دفاعی اداروں ،سیاسی جماعتوں اور شدت پسند علما کی غلط حکمت عملی کے باعث آج ملک آگ وخون کی دلدل میں دھنس چکا ہے ہر طرف دھماکے ،ٹارگٹ کلنگ اور مخالفین کو گھر بار سمیت جلائے جانے کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پالیسی ساز اداروں کی غلطیوں کی بدولت ساٹھ ہزار سے زائدپاکستانی ناکردہ گناہوں کے جرم میں ابدی نیند سوچکے ہیں لیکن ہم اب بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ اگر تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ اتنا سفاک،بربریت سے لبریز اور خون آشام کبھی بھی نہیں تھا۔ ایک وہ زمانہ تھا جب دو افراد کی لڑائی اوران کاایک دوسرے پر چاقووں سے حملہ اخبارات کی شہ سرخی بن جاتاتھااور ایک یہ وقت ہے کہ جب دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں افراد کی ہلاکت بھی معمولی خبر بن کر رہ گئی تھی۔
پشاو ر کینٹ جیسے حساس علاقے میں ہونے والا حالیہ حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں لیکن اس سے قبل بھی ایسے بہت سے تباہ کن حملے ہوچکے ہیں؛مہران بیس ،جی ایچ کیو ،پشاور اور کراچی ائیر پورٹ جیسے دفاعی اہمیت کی حامل تنصیبات بھی دہشتگردی کی زد میں آچکی ہیں لیکن آفسو س سے کہنا پڑرہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے قومی اتفاق رائے تشکیل نہیں دیا جاسکا۔گزشتہ حملوں کی طرح پشاور کے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پر ہونے والے حملے کے بعد سیاست دانوں،صحافیوں ،پالیسی سازوں ،علما اور دفاعی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے وہی رٹے رٹائے گھسے پٹے بیانات سننے کو ملے جو گزشتہ بارہ سالوں سے سنائی دیتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث میں اس واقعہ کو ایک خاص رنگ دے کر اصل ذماداران سے توجہ ہٹانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں بھی جاری ہیں۔ شدت پسند عناصر کے تحفظ کی یہ کوششیں صرف سوشل میڈیا تک ہی نہیں بلکہ ٹی وی چینل بھی اس کارخیر میں شریک ہیں، ایسے وقت میں جب آہوں او ر سسکیوں سے پشاور کی فضا سوگوار تھی تولال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز المعروف مولانا برقع نے ایک ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے لئے جواز پیش کرنا شروع کر دیے۔
پشاو ر کینٹ جیسے حساس علاقے میں ہونے والا حالیہ حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں لیکن اس سے قبل بھی ایسے بہت سے تباہ کن حملے ہوچکے ہیں؛مہران بیس ،جی ایچ کیو ،پشاور اور کراچی ائیر پورٹ جیسے دفاعی اہمیت کی حامل تنصیبات بھی دہشتگردی کی زد میں آچکی ہیں لیکن آفسو س سے کہنا پڑرہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے قومی اتفاق رائے تشکیل نہیں دیا جاسکا۔گزشتہ حملوں کی طرح پشاور کے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پر ہونے والے حملے کے بعد سیاست دانوں،صحافیوں ،پالیسی سازوں ،علما اور دفاعی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے وہی رٹے رٹائے گھسے پٹے بیانات سننے کو ملے جو گزشتہ بارہ سالوں سے سنائی دیتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث میں اس واقعہ کو ایک خاص رنگ دے کر اصل ذماداران سے توجہ ہٹانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں بھی جاری ہیں۔ شدت پسند عناصر کے تحفظ کی یہ کوششیں صرف سوشل میڈیا تک ہی نہیں بلکہ ٹی وی چینل بھی اس کارخیر میں شریک ہیں، ایسے وقت میں جب آہوں او ر سسکیوں سے پشاور کی فضا سوگوار تھی تولال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز المعروف مولانا برقع نے ایک ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے لئے جواز پیش کرنا شروع کر دیے۔
ہمارے سپہ سالار کے افعانستان کاافغان دورےکے تناظر میں اس حملے کے پیچھے افعانستان میں موجود بھارتی قونصل خانوں کے ملوث ہونے کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
ٹی وی چینلز پر ماضی میں ایسے حملوں کے جواز پیش کیے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ایک معروف عالم دین کے بقول پی ٹی آئی کے جلسے میں ناچ گانوں کی وجہ سے قوم پرطالبان کے حملوں کی صورت میں عذابِ خداوندی نازل کیا گیا ہے۔مولانا طارق جمیل نے بھی نپے تلے انداز میں ساری صورتحال کوہمارے گناہوں سے گڈمڈ کرنے کی کوشش کی۔ ملاؤں کا کردار تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں البتہ وردی والوں اور ان کے پروپیگنڈہ مشینریز کے پھیلائےا ہوئے سازشی مفروضوں سے اس حملے کے محرکات اور سیکورٹی صورتحال سے متعلق وہی بیرونی ہاتھ اور یہودوہنود کی سازش کی کھچڑی پکائی جا رہی ہے ۔ہمارے سپہ سالار کے افعانستان کاافغان دورےکے تناظر میں اس حملے کے پیچھے افعانستان میں موجود بھارتی قونصل خانوں کے ملوث ہونے کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
سابق کمانڈو صدر جنرل مشرف اور افعانستان ا ور پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے اصل ذمہ دار جنرل حمید گل نے بھی پشاور سانحہ کے بعد ایک بار پھر بھارت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ اگرکسی طرح ان الزامات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پشاور کینٹ جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا دفاعی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟ آٹھ "بھارتی ایجنٹ” افعانستان میں تربیت حاصل کرکے بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت پاکستان میں داخل ہوئے اورپشاورکے حساس علاقے میں پہنچ کر اتنی بڑی کاروائی کا ارتکاب کیا اوراس دوران قوم پرستوں کو لاپتہ کرنے میں مصروف عقابی نگاہ رکھنے والے خفیہ ادارے ان دہشت گردوں کی بو سونگھنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اگر ایسے ہائی سیکورٹی زون بھی غیر محفوظ ہیں تو عوامی مقامات کی سکیورٹی صورت حال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
آپریشن خیبرون اور ضرب عضب کے بعد سے ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ پشاور میں کسی بھی وقت بڑا حملہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود سکیورٹی اداروں کی ناکامی ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب بھارت،اسرائیل اورامریکہ کے ملوث ہونے جیسے سازشی مفروضوں سے نہیں دیا جاسکتا ۔ دفاعی اداروں، حکمرانوں او ر سیاست دانوں کی ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔
سابق کمانڈو صدر جنرل مشرف اور افعانستان ا ور پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے اصل ذمہ دار جنرل حمید گل نے بھی پشاور سانحہ کے بعد ایک بار پھر بھارت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ اگرکسی طرح ان الزامات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پشاور کینٹ جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا دفاعی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟ آٹھ "بھارتی ایجنٹ” افعانستان میں تربیت حاصل کرکے بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت پاکستان میں داخل ہوئے اورپشاورکے حساس علاقے میں پہنچ کر اتنی بڑی کاروائی کا ارتکاب کیا اوراس دوران قوم پرستوں کو لاپتہ کرنے میں مصروف عقابی نگاہ رکھنے والے خفیہ ادارے ان دہشت گردوں کی بو سونگھنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اگر ایسے ہائی سیکورٹی زون بھی غیر محفوظ ہیں تو عوامی مقامات کی سکیورٹی صورت حال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
آپریشن خیبرون اور ضرب عضب کے بعد سے ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ پشاور میں کسی بھی وقت بڑا حملہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود سکیورٹی اداروں کی ناکامی ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب بھارت،اسرائیل اورامریکہ کے ملوث ہونے جیسے سازشی مفروضوں سے نہیں دیا جاسکتا ۔ دفاعی اداروں، حکمرانوں او ر سیاست دانوں کی ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔
آج پاکستان یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے وسط میں بیٹھ کر طالبانائزیشن کو فروغ دینے اور دہشتگردوں کی مسلسل حمایت کرنے والے مولانا عبدالعزیزاور ان کے ادارے جامعہ حفصہ کے خلاف کاروائی کب عمل میں لائی جائے گی؟
اس سانحے کے بعدپشاور میں ہونے والے ہنگامی پارلیمانی اجلاس کے دوران قومی قیادت کا دہشت گردی کے خلاف عزم قابل ستائش ہے۔ اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل کی تیاری کے لیے سیاسی جماعتوں اور سکیورٹی اداروں کے نمائندگان پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا۔ اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق ہواکہ طالبان کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے علاوہ پنجاب ، سندھ، بلوچستان،کے پی ،کشمیر،گلگت بلتستان اور وفاقی دارلحکومت میں موجود طالبان اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔پاک فوج تزویراتی گہرائی( Strategic Depth)کے نا م پر جن گروپوں کو بھارت اورافعانستان کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے کیا انہیں لگام دی جائے گی؟ کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی،جیش محمد، سپاہ صحابہ ،لشکر طیبہ ،جماعت الدعوۃ سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں (جنہیں پاک فوج اور خفیہ ادارے اسٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کر تےرہے ہیں اورجو اہلِ تشیع ،اقلیتوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں)کے خلاف بھی وزیرستان،سوات یا خیبر طرز کا آپریشن کیا جائے گا ؟ آج پاکستان یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے وسط میں بیٹھ کر طالبانائزیشن کو فروغ دینے اور دہشتگردوں کی مسلسل حمایت کرنے والے مولانا عبدالعزیزاور ان کے ادارے جامعہ حفصہ کے خلاف کاروائی کب عمل میں لائی جائے گی؟ ملک کے طول وعرض میں پھیلے چالیس ہزار سے زائد دہشت گردپیداکرنے کے کارخانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سخت گیر اقدامات اٹھانا، پاکستان کے آئین میں موجود مذہبی شقوں(جو شدت پسندی کے فروع میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں) کا خاتمہ کر کے آئین کو سیکولر بنیادوں پر استواکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر پائیدار امن کا قیام صحرا میں سراب سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔
Leave a Reply