آخری بس کے انتظار میں بس سٹاپ پر میں نے خود کوبس سٹاپ سے ذرا فاصلے پر کوڑے کے ڈھیر کے پار گلی میں روپوش ہوتے دیکھا جہاں میں نے خود کو پستول دکھا کر لوٹا، اپنے سامنے دری پر چند سکےپھینکے اوراپنے گھر کی دیوار پھلانگی۔ میں خود پر بھونکا تو ڈر کر گلی کے کونےمیں لگے بلب تک پہنچنے کی کوشش میں ٹھوکر کھا کر دیوار کو تھامنے تک میری شلوار کا پائنچہ لتھڑ چکا تھا۔ خود سے ذرا فاصلہ پر خود کو دیکھ کر اپنے اوپر اپنے بھونکنے اور اپنے ہاتھوں خود کو کاٹے جانے کا خوف کم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنا پیچھا کیا اور مڑ کر دیکھنے پر خود کو دیوار کی اوٹ میں سگریٹ سلگاتے دیکھا۔ میں تیز قدم چلا اور اپنے قریب پہنچا ، اپنے قدموں کی اپنے قریب آتی آواز سے ڈر کر میں نےمڑ کر اپنی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔اپنے قریب پہنچ کر میں نے اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر خود سے پوچھا” لائٹر ہو گا؟” میں نے جیب ٹٹول کر خود کو ماچس دی اورسگریٹ سلگا کر کش لگائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی دکان کا شٹر گراتے ہوئے میں آخری گاہک تھا جسے میں نے سودا دیا ۔ تالہ لگاتے ہوئے مجھے گلی کے کونے سے اپنی آواز آئی، “شٹر نہ گرانا، ایک بوتل چاہئے!!!”میرے چہرے پر خود کو دیکھ کر دن بھر کی تھکن اور ناگواری کی تہہ گہری ہوئی اور خود سے کہا”دکان بند ہے”۔ میں نے خود کو بوتل بیچنے کا آخری موقع گنوا دیا۔میں اپنے اوپر جھنجھلا رہا تھا کہ اس وقت کیوں چلا آتا ہوں، کیا مجھے اپنی دکان کے بند ہونے کے وقت کا علم نہیں؟ الٹے قدموں واپس لوٹتے ہوئے میں نے خود کو کوسا ” کیا تھا جو ایک بوتل دے دیتا۔” بہن چ۔۔”میں نے خود کو گالی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے خود وک ناکہ پر روک کر اپنا منہ سونگھا اور خود سے پوچھا “اوئے کہاں سے آ رہےہو؟ ” میں نے اپنے ہاتھ اوپر کر دیے تاکہ اپنی تلاشی لے سکوں۔ نیفے کے ساتھ بندھی ہزار کی چرس بچانے کے لیے میں نے خود کو سگریٹ اور سو روپیہ دیا۔ ہم دونوں خود کو ایک دوسرے کے ہاتھ دھوکہ دیے جانے پر خوش تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے خود کو روک کر اپنا بھاو طے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنی گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے اپنا جائزہ لیا۔ سستے ٹیلکم پاوڈرم تیز خوشبو اور شوخ سرخی نے میرے سینے کے مصنوعی ابھار سے مل کر مجھے اپنی قیمت طے کرنے میں مدد دی۔ میں نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی رانوں پے ہاتھ پھیرامیری رگوں میں خون تیز ہونے لگا۔میرے عضو تناسل کے تناو نے مجھ پر حاوی ہونا شروع کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے بس کو ہاتھ دے کر روکا اور سوار ہوگیا ۔میں اپنے ساتھ والی بس کی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا اورخود سے اپنے گھر کے سٹاپ تک کی ٹکٹ خریدی ۔میں اپنے ساتھ بیٹھا تو میرا ہاتھ اپنے بریف کیس کے ہینڈل پر ذرا مضبوطی سے جم گیا اور میں نے اپنی جیب ٹٹول کر بٹوے کے ہونے کا اطمینان حاصل کیا۔ مجھے اپنے ساتھ اپنے بیٹھنے سے الجھن ہو رہی تھی۔ میرا سٹاپ آیا اور میں خود کو بس میں چھوڑ کر اتر آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ساتھ اپنے گھر کو پہنچا۔ میں نے دروازہ کھولا اور خود کو گھر دیر سے آنے پر ناراض ہو کر دیکھا۔ گھر لوٹنے تک میں سو چکا تھا اور گھنٹی کی آواز پر ناگواری سے اپنے لئے دروازہ کھولنے کے بعد بستر پر پھر لیٹ گیا۔ میں کپڑے بدل کر اپنے ساتھ لیٹ کر اپنے آپ کو خود سے مجامعت کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ میرے ہاتھ میرے آزار بند تک پہنچے اور میں نے اپنی شلوار سرکا دی۔ مجھے اپنے ہونٹ اپنے ماتھے پر محسوس ہوئے ، تو مجھے اپنے منہ سے آنے والی سگریٹ کی بدبو سے متلی ہونے لگی۔ میرا ایک ہاتھ میرے پستان پر تھا اور مجھے اپنے اوپر اپنا بوجھ محسوس ہوا بڑھتا ہوا ،اور آہستہ آہستہ مجھے خود سے گھن محسوس ہوئی۔ اس قدر گھن کے میں نے خود سے نفرت کی۔ ایک بے کار جسمانی عمل کے بعد میری سانس پھول چکی تھی اور مجھے لگا کے میں اپنے نیچے آ کر مر چکا ہوں۔ اپنے اوپر سے ہٹ کر اپنا ازار بند باندھتے ہوئے میں نے خود کو بستر پر بے حس و حرکت پڑے دیکھا پھر میں نے اپنی شلوار اوپر کھینچی اور کروٹ بدل لی ۔ میں اپنے سے ذرا ہٹ کر اپنی طرف پشت کر کے لیٹ گیا ۔۔
One Response
ماشااللہ Going Gooooood