پاکستان اور بھارت اپنے قیام سے لے اب تک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اوربدقسمتی سے اب تک دونوں ممالک میں اس جنگی جنون میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکی ۔ ان ممالک کے بیچ جہاں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے وہیں ان ممالک میں غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ صدیوں سے اکھٹے رہنے والوں کے درمیان نفرت کی لیکریں دن بددن گہری ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاں اس نفرت کی دیوار کو بڑھانے والے افراد موجود ہیں وہاں امن کے متوالے ان نفرتوں اور عداوتوں کے خلاف کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ہمیں اوسلو میں نوبل امن ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی نظر آتے ہیں جن کو دونوں دیسوں کے کروڑوں افراد نے ٹیلی ویژن سکرین پر براہ راست دیکھا۔ یہ لمحات یقینا” قابل دید اور قابل ستائش تھے جنہیں شاید لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ ایوارڈ دنیا میں غیر معمول کام کرنے والے افراد کو ہر سال دیا جاتاہے۔ 1903ء سے 2014ء تک 103شخصیات اور 25عالمی تنظیموں کو نوبل انعام سے نوازاگیا ہے۔ 17 سالہ ملالہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیت بن چکی ہیں ۔ سوات کی ملالہ یوسف زئی کو عالمی شہرت بی بی سی اردو پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے پر اس وقت ملی جب طالبان نے سوات میں لڑکیوں کے سکولوں پر حملے کرنے اور ان کو تعلیم حاصل کرنے سے باز رکھنے کیلئے گولی و بارود کو بطور ہتھیار استعمال کیا ۔ اس وقت ملالہ نے ان دل خراش واقعات کو قلم بند کرنا شروع کیا اور تعلیم کے حق کے لیے آوازاٹھائی۔
طالبان کے خلاف آواز اٹھانے پر 9 اکتوبر 2012 کو طالبان دہشت گردوں نے ملالہ کی سکول وین پر حملہ کر دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی تھیں۔ انہیں علاج اور اپنی اور گھر والوں کی جان کے تحفظ کےلئے برطانیہ منتقل ہونا پڑا جہاں صحت یاب ہونے کے بعد وہ اب زیرِ تعلیم ہیں۔ دو بین الاقوامی اداروں نے ملالہ کے حالات و واقعات پر دستاویزی فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے باشندوں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ اب اگر لڑنا ہے تو غربت کے خاتمے کے لیے لڑنا ہے ، اب اگر جنگ ہو گی تو وہ جہالت ، پسماندگی اور ناانصافی کے خلاف ہو گی۔
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے گاؤں ودیشا میں 11جنوری 1954 کو پیدا ہونے والے کیلاش ستیارتھی نے 1990 میں بچوں کے حقوق کیلئے ایک سماجی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کے قائم کی اور بچوں کی مزدوری کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا۔ اس تنظیم نے 80 ہزار بچوں کو مزدوری سے ہٹا کر تعلیم کے زیوار سے آراستہ کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی پورے زور و شور کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ نوبل ایوارڈ کی اس تقریب میں کیلاش نے کہا کہ ’ہر بچے کو پڑھنے اور بڑے ہونے کے لیے آزاد ہونا چاہیے، اپنی مرضی سے ہنسنے اور رونے کے لیے آزاد ہونا چاہیے اور انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس اشلوک پر کیا ’ہمیں جہالت سے علم کی طرف، اندھیرے سے روشنی کی طرف بڑھنا ہے۔ "جبکہ ملالہ نے اپنے خطاب میں دنیا کے طاقت ور ممالک اور طبقات سے یہ سوال کیاکہ ’ایسا کیوں ہے کہ بندوقیں بانٹنا آسان ہے اور کتابیں بانٹنا مشکل ہے، ٹینک بنانا آسان لیکن سکول بنانا مشکل ہے۔ ملالہ نے کہا کہ یہ ایوارڈ صرف ان کا نہیں بلکہ ان بچوں کا ہے جو تعلیم چاہتے ہیں، ان خوفزدہ بچوں کا ہے جو امن چاہتے ہیں اور ان بےزبان بچوں کا ہے جو تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ملالہ نے کہا کہ ’یہ ان بچوں پر ترس کھانے کا نہیں بلکہ اقدامات کرنے کا وقت ہے تاکہ یہ وہ آخری وقت ہو جب ہم کسی بچے کو ناخواندہ دیکھیں۔ اپنے انعام سے ملنے والی رقم سے ملالہ نے ملالہ فنڈ کے تحت اپنے آبائی علاقے سوات اور شانگلہ میں سکولوں پر خرچ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس خوشی اور مسرت کے موقع پر ستیارتھی اور ملالہ کا یہ مشترکہ ایوارڈ اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ہر شہری کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ وہ امن کی خاطر اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ جنگ کے طبل بجانے کی بجائے اپنے سیاسی اور جغرافیائی مسائل کو بات چیت کے ذریعے مل بیٹھ کر حل کریں ۔ دونو ں قوموں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ اب اگر جنگ کرنی ہے تو اس خطے کی محرومیوں کےخاتمے کے لیے اس خطے کے مسائل کے خلاف کرنی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے باشندوں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ اب اگر لڑنا ہے تو غربت کے خاتمے کے لیے لڑنا ہے ، اب اگر جنگ ہو گی تو وہ جہالت ، پسماندگی اور ناانصافی کے خلاف ہو گی۔ اگر واقعی ہم امن ایوارڈ لینے والوں کو داد تحسین دینا چاہتے ہیں تو اان امن پسند اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا اور اپنے اپنے دیس کے مقتدر طبقات کو قائل کرنا ہو گا کہ وہ امن کے راستے کی طرف اپنے سفر کا آغاز کریں۔

Leave a Reply