تڑاتڑ گولیاں ، دھماکوں کی آوازیں، خوف میں بسی چیخ پکار، بھاگ دوڑ، خون آگ، بارود کی بو، انسانی گوشت جلنے کی بو، خون میں بسے بھاگتے ننھے ننھے قدموں کے نشانات، اور پھر بین، آنسو، دھاڑیں مار کر رونا، آہ و بکا، ایمبولینسوں کا شور، بدحواسی، کراہیں، میڈیا کا سیلاب، ٹویٹر فیس بک و دیگر پرسوشل میڈیا ئی آنسو، دکھ درد، سسکیاں، آہیں، بد دعائیں، خدا سے رحم کی پکاریں، ہمدردیاں، مذمتیں، نیز مذمتی بیانات، فارمولہ بیانات، الزام تراشی بیانات، مذہبیانہ بیانات، کمیٹیاں، عبرت ناک سزاوں کے عزم بالجزم، اور کندھوں پر اٹھائے چھوٹے چھوٹے ایک سو اڑتیس جنازے۔
اور پھر ایک طویل خاموشی!
وہ طویل خاموشی جس میں شور ہوتا ہے ہنگامے بھی رقص و جشن بھی، اور دادعیش و شجاعت بھی، نہیں ہوتی تو وہ آواز نہیں ہوتی جو قوموں کو ایک پکار پر یکجا کرتی ہے، یک دل، ہم آہنگ اور مشترکہ مقصد پر ابھارتی ہے۔ کسی بھی سانحے کی منتظر یہ خاموشی چپ چاپ سب کا منہ تکا کرتی ہے۔ ایک سال پر محیط اس طویل خاموشی کی گود میں بھی کئی قصے اچھلتے کودتے رہے، کہیں جشن و شادی تھا، تو کہیں منی لانڈرنگ کے جلوے، این اے 246 کے دعوے تھے تو بلدیاتی انتخابات کا جشن، کس کی طلاق ہوئی، کس کی بیٹی بھاگی، کس نے کس کی بیگم سے کون سی شادی رچائی اور کس نے کتنے نجی و سرکاری بیرونی دورے کیے، سب ہی تو ہمکتا، کبھی شورو غوغا مچاتا رہا اور یہ خاموشی اداس ملول پڑی سوتی رہی۔
آگ اور خون اسی طرح موجود ہے، زلزلے کے تباہ حال سردی کے مارے بچے بھی، دہشت گردی اور اس کے عوامل بھی، چیخ پکار ، سسکیاں، آہیں، کراہیں سب موجود ہیں، اور۔۔۔ ہماری قومی شناختی علامت بے حسی بھی اسی طرح موجود ہے۔ تو وہ عزم بالجزم کیا ہوا؟
اب ایک سال بعد ہلکی ہلکی سرسراہٹوں کے ساتھ اس خاموشی کا سکوت چٹخنا شروع ہوا۔ آہ! ایک سال بیت گیا۔ مذمتوں کے نئے سلسلے شروع ہیں، کھیل میں اک نیا رنگ ہے۔ سیاسی و سماجی اداکار آنکھوں میں پانی لیے (خواہ اصلی ہے یا گلیسرین کا کرشمہ)، سیاہ و سفید لباس زیب تن کیے، نک سک سے درست اپنے اپنے نشتر لیے میڈیا کے منچ پر براجمان ہیں۔ آگ اور خون اسی طرح موجود ہے، زلزلے کے تباہ حال سردی کے مارے بچے بھی، دہشت گردی اور اس کے عوامل بھی، چیخ پکار، سسکیاں، آہیں، کراہیں سب موجود ہیں، اور۔۔۔ ہماری قومی شناختی علامت بے حسی بھی اسی طرح موجود ہے۔ تو وہ عزم بالجزم کیا ہوا؟
ہاں ہم نے پشاور سانحے کے شہدا کو یاد رکھا ہے۔ جب بھی ان پھولوں کی معصوم تصاویر ہمارے سامنے آئیں ہمارے دل دکھ سے بھر گئے۔ عید، بقرعید، نیا سال، ہر خوشی کے موقعے پر ہم نے انہیں یاد رکھا۔ اپنی فیس بک کی پروفائل پربھی شہید بچوں کی نت نئی مسکراتی زندگی سے بھرپور تصاویر لگائیں۔ خدا سے رحم بھی مانگا اور مجرموں کے لیے عبرت ناک سزائیں بھی تجویز کیں۔ لیکن اب اس مصروف زندگی میں کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ یہ بھی دیکھ سکتا کہ ہماری طلب کردہ عبرت ناک سزائیں عمل میں آئیں بھی یا نہیں۔ وہ بچے ہماری اولادوں کی طرح تھے، ہماری قوم کا مستقبل، ہماری ملت کا سرمایہ تھے نا! میرے لیے بھی وہ میری اولاد کی طرح تھے، کیا واقعی؟ آج جب میں اپنا احتساب کرنے بیٹھی ہوں تو مجھے خود پر شرم آرہی ہے۔ اپنا بےحس ، سیاہ چہرہ اور اپنے قول و فعل کا تضاد میں بخوبی سمجھ چکی ہوں، کاش ہم سب بھی اپنے اپنے بیانات اور لفاظی کے آگے ایک ایک آئینہ ضرور رکھ لیں۔
کچھ آئینے پیش خدمت ہیں:
کابینہ کمیٹی لااینڈ آرڈر نے صوبے بھر کی سول و پولیس انتظامیہ کے ساتھ مل کر کئی پروگرام تشکیل دیئے ہیں جن میں سیمینارز کا انعقاد، واکس، مشاعرہ، تقریری و مضمون نسویسی کے مقابلے اور تصویری نمائش شامل ہیں۔ یہ تقریبات پورا ہفتہ جاری رہیں گی۔ اسی طرح صوبے کے تمام بڑے شہروں میں سٹی پریڈ کا انعقاد کیا جائے گا جن میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کریں گے۔ 16دسمبر کو منعقد ہونے والی تقاریب میں شہدا کے خاندانوں کو مدعو کیا جائے گا اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ (اور اب سال گزرنے کے بعد بھی یہ کہتے شرم نہیں آتی کہ) آرمی پبلک سکول کے ننھے پھولوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے گذشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کی پہلی برسی کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس دن شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے صوبہ بھر میں سرکاری طورپر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ 16 دسمبر کو پشاور میں دو بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جس میں ایک تقریب آرمی پبلک سکول اور دوسری تقریب آرکائیوز لائبریری ہال میں منعقد ہوگی جس میں اعلیٰ سیاسی قیادت، فوج کے اعلیٰ حکام اور شہدا کے لواحقین شرکت کریں گے۔ آرکائیوز لائبریری کو آرمی پبلک سکول کے شہدا کے نام سے منسوب کیاجائے گا جبکہ شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے وہاں ایک یادگار بھی تعمیر کی جا رہی ہے جس پر سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے تمام بچوں کے تصویریں لگائی جائیں گی۔ (اور وہ عبرت ناک سزائیں؟ )
ہم نے بھی اس سانحے پر اظہار یکجہتی کیا لیکن بدقسمتی سے ان تمام سرگرمیوں خاص طور پر احتجاجی مظاہروں کو اتنی بھی کوریج نہیں دی گئی جتنی سول سوسائٹی کے نام پر جمع ہونے والے دس بارہ مرد و زن کو دی جاتی ہے اس پر سوائے افسوس کے اظہار کے اور کیا کیا جا سکتا ہے
ایک سیاسی جماعت کے رہنما “دال فے عین” نے ایک سال بعد نیند سے جاگ کر مدھ بھری آنکھوں میں بسے خمار گندم کو جوش خون سے تعبیر کرتے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور بیان داغا:
قوم ننھے شہداء کی قربانیوں کو تاقیامت فراموش نہیں کرے گی۔(ان حرکتوں کے باوجود قوم کے تاقیامت باقی رہنے کی گارنٹی آپ دیں گے)۔
ایک ملا صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
انسانی تاریخ کا المناک، افسوس ناک اور د ل سوز سانحہ جس کی خبر سن کر دل پارہ پارہ ہو گیا، معصوم بچوں، ان کی روتی بلکتی ماوں، ان کے سوگوار والدین اور ان کے غم وحزن میں ڈوبے رشتہ داروں کے بارے میں سوچ سوچ کر دل خون کے آنسو روتاہے۔ ہم نے بھی اس سانحے پر اظہار یکجہتی کیا لیکن بدقسمتی سے ان تمام سرگرمیوں خاص طور پر احتجاجی مظاہروں کو اتنی بھی کوریج نہیں دی گئی جتنی سول سوسائٹی کے نام پر جمع ہونے والے دس بارہ مرد و زن کو دی جاتی ہے اس پر سوائے افسوس کے اظہار کے اور کیا کیا جا سکتا ہے(حرف افسوس کس امر پر ہے ملاحظہ کیجیے) ۔
ایک محترمہ فرماتی ہیں:
ہاں نا مجھے تو بہت دکھ ہے اس سانحے پر، کیا بتاوں جب یہ سانحہ ہوا میرے تو قدموں تلے سے زمین ہی نکل گئی تھی، دہشت گردوں نے تو ہم ماوں کے کلیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔ ہاں اور کیا میں نے تو میڈیا کے کیمرے کے سامنے اس پر زور انداز میں مذمت کی تھی کہ اس چینل نے مجھے پشاور سانحے کی اپنی خصوصی نشریات میں بھی بلایا ہے۔ سوچ رہی ہوں اپنا وہ برانڈڈ سفید سوٹ پہن کرجاوں جس پر باریک نگینوں کا کام ہے۔ تم بھی دیکھنا وہ پروگرام!
اور بھی آئینے ہم میں اور ہمارے اطراف موجود ہیں۔ بس انھیں ڈھونڈنے اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ جس دن ایسا ہوگیا مجھے یقین ہے پشاور سانحے جیسا کوئی دوسرا واقعہ رونما نہ ہوسکے گا۔