Laaltain

سادگی فن کی انتہا ہوتی ہے

22 جولائی، 2016
میرے استاد ڈاکٹر عابد سیال کے اقوال سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایک بار فرمایا کہ مشکل زبان وہی لکھتا ہے جس پر زبان مشکل ہوتی ہے۔ یہ بات میں نے پلے باندھ لی۔ پھر برٹرینڈ رسل کی کتاب unpopular essays پڑھی تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ فلسفے جیسے خشک مضمون کو وہ کس سادگی سے بیان کرتا ہے کہ فلسفے کے مبادیات سے ناواقف آدمی بھی ان کو سمجھ لیتا ہے، جب کہ وہ انگریزی ادب کا نابغہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ تب میں جان گیا کہ مشکل الفاظ اور تراکیب کا استعمال یا تو اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ لکھاری کا اپنا پڑھا ہوا علم، پڑھا ہوا ذیادہ اور سمجھا ہوا کم ہوتا ہے یا اسے پوری طرح ہضم نہیں ہوا ہوتا اور وہ قاری پر طبع آزمائی کر کے خود بھی سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے، یا یہ احساس کمتری کی وجہ سے ہوتا ہے کہ بات اگر سادہ الفاظ میں لکھ دی تو لوگ عالم نہیں مانیں گے۔

 

قاری کو لفظوں کے گھن چکر میں ڈالتا ہی وہ ہے جس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور وہ صفحے سیاہ کر کے لکھاری کی تہمت کے ساتھ زندہ بھی رہنا چاہتا ہے
ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ‘اردو ادب کی تاریخ’ کا بڑا نام سن رکھا تھا۔ کھول کر پڑھی تو دو صفحات سے زیادہ پڑھا نہ گیا۔ کتاب کو تاریخِ ادب کا بیان ہونا چاہیے تھا لیکن تحریر میں خواہ مخواہ بے محل ادبی چاشنی پیدا کرنے کی کوشش میں عبارت کو بوجھل بنا دیا گیا تھا۔ تفریح طبع یا جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے لکھی جانے والی ادبی تحریر کی بات الگ ہے کہ اس میں تو الفاظ کا عمدہ اور مناسب استعمال ہی اصل مقصود ہوتا ہے مگر ایکایسی کتاب جو عام قاری کو ادب کی تاریخ سے روشناس کرانے کو لکھی گئی ہو اسے عام فہم ہونا چاہیئے۔

 

لکھاری اگر مخلص ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ ابلاغ معنی یعنی دوسروں تک بات پہنچانا ہونا چاہیے۔ قاری کو لفظوں کے گھن چکر میں ڈالتا ہی وہ ہے جس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور وہ صفحے سیاہ کر کے لکھاری کی تہمت کے ساتھ زندہ بھی رہنا چاہتا ہے، یا وہ جس کے پاس کہنے کو بہت کم ہے اور وہ پتلی لسی بنانے کے لیے دودھ میں پانی کی مقدار بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

 

ابلاغِ معنی کی خاطر ہی میں یعنی راقم الحروف اصطلاحات کا استعمال بھی حتی المقدور نہیں کرتا۔ قاری عموماً اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتا۔ اصلاحات کے استعمال سے قاری پر آپ کی علمیت کا رعب تو پڑ جاتا ہے لیکن بات اس کے پلے نہیں پڑتی۔ اصطلاحات کے بغیر (یا اصطلاحات کے عام فہم متبادل کے ساتھ) لکھنے سے دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اسے بھی جو اصطلاح سے واقف ہے اور اسے بھی بھی جو انہیں نہیں جانتا۔ اصطلاحات کا استعمال تحقیقی مقالے کے لیے تو لازم ہے مگر کالم، بلاگ یا مضمون کے لیے نہیں۔

 

قدرت نے اگر آپ کے ہاتھ میں قلم تھما ہی دیا ہے تو اس کا حق ادا کیجیے۔ لغت ہائے حجازی کا قارون بننے کی بجائے آسان الفاظ میں ابلاغ کیجیے۔
ایک بار فیس بک پر ژاں سارتر کے نام سے اکاونٹ چلانے والے صاحب نے مشکل اردو الفاظ اور تراکیب کا ایک نمونہ لکھ کر کہا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جن کے ذریعے ایک عام فہم بات کو ناقابل فہم بنایا جاتا ہے، اور یہ حقیقت ہے۔ اردو ادیبوں کی اکثریت اس مرض میں مبتلا ہے۔ ان کی تحریر پڑھنے سے پہلے ہمت جمع کرنا پڑتی ہے۔ آپ ایک نظر ادبی کتب کے مقدموں اور تقاریظ پر ڈال کر دیکھیے۔ عام فہم بات کے لیے بھی ایسی ایسی نامانوس تراکیب اور اسلوب ایجاد کرتے ہیں کہ دل عش عش کتنے کی بجائے غش کھانے لگتا ہے۔ان میں ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ثقافتی گالیوں اور طعنوں کو بھی جدید ادبی زبان میں بیان کر کے داد وصول کرتے ہیں۔

 

الفاظ کا اسراف بھی اسراف ہی ہے۔ اپنے اور قاری کے وقت اور مزاج کا خیال کیجیے۔ قدرت نے اگر آپ کے ہاتھ میں قلم تھما ہی دیا ہے تو اس کا حق ادا کیجیے۔ لغت ہائے حجازی کا قارون بننے کی بجائے آسان الفاظ میں ابلاغ کیجیے۔ یہ قول مارشل آرٹس کو سادہ بنانے والی بروس لی کی طرف منسوب ہے کہ سادگی فن کی انتہا ہوتی ہے، اور یہی انتہا ابلاغ کی بنیاد بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *