Laaltain

سائے کی کہانی

22 جنوری، 2016
میں پوری تیاری کے ساتھ اس بار کہانی لکھنے بیٹھا تھا۔اس سے پہلے بھی تین بار وہ سایہ میرا دھیان بٹا چکا تھا،ایسا لگتا تھا جیسے کہ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے، بڑی حیرت کی بات تھی کہ میں نہ تو کھڑکی کے قریب بیٹھا تھا اور نہ ہی اگلی چھت سے کسی کے مجھے دیکھ لینے کا امکان تھا۔یہ کمرا چھوٹا ضرور تھا، مگر اتنا نہیں کہ کوئی آدمی ایسے اوٹ میں ہوکر نہ بیٹھ سکے کہ دیکھنے والوں کی نظر سے بچ جائے۔مگر دیوار پر تین چار بار کسی سایے کی لہریں بنتی دیکھ چکا تھا میں۔حالانکہ یہ لہریں بہت صاف نہیں تھیں، یہ کوئی پرندہ بھی ہوسکتا تھا ،مگر میرا دل مان نہیں رہا تھا۔پہلے تو میں کاہلی کرتا رہا، لیکن پھر میں نے سوچا کہ اٹھ کر دیکھوں۔اپنی کھڑکی پر پڑے ہوئے جھالر والے پردے کو ہلکا سا پکڑ کر میں نے سر اونچا کیا، سامنے کے گھر میں حسب دستور بالکل سناٹا تھا، پچھلے چھ مہینوں سے یہ گھر بند تھا، بس ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اس کے اندرون میں ایک میں ہی جھانک سکتا تھا کیونکہ یہ کھڑکی میری کھڑکی سے ہی تقریباً سٹی ہوئی تھی۔کچھ دیر بعد جب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ میرا قیاس ہی تھا اور کچھ نہیں کہ اچانک میری نظر ایک کالے برقعے پر پڑی جو زن سے رینگتا ہوا ایک جانب سے دوسری جانب نکل گیا، میری آنکھیں یہ دیکھ کر اچانک بڑی ہوگئیں۔

 

میں پوری تیاری کے ساتھ اس بار کہانی لکھنے بیٹھا تھا۔اس سے پہلے بھی تین بار وہ سایہ میرا دھیان بٹا چکا تھا،ایسا لگتا تھا جیسے کہ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے، بڑی حیرت کی بات تھی کہ میں نہ تو کھڑکی کے قریب بیٹھا تھا اور نہ ہی اگلی چھت سے کسی کے مجھے دیکھ لینے کا امکان تھا۔
میں نے جھٹ سے سر نیچے جھکالیا، پھر سوچا کہ آخر ماجرا کیا ہے، یہ کمرہ جو سامنے دکھائی دے رہا ہے ۔بند ہی تو رہتا ہے، بلکہ اس میں تو سیل لگی ہوئی ہے، اس کے مالک پر غبن کا الزام تھا،سنتے ہیں کہ اچانک ایک روز وہ غائب ہوگیا تھا، کچھ عرصے بعد یہاں پولیس آئی ، ان کے ساتھ کسی پرائیوٹ بینک کے ملازمین بھی تھے اور یہ سارے لوگ آپس میں بہت دیر تک اپارٹمنٹ میں نیچے کھسر پسر کرتے رہے تھے۔میری عادت نہیں ہے کہ نیچے جا کر لوگوں کے درمیان کچھ پوچھوں پاچھوں،اس لیے خاموش رہا۔لیکن ایسی باتیں ہوا سب کے کانوں میں انڈیل دیتی ہے۔میں نے بھی اڑوس پڑوس میں سنا کہ میرے سامنے والے چھوٹے سے دو کمروں والے مکان میں جو بونا ، گنجا آدمی رہا کرتا تھا۔وہ واٹر مل میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا، تنخواہ بھی خاصی موٹی تھی۔لیکن وہ اتنی تنگ گلیوں والے اس کال کوٹھری جیسے کمروں میں کیوں اپنی بے نمک زندگی گزار رہا تھا یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔اس میں اور مجھ میں ایک بات یہ مشترک تھی کہ ہم نے اتنے قریب رہ کر بھی کبھی ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں دیکھا، اس کے کمرے کی کھڑکی بہت پہلے ہی سے ٹوٹ گئی تھی، شروع میں اس پر ایک ہرے رنگ کا پردہ لٹکا رہتا تھا، لیکن بعد میں وہ بھی ہٹ گیا۔اس کا اس طرح کوئی غبن کرکے فرار ہوجانا ، سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ کہیں غائب وائب نہیں ہوا ہے، بس اسے کسی نے مار مور دیا ہے اور بے چارے کو پھنسا کر پیسے چمپت کردیے ہیں۔بات کوئی بھی ہو، مگر پولیس کا آنا سچ تھا، گھر پر سیل لگنا سچ تھا، بالکل اسی طرح جس طرح یہ سایہ جو مجھے دکھائی دیا تھا، ایک کالے اور سفید سچ کی طرح میری آنکھوں پر تیرنے لگا۔میں نے سوچا، چھت پر جاؤں اور کسی سے آواز دے کر پوچھوں کہ اس گھر میں کوئی آیا تو نہیں ہے؟ پھر سوچا کہ لوگ کہیں گے کہ اس گھر سے آخر اسے کیا دلچسپی پیدا ہوگئی ہے، بلاسبب کا جھگڑا کون مول لے۔اس لیے خاموشی بہتر تھی۔میں نے سوچا، ہوسکتا ہے کہ کوئی پولیس والا یا جاسوس ہو، جو اس کمرے کی تلاشی ولاشی کی کوشش کررہا ہو۔بہرحال جو بھی تھا، اس کا پتہ لگا پانا میرے بس سے باہر تھا۔میں جلدی سے اٹھا، اپنی کھڑکی کو بند کیا اور نیچے جا کر ایک دکان سے سگریٹ خرید تا ہوابازار چلا گیا۔

 

بازار مجھے اچھا لگتا ہے، یہاں بھیڑ ہے، میرے کمرے کی طرح تنہائی نہیں ہے۔پھر جو مانگو، جو چاہو موجود ہے۔بیچنے والے ،خریدنے والے، مانگنے والے۔الغرض انسان کے جتنے روپ بازار میں ہیں، شاید اور کہیں نہیں۔میں ایک جوتوں کی دکان میں گھس گیا اور اپنے لیے جوتا تلاش کرنے لگا، یہ ایسے ہی بے مصرف بات نہیں تھی، مجھے محسوس ہورہا تھا کہ پچھلے کئی روز سے میرا جوتا مجھے تنگ کیے جارہا ہے، اس کا تلا گھس گیا تھا۔مجھے جوتوں کی قطار میں بالکل کونے میں جاکرایک نفیس قسم کا جوتا نظر آیا، یہ چمڑے کا تو نہیں تھا، مگر تھا بالکل سیاہ۔ایسا کہ بس پہن لو تو فرحت سی محسوس ہو۔خوشی ہو اس بات کی کہ ہم نے کچھ نیا پہن رکھا ہے، اندر بالکل ملائمت سے تھامنے والا ایک دبیز قسم کا کپڑا لگایا گیا تھا۔میں نے اس پر ہاتھ پھیرا،پھر اس میں پیر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا، پیر تو خیر اس میں آگیا مگر مجھے لگا کہ کچھ عرصے بعد یہ جوتا کاٹنے لگے گا، میں نے جاننا چاہا کہ اس میں کی کوئی بڑی سائز دکان میں موجود ہے یا نہیں، لیکن اسی وقت میری نظر جوتے پر دھجی کی طرح لٹکے ہوئے پرائس ٹیگ پر پڑی، وہاں جو قیمت موجود تھی، اتنے پیسے اس وقت میرے پاس نہیں تھے۔اس لیے میں نے سوچا کہ بعد میں پھر اس دکان کی طرف آؤں گا۔ جوتے کی دکان سے نکل کر میں بھیڑ میں سے ہوتا ہوا آئینوں کے ایک ٹھیلے کی طرف جارہا تھا، مگر بھیڑاس قدر تھی کہ رک رک کر چل پارہا تھا، آس پاس ہر طرف زیادہ تر عورتیں ہی عورتیں تھیں، جیسے قیامت کا بازار لگا ہو، ایک عورت بہت موٹی سی مجھے دھکا دیتے ہوئے یوں گزری کہ میں بالکل گرتے گرتے بچا، پھر میں نے سوچا کہ آئینہ اس وقت لینا مناسب نہیں کیونکہ وہاں پہلے سے ایسی ہی بہت سی موٹی عورتوں کا ایک ہجوم ہے۔

 

بازار مجھے اچھا لگتا ہے، یہاں بھیڑ ہے، میرے کمرے کی طرح تنہائی نہیں ہے۔پھر جو مانگو، جو چاہو موجود ہے۔بیچنے والے ،خریدنے والے، مانگنے والے۔الغرض انسان کے جتنے روپ بازار میں ہیں، شاید اور کہیں نہیں۔
چنانچہ میں واپس پلٹ آیا۔واپس آتے وقت میں نے پھر سے اپنی کہانی کے تار جوڑنا شروع کردیے۔میں سڑک کے کنارے کنارے چل رہا تھا، گاڑیوں کا ہلکا پھلکا شور ضرور تھا، مگراس سے کیا فرق پڑتا تھا، میری کہانی ایک ایسے مقام پر اٹکی ہوئی تھی، جہاں سے کوئی صحیح سمت مجھے مل پانے کا امکان نظر نہیں آرہا تھا۔بات یہ تھی کہ ہیرو کو ہیروئن کی ماں نے اپنا زرخرید غلام بنا رکھا تھااور بیٹی چاہتی تھی کہ وہی غلام اپنی مالکن یعنی ہیروئن کی ماں کو اس وقت گلا گھونٹ کر مار ڈالے جب وہ سورہی ہو، کیونکہ اس کے جیتے جی کبھی وہ دونوں مل نہیں سکتے۔لیکن ہیرو جیل جانے سے بہت ڈرتا تھا، اسے ایک بہتر زندگی کی خواہش ضرور تھی،میں اپنے قارئین کو سچائی اور خلوص کی ہار اپناتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا، اب سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ہیرو کی محبت کو میں نے اتنا منفی کردار کیوں دیا تھا،مجھے تو اسے ایثار کی دیوی بنادینا چاہیے تھا، لیکن ایسا کرنے سے کہانی بے جان ہوجاتی۔ بہرحال اسی کشمکش سے الجھتا ہوا نہ جانے کب میں اپنے اپارٹمنٹ کے نزدیک پہنچا۔گھر کے باہر کھڑا ہوکر چابی تلاش کرنے لگا تو وہ ملی نہیں، ٹفن والا، باہر ہی ٹفن رکھ کر چلا گیا تھا۔میں نے سوچا کہ چابی کہیں اسی وقت تو میری جیب سے نہیں گر گئی جب اس موٹی عورت نے مجھے دھکا دیا تھا۔اتنی بھیڑ اور اتنے قدموں کی آواز میں میری چابی کی کیا اوقات، وہ تو اب تک نہ جانے کہاں چلی گئی ہوگی۔میں نے ٹفن کو ہاتھ میں لیا اور نیچے اپارٹمنٹ سے ملحقہ پارک میں جاکر اسے کھانے لگا۔جب کبھی میرا دل اس ڈربے سے گھبراتا تھا، میں یہیں آکر کھانا کھاتا یا سگریٹ پیا کرتا تھا،آج بھی ہوا اچھی چل رہی تھی، رات کو منجمد کردینے والی ٹھنڈی لہروں میں پارک بالکل سنسان پڑا تھا، وہ کتابھی کہیں نظر نہیں آتا تھا، جس کے بھورے بال تھے اور وہ اکثر یہاں بچوں کے ساتھ شام کو کھیلا کرتا، ان کے پیر چاٹتا اور ان کی گیند اٹھا اٹھا کر واپس لایا کرتا تھا، ایک دفعہ اس کو کسی بات پر ایک بڑے سے بچے نے لات مار دی، صبح دم اس کے گھر کے سامنے ہی کتے نے جا کر ڈھیر سارا گو انڈیل دیا۔ مجھے وہ واقعہ یاد کرکے ہنسی آئی کہ اس دن اس بچے کو اس کی پتلی سی ماں نے سنٹیوں سے بہت مارا تھا۔۔۔۔سناٹا ،تاریکی اور کھانا۔۔کھانا بھی سرد ہوچلا تھا، ٹفن بنانے والی آنٹی نے آج سیم آلو بھجوائے تھے اور اس کے ساتھ ایک پراٹھا، دو روٹیاں اور ایک گڑ کا چھوٹا سا پیکٹ بھی تھا۔ٹفن کے اندر ہی پینے کے پانی کے دو پاؤچ رکھے ہوئے تھے، میں نے کھانا کھا کر ایک پاؤچ سے ہاتھ دھوئے اور دوسرے کا پانی پی لیا، ڈبہ بند کیا اور پارک کی ہی ایک بینچ پر لیٹ گیا۔سفید سفید دھواں چاروں طرف ہلکی ہلکی آوازیں بھی نکالتا جارہا تھا، اچانک مجھے دھیان آیا۔۔۔اس کمرے کا، اور میری دیوار پر بننے والے اس سائے کی لہروں کا۔۔اس برقعے کا۔۔۔میں نے سوچا جا کر کیوں نہ سامنے والے اپارٹمنٹ کو دیکھا جائے۔پہلے تو میری اس خیال سے جھرجھری چھوٹ گئی کہ اگر واقعی یہ کوئی بھوت پریت کا معاملہ ہوا تو؟

 

میں سڑک کے کنارے کنارے چل رہا تھا، گاڑیوں کا ہلکا پھلکا شور ضرور تھا، مگراس سے کیا فرق پڑتا تھا، میری کہانی ایک ایسے مقام پر اٹکی ہوئی تھی، جہاں سے کوئی صحیح سمت مجھے مل پانے کا امکان نظر نہیں آرہا تھا۔
پھر بھی میں نے ہمت بٹوری اور پارک سے نکل کر سامنے والی بلڈنگ کے گیٹ پر آکر کھڑا ہوگیا، میں نے یہاں سے اپنی اور اس بلڈنگ کی اس درمیانی پتلی سی گلی پر ایک نظر ڈالی جس میں سے وہ دونوں کھڑکیاں آمنے سامنے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مجھے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔میں اس برقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا، اس رینگتے ہوئے لباس کے بارے میں جواچانک یوں میری آنکھوں کے سامنے سے ہوتا ہوا گزرگیا اور میری آواز جیسے گلے میں دب کر رہ گئی، اگر اس وقت کوئی عورت ہوتی تو واقعی چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی ہوتی۔ڈر تو مجھے بھی لگا تھا، بلکہ ابھی بھی لگ رہا تھا، سچ پوچھیے تو میں اپنی کہانی بھول چکاتھا، اس برقعے کو جب سے میں نے دیکھا تھا، میں اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا تھا، کوئی اور دن ہوتا اور میری چابی یوں گم ہوجاتی تو پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈنے کے لیے بازار کی طرف بھاگتا، مگر آج کی رات گھر میں جانے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی، اس لیے چابی کا نہ ملنا ایسا برا محسوس نہیں ہوا۔پھر بھی میں نے کہا کہ معلوم تو ہونا چاہیے۔

 

رات کا سوا دس بج رہا ہوگا، پچھلی گلی میں سے کتوں کے دمادم بھونکنے کی آوازیں آئی جارہی تھیں۔میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔یہ بلڈنگ عموماً ویران ہی رہا کرتی تھی، گراؤنڈ فلور پر ایک فیملی تھی پہلے، لیکن اسے بھی گھر چھوڑے ہوئے بہت وقت ہوگیا تھا، بس دوسری منزل پر ایک بڑھیا تھی، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بالکل ادھ موئی سی ہے، اس لیے کہیں جا نہیں سکتی، دن میں اس کی بہو یا بیٹے میں سے کوئی ایک آجاتا ہے، دیکھ ریکھ کے لیے ایک لڑکی ہے، جس کی ایک آنکھ پتھرائی ہوئی ہے، وہ دن میں آٹھ گھنٹے رہتی ہے، دواؤں کا خیال کرتی ہے اور پھر شام ہوتے ہی گھر چلی جاتی ہے۔میں پہلے منزلے سے ہوتا ہوا جب دوسرے پر پہنچ رہا تھا تو بار بار میرا دل کہہ رہا تھا کہ مجھے واپس چلے جانا چاہیے، دیواروں پر عجیب سا رنگ و روغن تھا، مگر اس برقعے اور سائے کا خوف ایک عجیب قسم کے تجسس میں بدل گیا تھا، میں نے دل کڑاکرکے سوچا کہ اگر میں آج اس برقعے کا راز نہیں پالیتا تومیرا خود اپنے گھرمیں بلکہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں رہنا دوبھر ہوجائے گا۔ڈر کا احساس کیا ہوتا ہے، اس وقت مجھے یہ پوری طرح سمجھ میں آرہا تھا، میں نے تہیہ کیا کہ بس چوتھے منزلے پر چڑھے بغیر یہ دیکھوں گا کہ اس کمرے کے دروازے پر سیل ابھی بھی لگی ہوئی ہے یا نہیں۔اگر نہیں لگی ہے، تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

 

کوئی اور دن ہوتا اور میری چابی یوں گم ہوجاتی تو پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈنے کے لیے بازار کی طرف بھاگتا ، مگر آج کی رات گھر میں جانے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی، اس لیے چابی کا نہ ملنا ایسا برا محسوس نہیں ہوا
اچانک سے یہ سارا خوف کا جال جو میرے گرد تنتا جارہا ہے، عام سی ایک رات میں ڈھل جائے گا، جس میں رقص بھی کیا جاسکتا ہے، گانا بھی گایا جاسکتا ہے اور کود پھاند بھی مچائی جاسکتی ہے۔مگر ابھی تو خون رگوں میں جمتا ہوا سا محسوس ہورہا تھا۔دوسری منزل سے ہوتے ہوئے جب تیسری منزل پر پہنچا تو میرادل دھک سے بول گیا، پیروں کے پاس سے ایک بہت موٹی گھونس گزری، جس نے میرے قدم لڑکھڑادیے اور میں ایک گھٹی گھٹی سی چیخ کے ساتھ نیچے کو گرپڑا، میرا بدن خوف کے وزن سے پہلے ہی بھاری ہورہا تھا، اور اب جو میں گرا تو سر ،کمر اور پیروں میں ایسی زبردست چوٹ آئی کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے، میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو ایک زبردست ٹیس میرے ٹخنے سے ہوتی ہوئی ران میں بجلی کی تیزی سے دوڑ گئی۔جس جگہ میں گرا ہوا تھا، یہ اسی بڑھیا کا دروازہ تھا، جو ادھ موئی تھی۔میری ہچکیوں کی آواز سے شاید وہ جاگ گئی ہوگی، اندر سے ایسی ’خرخراتی ہوئی ’آوازیں آرہی تھیں، جیسے کوئی معلوم کرنا چاہ رہا ہو کہ باہر کون ہے، ڈر کی گھٹی گھٹی آوازیں۔کہتے ہیں بوڑھے لوگوں کو بدروحوں کی موجودگی کا احساس جوانوں سے زیادہ اور جلدی ہوتا ہے۔حالانکہ عام دنوں میں مجھے اس بات پر بالکل یقین نہ ہوتا، مگر آج میں اور وہ بڑھیا صرف ایک دروازے کی آڑ کے دونوں طرف موجود تھے، میں اسے بھوت سمجھ رہا تھا اور وہ مجھے آسیب سمجھ کر خوف سے گھگھیا رہی تھی۔میں نے ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر چھوٹے سے بلب کی روشنی میں خود کو اٹھانا چاہا تو منہ سے اور عجیب سی آواز نکلی، درد اور خوف کی ملی جلی، بے چارگی کی ایسی آواز، جسے سن کر مجھے ڈر تھا کہ بڑھیا کو دل کا دورہ نہ پڑجائے۔چنانچہ میں نے تھوڑا سا اٹھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور نیچے کی طرف جانے کے لیے لپکا۔

 

اچانک بڑھیا کے گھر کا دروازہ ایک دھاڑ کی آواز کے ساتھ کھل گیا، اس سے پہلے کہ میں ڈر کے مارے زور سے چیختا یا روپڑتا ، ایک سفید بازونے مجھے اندر کی طرف کھینچا، میں نے پھیلی ہوئی نظروں سے بس اتنا دیکھا کہ کمرا بہت سلیقے سے سجایا گیا ہے، چاروں جانب صوفے اور کرسیاں موجود ہیں، میز پر ایک پلیٹ رکھی ہوئی ہے، جس میں کسی طرف کو ایک کھوجڑ سا رکھا ہے، اندھیرے میں مجھے یہ تو صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ مجھے کس نے کھینچا ہے مگر اتنی بات سمجھ میں آگئی کہ اتنا سفید، نرم اور بغیر جھریوں والا ہاتھ اس کا نہیں ہوسکتا۔پھر تھوڑی سی روشنی ہوئی،وہ روشنی پتہ نہیں کس سمت سے آرہی تھی، مگر اس میں مجھے جو چہرہ دکھائی دیا، اسے دیکھتے ہی میرا دردحیرت کی لہر وں میں بدل گیا، خون جمنے لگا، آنکھیں ابلنے لگیں،وہ میری خوبصورت سی ماں تھی۔بہت نرم اور گھنے کالے بال، گورا رنگ، کتھئی آنکھیں اور بڑے سے چہرے پر ایک بھی شکن نہیں۔اس نے مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا اور میری ٹانگ کو میز پر رکھ کر اس پر اپنا دوپٹہ باندھ دیا، وہ ایک ٹک مجھے گھورے جارہی تھی،اور اپنے رویے سے یہ دلاسہ دینے کی کوشش کررہی تھی کہ مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔نظر گھما کر میں نے دیکھا تو بڑھیا زمین میں مری ہوئی پڑی تھی، اس کی لاش پھول چکی تھی، نتھنے اور بڑے ہوگئے تھے، جن میں مکھیاں بھن بھن کرتے ہوئے اندر اور باہر آجارہی تھیں، دیدے ابلے اور زبان ذرا سی باہر نکلی اور اینٹھی ہوئی، اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں بھی اکڑے ہوئے تھے۔

 

میں نے ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر چھوٹے سے بلب کی روشنی میں خود کو اٹھانا چاہا تو منہ سے اور عجیب سی آواز نکلی، درد اور خوف کی ملی جلی، بے چارگی کی ایسی آواز، جسے سن کر مجھے ڈر تھا کہ بڑھیا کو دل کا دورہ نہ پڑجائے۔چنانچہ میں نے تھوڑا سا اٹھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور نیچے کی طرف جانے کے لیے لپکا۔
پھر دوسرے کمرے سے کسی کے جوتے گھسنے کی سی آواز آئی۔اس کمرے سے ایک اور خوبصورت سی عورت باہر نکلی، اس کے ہاتھ میں کوئی مشروب تھا۔وہ مری ہوئی بڑھیا پر سے پھلانگتی ہوئی میری طرف آئی اور سامنے والی کرسی کو کھینچ کر بیٹھ گئی۔میں نے بہت ڈرے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا۔

 

‘تم کون ۔۔۔۔؟’

 

‘میں یہ ہوں۔۔۔’عورت نے لاش کو ایک ٹھوکر مار کر کہا۔اس نے ایک ریشمی کرتا پہن رکھا تھا، جس میں سے اس کے بدن کا ایک ایک خوبصورت انگ یوں نمایاں ہورہا تھا جیسے کہ بلڈنگوں میں بنی محرابی جالیوں سے سورج کی کرنیں پھوٹتی ہوئی باہر نکلتی ہیں۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔اس نے کہا۔

 

‘یقین مانو۔۔۔۔اس بوڑھی عورت کو مرنے میں سترہ سال لگ گئے۔۔۔اتنے لمبے عرصے کی موت سنی ہے کبھی؟ میں نے سنا تھا جن لوگوں کو پانی میں ڈبو کر، سولی پر لٹکا کر یا پھر آگ میں جلا کر مارا جاتا ہے ،وہ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹوں میں مر جاتے ہیں۔ہاں چلو مان لیتے ہیں کہ سولی پر لٹکنے سے اتنی جلدی موت شاید نہ ہوتی ہو، مگر آدمی تو ڈر سے ہی مرجاتا ہوگا کہ اسے پھانسی ہونے والی ہے، یا میخیں ٹھکنے والی ہیں۔مگر اس کمبخت بوڑھی عورت نے سترہ سال سے اپنی بیماری کو ذہن کے ایک کنڈے سے ٹانگ رکھا تھا۔نہ مرے نہ مجھے باہر آنے دے۔۔۔یہ ذرا دیکھو! بالکل موت کے بعد کی زندگی! یہاں کتنی تنہائی اور کتنا سکون ہے۔۔۔کتنی شاندار بعد ازموت زندگی ہے یہ۔۔۔جیسے پیانو پر پڑنے والی انگلیوں سے پیدا ہونے والی ترنگ ہو۔۔۔جیسے ٹھہرے ہوئے پانیوں پر جھلمل کرتی ہوئی سورج کی کرنیں ہوں۔۔۔کیا خوبصورت سناٹا ہے، سکون ہے،وہی سکون جو زندگی بھر نہیں ملتا، جو ہمیشہ عارضی لگتا ہے۔۔وہ کہتے کہتے دروازے کے پاس گئی، اس نے جھک کر وہاں پڑے ہوئے میرے ایک خون کے قطرے کو انگلی پر اٹھایا اور ایک ٹک اسے گھورنے لگی۔۔۔’

 

’میری ماں بولتی کیوں نہیں۔۔۔؟’ میں نے اس سے پوچھا۔’یہ یہاں کیا کررہی ہے؟’

 

‘تمہاری ماں ایک ذمہ دار عورت ہے۔۔۔اس سے تمہارا خوف نہیں دیکھا جاتا۔۔عام طور پر ہم مرنے کے بعد انسان کے اس خوف کا دلچسپی سے نظارہ کرتے ہیں، جس کا ہم کبھی خود شکار رہ چکے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے مچھلیاں مرنے کے بعد دوسری مچھلیوں کو تڑپتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتی ہیں، سورج ڈوبنے کے بعد چاند کو ڈوبتا ہوا دیکھ کر مسکراتا ہے۔۔اب جہاں تک سوال ہے کہ تمہاری ماں بولتی کیوں نہیں تو وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ پڑھ رہی ہے۔۔۔’

 

نظر گھما کر میں نے دیکھا تو بڑھیا زمین میں مری ہوئی پڑی تھی، اس کی لاش پھول چکی تھی، نتھنے اور بڑے ہوگئے تھے، جن میں مکھیاں بھن بھن کرتے ہوئے اندر اور باہر آجارہی تھیں، دیدے ابلے اور زبان ذرا سی باہر نکلی اور اینٹھی ہوئی، اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں بھی اکڑے ہوئے تھے۔
میں نے دیکھاتو معلوم ہوا کہ واقعی میری ماں کے ہونٹ ہل رہے تھے، اس کی آنکھوں میں کچھ آنسو بھی تھے۔مجھے یاد آیا کہ اپنی زندگی میں بھی اسے یہ عادت ہوگئی تھی کہ جب کوئی دوسرا بات کرتا تو وہ اپنے ہونٹ بات کرنے والے کے ساتھ ہلایا کرتی، جیسے اس کی بات کو اچک لینا چاہتی ہو۔۔۔لیکن آج وہ شاید کچھ پڑھ رہی تھی۔۔۔’

 

اس دوسری عورت نے یا اس دوشیزہ نے میرے بالکل نزدیک آکر میری ماں کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔’تم نے اسے کبھی وہ پن (Pen)فیکٹری والا واقعہ سنایا ہے؟’
‘نہیں!!’میں نے جواب دیا۔
‘تو سن لو! تمہیں بہت دلچسپ معلوم ہوگا، سنا ہے تم کہانیاں بھی لکھتے ہو۔۔۔تو ہوا یوں کہ تمہاری ماں ایک روز اپنی فیکٹری سے نکل کر بیچ بازار میں آئی۔اس روز بہت برسات ہورہی تھی اور تمہاری ماں کو اپنے بچوں کی چنتا کھائے جارہی تھی، اسے جلدی گھر پہنچنا تھا۔برسات نے سڑکوں کو جل تھل کردیا تھا، اس کے سوتی پائنچے بالکل تر ہوگئے تھے، ہاتھ میں چھتری ہونے کے باوجود وہ بالکل بھیگ چکی تھی، وہ جس صلیب کے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی، وہاں ایک چوراہا تھا، چوراہے کے چاروں طرف صرف پانی کی سفید چادر تھی اور گزرتی ہوئی گاڑیاں۔ایسے میں اسے دور سے آتا ہوا ایک آٹو دکھائی دیا۔اس نے اسے روکا، اور آٹو میں بیٹھ گئی، برابر میں ایک مچھلی بیچنے والی کولن اور اس کی جوان بیٹی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔مری ہوئی مچھلیوں کی بو سے آٹو تر ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ بو جو اس زندہ عورت اور لڑکی کے پھیپھڑوں، مسانوں اور شانوں تک پر پھیل چکی تھی۔۔۔گلابی رنگ کا فراک پہنی ہوئی وہ لڑکی اور اس کا بھا ری کولہا، اس کولہے کی گرمی، یہ سب تمہاری ماں کے آس پاس بڑھتے ہوئے چلے جارہے تھے، کافی دیر ہوگئی اور آٹو چلتا رہا، نہ آٹو والے نے اسے روکا نہ کولنیں اس میں سے اتریں، اچانک تمہاری ماں نے پوچھا کہ بھائی کس طرف کو جارہے ہو؟ آٹو رکشہ ڈرائیور نے جواب دیا۔۔ران گاؤں۔۔۔!تمہاری ماں ہکا بکا رہ گئی اس نے کہا کہ یہ تم کدھر لیے جارہے ہو ،مجھے تو کولی واڑہ جانا تھا، بچے بھوک سے تڑپ رہے ہوں گے، اب یہاں سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جائے گا اور آس پاس کوئی رکشہ بھی نہیں ہے۔۔تم نے یہ کیسی مشکل میں مجھے ڈال دیا، تمہاری ماں اسی شش و پنج میں تھی کہ آٹو ڈرائیور نے کہا، گھبراؤ نہیں۔میں تمہیں دوسرا رکشہ کرائے دیتا ہوں۔وہ دیکھو پیچھے ایک رکشہ آرہا ہے۔تم اس میں بیٹھ جاؤ۔۔۔۔میں اس سے کہہ دیتا ہوں، وہ تمہیں کولی واڑہ تک پہنچا دے گا۔۔۔۔تمہاری ماں نیچے اتری اور اس نے اپنا چھاتا کھولا۔۔۔اور جانتے ہو چھاتا کھولتے ہی اس نے کیا دیکھا؟’

 

چلو مان لیتے ہیں کہ سولی پر لٹکنے سے اتنی جلدی موت شاید نہ ہوتی ہو، مگر آدمی تو ڈر سے ہی مرجاتا ہوگا کہ اسے پھانسی ہونے والی ہے، یا میخیں ٹھکنے والی ہیں۔مگر اس کمبخت بوڑھی عورت نے سترہ سال سے اپنی بیماری کو ذہن کے ایک کنڈے سے ٹانگ رکھا تھا۔نہ مرے نہ مجھے باہر آنے دے۔
‘کیا؟’

 

‘وہ تو اسی صلیب کے پاس کھڑی تھی، جہاں سے اس نے پچھلا آٹو کیا تھا۔۔۔’

 

یہ کہہ کر اس دوشیزہ نے زورسے قہقہہ لگایا، میرا دل دھک سے رہ گیا، میں نے اپنی ماں کی طرف دیکھا، وہ کہیں نہیں تھی۔۔۔ پیر کا زخم بھی غائب تھا اور درد بھی۔میں اٹھا اور دیوار سے لگتے ہوئے کمرے سے باہر کی طرف لپکا۔اب مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ معلوم کرپاتا کہ وہ برقعہ کس کا تھا؟ وہ سایہ کس کا تھا۔۔۔دھڑ دھڑ دھڑ کرتا ہوا ، کودتا پھاندتا، ہانپتا ہوا جب میں اس اپارٹمنٹ سے باہر نکلا تو رات کا ایک بج رہا تھا۔۔۔۔کتنے بھونک رہے تھے۔۔۔۔میں بھاگتا ہوا اپنے گھر آیا، دیکھا تو دروازہ کھلا تھا، جھٹ سے اندر جا کر میں نے کنڈی چڑھائی، اور لحاف میں دبک کر نیم بے ہوشی کی حالت میں عجیب سی لہروں اورسایوں کو اپنے آگے رقص کرتا ہوا دیکھنے لگا۔۔۔۔اگلے دن نہ جانے کس وقت میری آنکھ کھلی، کوئی بری طرح دروازہ پیٹ رہا تھا۔۔۔میں نے جا کر دروازہ کھولا۔۔۔

 

سامنے ٹفن لیے لڑکا کہہ رہا تھا۔۔۔

 

‘یہ چابی آپ کی تو نہیں۔۔۔مجھے یہیں سیڑھیوں پر پڑی ملی۔۔۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *