاص پہنچنے میں دیر ہو گئی ۔
ٹانگہ کچے راستے پر ریت اور دھول اڑاتا سنسان میدانوں سے گزر رہا تھا ، کوتاہ قامت ٹیلوں پر اکا دکا ضدی جھاڑیاں بقا کی جنگ میں کانٹے تانے کھڑی تھیں۔ہوا سے ریت پر بنتی لہروں کے علاوہ یہ ایک مکمل ساکت دنیا تھی۔
ویرانے میں ایک چاردیواری نظر آئی جس میں پکی اینٹوں کی دو پستہ قد، مختصر عمارتیں واقع تھیں۔ ان میں سے ایک کے قریب پہنچ کر ٹانگہ روکا گیا اور نذیر اُچک کر ٹانگے سے اترا، اس کی دیکھا دیکھی شاہد بھی اتر آیا۔ بابا رحمت نے شاہد کا سامان اٹھایا اور وہ اس مکان میں داخل ہوے جو اب شاہد کی رہائش گاہ بننے والا تھا۔ اس کوارٹر نما مکان کے دونوں کمرے فرنیچر سے قطعاٌ عاری تھے، غسلخانے کے خلا میں جالے لٹک رہے تھے، تنگ باورچی خانے کے ایک کونے میں تین اینٹیں اور زمانوں پرانی راکھ چولہے کی ناموس کے پاسبان تھے ،دیواروں کے علاوہ اس مکان میں دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ شاہد چھوٹے سے برآمدے میں نکل آیا، برآمدے اور باہر کی چار دیواری کے درمیان ایک مختصر میدان تھا جس کے کنارے کنارے کسی زمانے میں کی گئی کیاریاں بنانے کی ناکام کوشش کے آثار تھے۔ یہ صفا چٹ میدان دیوار پار کی سخت جان جھاڑیوں سے بھی محروم تھا۔
ویرانے میں ایک چاردیواری نظر آئی جس میں پکی اینٹوں کی دو پستہ قد، مختصر عمارتیں واقع تھیں۔ ان میں سے ایک کے قریب پہنچ کر ٹانگہ روکا گیا اور نذیر اُچک کر ٹانگے سے اترا، اس کی دیکھا دیکھی شاہد بھی اتر آیا۔ بابا رحمت نے شاہد کا سامان اٹھایا اور وہ اس مکان میں داخل ہوے جو اب شاہد کی رہائش گاہ بننے والا تھا۔ اس کوارٹر نما مکان کے دونوں کمرے فرنیچر سے قطعاٌ عاری تھے، غسلخانے کے خلا میں جالے لٹک رہے تھے، تنگ باورچی خانے کے ایک کونے میں تین اینٹیں اور زمانوں پرانی راکھ چولہے کی ناموس کے پاسبان تھے ،دیواروں کے علاوہ اس مکان میں دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ شاہد چھوٹے سے برآمدے میں نکل آیا، برآمدے اور باہر کی چار دیواری کے درمیان ایک مختصر میدان تھا جس کے کنارے کنارے کسی زمانے میں کی گئی کیاریاں بنانے کی ناکام کوشش کے آثار تھے۔ یہ صفا چٹ میدان دیوار پار کی سخت جان جھاڑیوں سے بھی محروم تھا۔
"لگتا ہے کوئی بہت بڑا گناہگاریہاں لوٹنیاں لگاتا رہا ہے”، شاہد نے اظہارِ خیال کیا۔
ڈسپنسر نذیر اس کے اس فقرے سے واضح طور پر محظوظ ہوا۔ اس نے شاہد کو بتایا کہ یہ مکان تقریبأ ہمیشہ بند ہی رہا ہے۔ بحالتِ مجبوری ایک رات سے زیادہ وہاں کسی ڈاکٹر نے قیام نہیں کیا تھا۔ اس نے آج صبح مکان کھول کر اس کی صفائی کروائی تھی۔ شاہد نے دیکھا کہ فرش پر پھیلی گرد میں جھاڑو پھیرے جانے کے نشانات تھے۔ اس اثناء میں دومنحنی انسان برآمدے میں نمودار ہوے۔ ایک کی بغل میں جھاڑو دبا تھا ،دوسرا اس اعزاز سے محروم تھا۔ دونوں نے معزول سپاہیوں کی طرح شاہد کو سیلیوٹ کیا۔یہ خاکروب جیکب مسیح اور چوکیدار اشرف چِبا تھے۔
” ہوسکے تو یہاں ایک بار پھر جھاڑو پھیر دو”، شاہد سیلیوٹ کا جواب دے کر جیکب سے مخاطب ہوا۔
"بہتر جناب”، جیکب بغل سے جھاڑو برآمد کرتے ہوے بولا، "ویسے صفائی جتنی مرضی کر لیں، مٹی اتنی ہی رہتی ہے”۔
"آئندہ اس فقرے کو الٹی طرف سے یاد رکھو، مٹی جتنی مرضی آئے، صفائی اتنی ہی رہنی چاہیے”۔
"آئندہ اس فقرے کو الٹی طرف سے یاد رکھو، مٹی جتنی مرضی آئے، صفائی اتنی ہی رہنی چاہیے”۔
نذیر اور اشرف کی ہمرکابی میں وہ ڈسپنسری کا معائینہ کرنے نکلا تو باہر کھڑے بابا رحمت نے اسے سلام کیا۔ شاہد نے جیب سے بٹوا نکالتے ہوے کرایے کے بارے استفسار کیا۔ بابا رحمت نے اسے حضور، مائی باپ کے لقب سے نوازتے ہوے درخواست کی کہ وہ نوکر کو شرمندہ نہ کرے، وہ بھلا اس سے کرایہ کس طرح مانگ سکتا تھا؟ شاہد نے چند روپے اس کے انکار کے باوجود اسے دیے اور اسے بتایا کہ وہ حضور اور مائی باپ نہیں تھا اور دوسروں سے بیگار لینے کا اسے کوئی شوق نہ تھا۔
ڈسپنسری تین کمروں پر مشتمل تھی، ایک گرد آلود میز، کرسی، معائینے کا سٹول، چند زنگ خوردہ اوزار، ایک بستر جس کے سپرنگ پینڈولم کی طرح لٹک رہے تھے اور دوائیوں کی ایک الماری اس کا کل اثاثہ تھے۔ دوائیوں کی جانچ پڑتال سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے تعویذ گنڈے سے کام چلانا پڑے گا۔ نہایت بنیادی قسم کی چند ادویات کے پیکٹ جو وہاں دستیاب تھے ان میں سے اکثر کی مدتِ میعاد عرصہ پہلے پوری ہو چکی تھی۔
گو اپنے سینیئر دوستوں سے وہ بنیادی مراکز صحت کے حالات سن چکا تھا اور یہ دگرگوں حالت اس کے لئے انکشاف نہ تھی لیکن خود کو اس بے سروسامانی و ویرانی میں گھرا پا کر وہ کچھ روہانسا ہوا۔ وہ یہاں کیا کرنے آیا تھا؟
ڈسپنسری کے معائینے سے فارغ ہو کر وہ اپنی رہائش گاہ کی طرف نکلا۔ بابا رحمت اپنے ٹانگے سمیت ابھی وہیں تھا اور گھوڑے کی نادار پشت سہلاتے ہوے جیکب مسیح سے محوِ گفتگو تھا۔
"ڈاکٹرصاحب سیدوں کی حویلی ہو آئیں؟” ، نذیر نے اس کے ساتھ چلتے ہوے مشورانہ لہجے میں استفسار کیا۔
"وہ کیوں بھئی؟”
"جی بڑی شاہنی بیمار ہیں، آپ چیک کر لیں”۔
"اتنی خراب حالت ہے کہ ڈسپنسری تک نہیں آسکتیں؟”
” نہیں سر ایسی بات تو نہیں، دوا تو میں نے دے دی تھی”۔
"پھر؟”
"سر وہ مالک ہیں اس علاقے کے ،تیس گاؤں ان کے مزارعے ہیں”۔
"نذیر، میں سرکاری ملازم ہوں سیدوں کا نہیں”۔
"ڈاکٹر صاحب سرکار بھی تو انہی کی ہے، آپ جانتے ہی ہیں”۔
"ہاں جانتا ہوں”۔شاہد نے بات ختم کرتے ہوے کہا۔
نذیر کے چہرے پر تشویش کے آثار پھیلے لیکن وہ خاموش رہا۔ شاہد نے مکان پر پہنچ کر دروازہ کھولا اور ان لوگوں کی طرف دھیان دیے بغیر اندر چلا گیا۔
تھکن اور بیزاری نے اس پر یک بار چڑھائی کی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں اس کا بستر اور سوٹ کیس پڑا تھا، ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ سامان اٹھا کر ٹانگے میں رکھے اور اسی وقت لاہور لوٹ جائے، کاغذی کارروائی پوری ہوچکی تھی، ادویات کے بغیر یہاں کرنے کو کچھ نہ تھا۔ بڑی شاہنی اپنی بدہضمی کی خود ذمہ دار تھی۔
(جاری ہے)
Leave a Reply