بری عادتوں کی طرح میں پھسل رہا تھا، چپل ٹوٹی ہوئی تھی، مگر اسے اتارنے میں ایک بڑی پریشانی یہ تھی کہ لوگ دیکھیں گے، اس تیز رنگ کی ٹیوب لائٹ کی روشنی بھی میری جانب آتے آتے ہلکی ہوگئی تھی، خاکی رنگ کا ایک نیکر، اور سفید رنگ کی ایک شرٹ پہنے ہوئے میں بس کسی گاڑی بان کے انتظار میں تھا۔ سردی بہت زیادہ نہیں تھی، ہلکا ہلکا کہرا تھا، جیسے موسم کے چھٹانک بھر پھیپھڑوں میں سے دھواں گھبرا کر ابل پڑا ہو، اور اس نے گلی کو کہر آلود کردیا ہو۔ میرے جبڑے دکھ رہے تھے، رائی کا ایک دانہ دانتوں میں کہیں پھنسا ہوا تھا، جس کی وجہ سے زبان کی نوک ادھر ادھر حیران و پریشان پھر رہی تھی۔ میرا نیکر جھول رہا تھا، پتلی پتلی ٹانگوں کو چھوتی ہوئی ہوا، پنڈلیوں کے رونگٹوں میں ایک جنسی ترنگ پیدا کررہی تھی۔ میں شعیب کے یہاں سے کھیر کھاکر آرہا تھا، میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ ٹھنڈا کھانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے بعد ڈھائی گھنٹے تک بھوک نہیں لگتی، مگر نقصان یہ ہے کہ آدمی رستہ بھول جاتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ سوال کئی لوگوں سے کیا، مگر ان میں سے کوئی بھی یاد کرکے نہ بتاسکا کہ میٹھا کھانے کے بعد وہ کبھی رستہ بھولا ہوگا۔ شعیب میرا مذاق اڑاتا تھا، اس کا فالج زدہ ہونٹ اس وقت کیسا پھول جاتا، جب وہ سانسیں دھنک دھنک کر ہنستا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں ایسی کتابیں کیوں پڑھتا ہوں، جن میں بلا کا جھوٹ لکھا جاتا ہے، میرا ترک یہ تھا کہ بھائی کیوں نہ پڑھوں! یہ کتابیں، شاید لوگ زیادہ پڑھتے تھے، ان موٹی موٹی ادبی و علمی کتابوں سے کہیں زیادہ جن کے وزن تلے شعیب جیسے لوگ دبے رہتے ہیں، پھر یہ کتابیں جو میں پڑھتا ہوں، ہلکی پھلکی ہوتی ہیں، لوگ ٹرینوں، بسوں، گاڑیوں میں ان پر طائرانہ نظریں ڈالتے ہیں اور دلچسپ قصے پڑھتے ہیں۔
“تو وہ دلچسپ قصے یاد رکھنے کے لیے تھوڑی ہوتے ہیں، بس وقتی طور پر مزہ لینے کے لیے ہوتے ہیں۔”
“میں سمجھتا ہوں کہ مزہ صرف عورت سے لیا جاسکتا ہے”، میں ایک اور ترک دیتا
“ابے مزہ عورت سے لیا ہی نہیں جاتا، عورت اور مرد مزے کا سودا کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مزہ دیتے ہیں، جس طرح ادب مزہ دیتا ہے، ادب کے ساتھ بھی وہی سودا کرنا پڑتا ہے، جو عورت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔”
“تبھی یہ کتابیں جانگوں پر رکھ پڑھتا ہے تو؟”
“جانگ، کتنا بھرپور، گھنا اور اندرونی لفظ ہے، لب لب کرتی ہوئی انسانی گوشت سے بھری ہوئی ران کی پوری شکل مجھے جس قدر اس لفظ میں دکھائی دیتی ہے، کسی اور میں نہیں۔” شعیب مزہ لینے لگتا۔
“ابے تو شبدوں کو مت دیکھ، ان کی ویاکھیا مت کر، میرا مطلب سمجھتا ہے نا تو؟ تو باتوں کو گھماتا کیوں ہے؟”
“میں سمجھتا ہوں کہ مزہ صرف عورت سے لیا جاسکتا ہے”، میں ایک اور ترک دیتا
“ابے مزہ عورت سے لیا ہی نہیں جاتا، عورت اور مرد مزے کا سودا کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مزہ دیتے ہیں، جس طرح ادب مزہ دیتا ہے، ادب کے ساتھ بھی وہی سودا کرنا پڑتا ہے، جو عورت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔”
“تبھی یہ کتابیں جانگوں پر رکھ پڑھتا ہے تو؟”
“جانگ، کتنا بھرپور، گھنا اور اندرونی لفظ ہے، لب لب کرتی ہوئی انسانی گوشت سے بھری ہوئی ران کی پوری شکل مجھے جس قدر اس لفظ میں دکھائی دیتی ہے، کسی اور میں نہیں۔” شعیب مزہ لینے لگتا۔
“ابے تو شبدوں کو مت دیکھ، ان کی ویاکھیا مت کر، میرا مطلب سمجھتا ہے نا تو؟ تو باتوں کو گھماتا کیوں ہے؟”
“ابے مزہ عورت سے لیا ہی نہیں جاتا، عورت اور مرد مزے کا سودا کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مزہ دیتے ہیں، جس طرح ادب مزہ دیتا ہے، ادب کے ساتھ بھی وہی سودا کرنا پڑتا ہے، جو عورت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔”
مگر وہ میری نہیں سنتا، پیلے پتوں کی طرح اپنی ہواوں میں بہتا چلا جاتا اور میں دھیرے دھیرے پھر اپنی جانگ اور ٹانگ کی طرف لوٹ آتا، فالج زدہ ہونے کے باوجود اس کے اندر کی گرمی مری نہیں تھی، وہ آدھے بدن سے پوری عورت کی سیر کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھا۔ گول گول عورت، اپنے اندر اتارلینے والی، سچی اور جیتی جاگتی عورت، بالکل اس کتھئی دھبے کی طرح جو اس وقت حرکت کررہا تھا۔ وہ ایک بیٹری سے چلنے والا رکشہ تھا، تین چرمراتے ہوئے پہیے، پھٹی ہوئی گدیاں اور ان میں گھٹنے اکڑائے بیٹھے لمبے لمبے لوگ، اگر اس وقت ساڑھے بارہ نہ بج رہے ہوتے تو میں ابھی کچھ دیر اور رک کر گاڑی بان کا انتظار کرتا، مگر میں بیٹھ گیا۔ اس وقت اس گاڑی میں ایک پتلا دبلا لڑکا بیٹھا ہوا تھا، اسکول بوائے، پتلی پتلی مونچھوں والا، سفید، روئیں دار لڑکا، یہ سالا میر کے تراشے ہوئے سادہ رو کی طرح نہیں ہے، جیسا کہ اپنا شعیب بتاتا ہے۔
شہر کے شوخ سادہ رو لڑکے
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر
ظلم کرتے ہیں کیا جوانوں پر
لیکن مجھے اس کی طرف دیکھتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں انیسویں صدی کے وسط کا کوئی لونڈے باز شاعر تو نہیں تھا، جو بازار میں کسی جوان لڑکے پر لٹو ہوا جارہا ہے، بھکتی کی آڑ میں اسے کبھی آرتی، کبھی خدا کا استعارہ بنا رہا ہے، کبھی اس کے جلتے ہوئے گالوں کو انار سے نسبت دے رہا ہے، کبھی آنکھوں کو نرگس بیمار سے، نرگس بیمار! واہ کس قدر اچھی ترکیب تھی، پرانے لوگوں کی آنکھیں بڑی ہوتی تھیں، انہیں سب دکھائی دیتا تھا۔ چھ پتیوں والے اس پودے کا منہ لٹکا رہتا تھا، چھوٹی چھوٹی لمبوتری گھانس نما پتیوں کے بیچ میں سے اگنے والا وہ پھول، آہا، کیا خوبصورتی تھی، اس اور سے دیکھو تو آنکھ کی طرح، اس چھور سے دیکھو تو پیالے کی صورت۔ آنکھ اور پیالہ ہی کیوں، کیا آنکھ اور پیالے میں کوئی نسبت ہے۔ دھم سے میرے کولہے دھڑک اٹھے، رکشے کا اگلا پہیہ اچانک ایک گڑھے میں آگیا تھا۔ گڑھا، آنکھ اور پیالہ! میں سوچنے لگا مگر مجھے ان تینوں میں کوئی مناسبت سجھائی نہیں دی!
معاف کرنا بابو! اندھیرا بہت ہے، سجھائی نہیں دیا؟
معاف کرنا بابو! اندھیرا بہت ہے، سجھائی نہیں دیا؟
اس کے بعد میں رکشے والے سے بات کرنے لگا، وہ کلکتے سے آیا تھا، پچھلے تین برسوں سے سائیکل رکشہ کھینچ رہا تھا، اب اس کے ہاتھ یہ بیٹری والا رکشہ لگ گیا تھا، تو اسے چلانے لگا۔ اس کا نام گدھر تھا،میں نے پوچھا کہ یہ کیسا نام ہے؟ و ہ ہنس دیا، پھر مجھے خیال آیا کہ یہ سوال میں نے اس سے پوچھا کہاں تھا، میں نے تو بس اسے سوچا تھا، پھر وہ رکشے والا کیوں ہنسا۔ شاید اس نے بھی میرے بارے میں کچھ ایسا ہی سوچا تھا، آخر ہم ہی ہمیشہ رکشے والوں کے نام کیوں پوچھتے ہیں، وہ تو کبھی ہم سے ہمارا نام نہیں پوچھتے، نہ ہماری بیویوں کے گورے چٹے رنگوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، نہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا بیس سال سے آپ دہلی شہر میں جھک ماررہے ہیں اور ابھی تک بستر کے دائیں جانب سوتے ہیں؟ تو کیا ہمارے سوالوں میں رحم ہوتا ہے۔ تو کیا رحم بری چیز ہے، رحم تو خدا کی ذات میں ہوتا ہے یا ماں کے بدن میں۔ اس لیے ہم ان دونوں ذاتوں کے بارے میں کبھی برا نہیں سوچتے، ان کو غلط نہیں مانتے، ان کو مقدس سمجھتے ہیں، خدا میں رحم ہے، اس کارن وہ جھوٹ نہیں بول سکتا، ماں میں رحم ہے، اس لیے اس کے ساتھ کوئی ہم بستری نہیں کرسکتا۔
خدا میں رحم ہے، اس کارن وہ جھوٹ نہیں بول سکتا، ماں میں رحم ہے، اس لیے اس کے ساتھ کوئی ہم بستری نہیں کرسکتا۔
“کباب کھائیں گے؟”
لڑکے نے مجھے کباب کا ایک پیس اٹھا کر دیتے ہوئے پوچھا۔ میں نے جھٹ منع کردیا، رات کے ساڑھے بارہ بجے یہ لڑکا کہاں سے کباب لایا تھا، اور کباب کھاتے ہوئے کہاں جارہا تھا، ابھی سلب مارگ دس منٹ کی دوری پر تھا، اور وہاں سے بھی اندر گلیوں میں جہاں مکان تھے، جانے کے لیے پیدل ہی چلنا پڑتا تھا، پھر راستے میں بیٹھے ہوئے ، سڑاند مارتے، چیختے ہوئے کتے، حفاظت کا سارا ذمہ اٹھائے ہوئے، ایمانداری سے بھونکتے، ایک دوسرے کو خالی اندھی سڑک پر بھنبھوڑتے پھرتے اور شہری جنگل(رات) پر اپنی حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہوئے۔ وہ کیسے جائے گا، ان گلیوں کی طرف، کیا اسے خوف نہیں آئے گا، ان جنگل کے باسیوں سے۔۔۔۔۔ بہرحال جو بھی ہو، اس نے مجھ سے کباب کھانے کے لیے کیوں کہا۔ وہ بھی اتنی دیر بعد، کیا اس نے میری شکل کا جائزہ لیا تھا، کیا میں بھوکا لگ رہا تھا، میں تو شعیب کے یہاں سے کھیر کھاکر آیا تھا، اور میٹھا کھانے کے بعد کافی دیر تک بھوک نہیں لگا کرتی، تو اس لڑکے نے کیسے اندازہ لگایا کہ مجھے کباب چاہیے ہیں، میں نے تو اس کے ہاتھ میں تھمے اخبار کے ٹکڑے پر دھیان بھی نہیں دیا تھا۔ میں نے ہونٹوں پر زبان پھیری، پھر سوچا کہ یہی تو ندیدے پن کی علامت سمجھی جاتی ہے، پھر میں نے رکشہ والے سے بڑبڑانا شروع کردیا۔
لڑکے نے مجھے کباب کا ایک پیس اٹھا کر دیتے ہوئے پوچھا۔ میں نے جھٹ منع کردیا، رات کے ساڑھے بارہ بجے یہ لڑکا کہاں سے کباب لایا تھا، اور کباب کھاتے ہوئے کہاں جارہا تھا، ابھی سلب مارگ دس منٹ کی دوری پر تھا، اور وہاں سے بھی اندر گلیوں میں جہاں مکان تھے، جانے کے لیے پیدل ہی چلنا پڑتا تھا، پھر راستے میں بیٹھے ہوئے ، سڑاند مارتے، چیختے ہوئے کتے، حفاظت کا سارا ذمہ اٹھائے ہوئے، ایمانداری سے بھونکتے، ایک دوسرے کو خالی اندھی سڑک پر بھنبھوڑتے پھرتے اور شہری جنگل(رات) پر اپنی حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہوئے۔ وہ کیسے جائے گا، ان گلیوں کی طرف، کیا اسے خوف نہیں آئے گا، ان جنگل کے باسیوں سے۔۔۔۔۔ بہرحال جو بھی ہو، اس نے مجھ سے کباب کھانے کے لیے کیوں کہا۔ وہ بھی اتنی دیر بعد، کیا اس نے میری شکل کا جائزہ لیا تھا، کیا میں بھوکا لگ رہا تھا، میں تو شعیب کے یہاں سے کھیر کھاکر آیا تھا، اور میٹھا کھانے کے بعد کافی دیر تک بھوک نہیں لگا کرتی، تو اس لڑکے نے کیسے اندازہ لگایا کہ مجھے کباب چاہیے ہیں، میں نے تو اس کے ہاتھ میں تھمے اخبار کے ٹکڑے پر دھیان بھی نہیں دیا تھا۔ میں نے ہونٹوں پر زبان پھیری، پھر سوچا کہ یہی تو ندیدے پن کی علامت سمجھی جاتی ہے، پھر میں نے رکشہ والے سے بڑبڑانا شروع کردیا۔
“ارے یاربھیا! سلب نگر سے ذرا اندر لے لینا، گلی نمبر تیرہ میں۔ دس روپے زیادہ دے دوں گا۔”
“دس روپے کی بات نہیں بابو! وہاں سے واپسی میں مجھے دیر ہوجائے گی، ادھر تو میں دن میں نہیں جاتا، آپ اسٹینڈ پر اتر جانا۔”
ارے کوئی بات نہیں، میں نے کنکھیوں سے لڑکے کی طرف دیکھا، وہ کباب کھارہا تھا، کچ کچ کرکے، زن زن بولتی ہوئی شیت لہروں کے درمیان اس کا چہرہ مسرت آمیز اور بے نیاز تھا۔
“اچھا بیس لے لینا، چلو تیس، ارے یارپچاس سہی ، مگر مجھے گلی میں جلدی پہنچنا ہے۔”
“دس روپے کی بات نہیں بابو! وہاں سے واپسی میں مجھے دیر ہوجائے گی، ادھر تو میں دن میں نہیں جاتا، آپ اسٹینڈ پر اتر جانا۔”
ارے کوئی بات نہیں، میں نے کنکھیوں سے لڑکے کی طرف دیکھا، وہ کباب کھارہا تھا، کچ کچ کرکے، زن زن بولتی ہوئی شیت لہروں کے درمیان اس کا چہرہ مسرت آمیز اور بے نیاز تھا۔
“اچھا بیس لے لینا، چلو تیس، ارے یارپچاس سہی ، مگر مجھے گلی میں جلدی پہنچنا ہے۔”
رکشہ تیز سڑک پر دوڑے جارہا تھا، اب مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں کچھ چھچھورا محسوس ہورہا ہوں، ایسے خالی بیٹھے بیٹھے کیسے اس کباب کھاتے ہوئے لڑکے کو نظر انداز کردوں۔ جبکہ وہ مجھے کباب کھانے کی دعوت دے چکا تھا، اور میں ابھی تک نہیں سمجھ پایا تھا کہ اس نے اتنی جرات سے کیسے مجھے، ایک نوکری یافتہ آدمی کو، جس نے ایک سفید رنگ کی شرٹ اور خاکی رنگ کا نیکر پہن رکھا ہے، کچھ کھانے کے لیے آفر کردیا۔ کیا میں کچھ کھا سکتا تھا، کیا میں شکل سے مربھکا لگتا ہوں، کیا میں مربھکا ہوں، سرد ہوائوں کی تاریکی میں اجلی اجلی دھند نمودار ہونے لگی، کچھ اوبڑ کھابڑ اور بھاوں بھاوں کرتے ہوئے رستے نمایاں ہونے لگے۔ میں اڑتے ہوئے، سوکھے، سرخ رنگ کے ، بھنے اور بھربھرے، خستہ کبابوں کی دسترس سے بھاگنے لگا۔ دور، دور اور بہت دور۔۔۔۔اتنا کہ مجھے لگا، میں سردی کی اس رات سے نکل کر، اس جنگلی، سنسان اور کہرآلود شب سے فرار ہوکر ، کبابوں کی نگری میں آگیا ہوں، جہاں کے رہنے والے، جہاں کے چلنے والے، ہنسنے، گانے، رونے اور قہقہہ لگانے والے کبابوں کے بنے ہوئے ہیں، ان کی سانسوں سے تیز دہکتی ہوئی جانوروں کے کھالوں کی ہیک اٹھ رہی ہے، اور کوڑا گھر کے بجائے، اس شہر میں ابکائیوں کے دفتر لگے ہوئے، جنہیں روز صبح آکر ایک ابکائی گاڑی اٹھالے جاتی ہے، میں بس کھوتا ہوا، گم ہوتا ہوا، ادھر کو بھٹک کر نکل آیا تھا، یہ سب کباب کا قصور تھا، جو ابھی بھی میرے گلے میں کسی ناسور کی طرح کھرکتا محسوس ہورہا تھا۔