یاد ہے تم کو
پھول تھا دیا تم نے
بالکل اپنے دل جیسا
اُس گلاب کی ساری پتیاں
مہکا سا کچھ بہکا سا اب شعر کہنے لگتی ہیں
کبھی نظمیں جنتی رہتی ہیں
وہ گلاب خود بھی اب غزل کا سنیاسی ہے
میں نے اسکی ٹہنی بھی ساتھ سنبھال کے رکھی ہے
کانٹے بھی آئے تھے ساتھ کچھ
سب بچا رکھےہیں
کبھی ترچھا سا کانٹا چبھ جائے تو
رنگ اِدھر اُدھر بکھرنے لگتے ہیں
کاغذوں کی سانسیں چلنے لگتی ہیں
اک کہانی خود کو لکھنے لگتی ہے
سچ کہا
یہ افسانے شاعری کتابوں کے سلسلے
یہ تیرے میرے ملن کی کتھا
پھول کا تخیل سے طلسمی سا ناطہ ہیں
سب ترے نام کا آخری حصہ ہیں
Image: Paula Belle Flores