Laaltain

زوالِ حلقۂ یاراں …علمی اور ادبی بیٹھکوں کی دم توڑتی روایت

3 جولائی, 2011
Picture of صلاح‌الدین صفدر

صلاح‌الدین صفدر

مشہور کہاوت ہے کہ انسا ن ایک سماجی حیوان ہے۔اس کہاوت کو یہاں نقل کرنے سے مقصود انسان کی حیوانیت پر بات کرنا نہیں بلکہ اس کی معاشرتی زندگی کا تذکرہ کرنا ہے۔فردکے لیے چونکہ معاشرے سے علیحدہ رہ کر زندگی گزارنا مشکل ہے لہٰذا وہ کسی نہ کسی طرح اپنے ہم جنسوں سے میل ملاقات کے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں ا نسانوں کے باہمی تعلق اور میل ملاپ سے ہر فرد اپنی رائے تشکیل دیتا ہے۔ اور پھرافراد کی ان آراء کا معاشرے کی دیگر اکائیوں کے سامنے اظہار معاشرتی زندگی کی سمت اور لائحہ عمل طے کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔اظہارِ خیالات کے اس عمل کے لیے لازماًافراد کوکچھ ’سماجی جگہوں ‘کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ہاں دیہاتوں میں چوپال اور ڈیروں کی روایت اسی ضرورت کی تکمیل کا ایک مظہر ہے۔ قصبوں اور شہروں تک آتے آتے یہ جگہیں تھڑوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔ایسے مقامات کو گلی محلّوں کی سطح سے اٹھا کر بڑی کمیونٹی تک لیجایا جائے اور ذرا کاروباری شکل دی جائے تو چائے خانے اور کافی ہاؤس بن جاتے ہیں ۔ یوں بھی چائے کی پیالی اور کافی کا کپ تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔سو اکثر ایسی جگہوں پر ادیب اور دانشورڈیرے ڈالے رکھتے ہیں ۔
تقسیمِ ہند سے پہلے لاہور میں مال روڈ پر’ انڈیا کافی ہاؤس‘ اور’ انڈیا ٹی ہاؤس ‘خاصے مشہور ہوا کرتے تھے، ابتداً یہاں شہر لاہور کے ادیب حضرات کی محفلیں سجتی تھیں ۔رفتہ رفتہ یہ جگہیں ملک کے کونے کونے سے شعرائ، دانشور اور خصوصاً ترقی پسند افرادکی دلچسپی کے مراکز بن گئیں ۔ معروف دانشورکے کے عزیز اپنی کتابThe Coffee House of Lahore: Memoir 1942-57میں لکھتے ہیں کہ لاہور کی دانشورانہ، ثقافتی اور ادبی تواریخ ان جگہوں کے ذکر کے بغیر بے معنی ہیں ۔لاہورمیں کافی اور چائے کے یہ مراکز خطے کے ترقّی پسندوں کی نرسری سمجھے جاتے تھے۔ اس بارے میں کے کے عزیز کا کہنا ہے کہ برطانوی چائے کے شوقین تھے تو ان سے مختلف رہنے کے لیے سامراج مخالف ترقّی پسندوں نے کافی کا انتخاب کیا۔
پاک ٹی ہاؤس میں ادبی وسیاسی مجلسوں اور مباحثوں کی پہلے والی روایت برقرار رہی۔فیض احمد فیض، احمد فراز، سعادت حسن منٹو، میرا جی، ناصر کاظمی اور انتظار حسین جیسے نابغۂ روزگارافراد یہاں کی بیٹھکوں میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے۔ان محفلوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں دائیں اوربائیں بازو دونوں قسم کے نظریات سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوا کرتے تھے۔ اس طرح کی نظریاتی رواداری کی مثال پاک ٹی ہاؤس کے باہر کہیں اور ملنا مشکل تھی۔
تقسیم سے پہلے یہاں آنے والوں میں سجاد ظہیر، چراغ حسن حسرت،عاشق حسین بٹالوی،سید سبط حسن، عبداللہ ملک اور صفدر میر جیسے احباب شامل تھے۔ 1947 کے بعد کافی ہاؤس تو بند ہوگیا البتہ انڈیا ٹی ہاؤس سلامت رہا۔ مگر اس کے سکھ مالک کی انڈیا منتقلی کے بعد نئے مالک سراج الدین نے اس کا نام تبدیل کر کے پاک ٹی ہاؤس کردیا۔پاک ٹی ہاؤس میں بھی ادبی وسیاسی مجلسوں اور مباحثوں کی پہلے والی روایت برقرار رہی۔فیض احمد فیض، احمد فراز، سعادت حسن منٹو، میرا جی، ناصر کاظمی اور انتظار حسین جیسے نابغۂ روزگارافراد یہاں کی بیٹھکوں میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے۔ان محفلوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں دائیں اوربائیں بازو دونوں قسم کے نظریات سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوا کرتے تھے۔ اس طرح کی نظریاتی رواداری کی مثال پاک ٹی ہاؤس کے باہر کہیں اور ملنا مشکل تھی۔
کافی ہاؤس تو قیام پاکستان کے ابتدائی عرصے میں ہی بند ہو گیاتھا اور اب وہاں ایک حکومتی بنک کی بلندو بالا عمارت ایستادہ ہے جبکہ پاک ٹی ہاؤس بھی چند سال پہلے مالی مشکلات کی وجہ سے بند کردیا گیا اور اب اس کے داخلی دروازے پر ایک ٹائروں والا اپنی دکان سجائے بیٹھاہے۔ البتہ ٹی ہاؤس کا تعارفی بورڈ اب بھی اہل ِذوق کو یہاں کی چائے اور محافل کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ Pak Tea Houseکے نام سے انٹرنیٹ پربنایا جانے والا بلاگ اسی کلچر کو سائبر دنیا پر زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
لوگوں کے میل ملاپ اور نظریات وخیالات کے تبادلے کی یہ روایت ہماری تاریخ میں بہت واضح طور پر موجود رہی ہے۔۔اندرون لاہور کے تھڑوں پر معروف پنجابی شاعر استاد دامن کے شعروں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ادبی حلقوں میں تویہ روایت اب بھی چوپال اور الحمرا ادبی بیٹھک جیسی انجمنوں کی شکل میں زندہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب اور فنون پر جمودیت کی تہہ نہیں چڑھی۔مگر معاشرے کے باقی حصوں میں سماجی میل جول کی جگہیں معیارِ زندگی بلندہونے کی رفتار کو نہ پکڑ سکیں ۔ سو معاشرہ آگے نکل گیا اور ایسے مقامات پیچھے رہتے گئے کہ جہاں ہونے والی سرگرمیاں لوگوں میں برداشت اور رواداری پیدا کرتی تھیں ۔ جوں جوں گا ؤ ں سے شہروں کو منتقلی، اور شہروں میں متوسّط طبقے کے حجم میں اضافہ ہوتا گیا توں توں لوگوں میں سماجی تعلقات کمزور ہوتے گئے۔ لوگ اکٹھے اٹھنے بیٹھنے سے گریزاں ہونے لگے تو ان میں عدم برداشت بڑھتی گئی۔
اس کے برعکس دنیا کے دوسرے معاشروں میں یہ روایات مادی ترقّی کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتی آج بھی موجود ہیں ۔عرب دنیا کو دیکھیں تو وہا ں چائے اور قہوہ خانوں کی خاص ثقافت نظرآتی ہے۔ کئی فارغ البال حضرات صبح کے وقت یہاں آ کر براجمان ہوتے ہیں اور سارادن اخبارات کی ورق گردانی اور ملکی وعالمی حالات پر تبصروں میں گزار کر شام کو گھر کی راہ لیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ایک اخباری کالم میں قاہرہ کے قہوہ خانوں اور مصرکے موجودہ سیاسی حالات کے تعلق بارے پڑھا جس میں کالم نگار اپنے مصری دوست کے حوالے سے لکھتا ہے کہ اہلِ نظر ان قہوہ خانوں میں مصری آمر کے خلاف پکتے لاوے کی پیشینگوئیاں دو تین سال پہلے سے کر رہے تھے۔اور اب جب یہ لاوہ پھٹاہے تو تیس سال سے اقتدار پر قابض حکمران کو بہا کر لے گیا ہے۔
فرانس میں پیرس کے کیفے سماجی بیداری اور انسانی حقوق بالخصوص مزدوروں کے حقوق کی تحریکوں کے مرکزہوا کرتے تھے۔انقلابِ فرانس سے پہلے حکمران طبقے نے کئی بار کیفے کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانے کی کوششیں بھی کیں مگر ناکام رہے۔کئی بڑے انقلابی لکھاری انہی جگہوں پر بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔ژاں پال سارترکی زیادہ ترتحریریں کافی ہاؤسز میں ہی لکھی گئیں تھیں ۔
یورپ میں اس رواج کی تاریخ دیکھیں تووینس کیفے کلچر میں اہلِ مغرب کا سُرخیل نظر آتا ہے۔ سترہویں صدی کے اوائل میں وینس کے تاجر اپنے ساتھ کافی کی سوغات لائے تو کافی ہاؤسزبنے اور محفلیں سجنے لگیں ۔فرانس میں پیرس کے کیفے سماجی بیداری اور انسانی حقوق بالخصوص مزدوروں کے حقوق کی تحریکوں کے مرکزہوا کرتے تھے۔انقلابِ فرانس سے پہلے حکمران طبقے نے کئی بار کیفے کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانے کی کوششیں بھی کیں مگر ناکام رہے۔کئی بڑے انقلابی لکھاری انہی جگہوں پر بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔ژاں پال سارترکی زیادہ ترتحریریں کافی ہاؤسز میں ہی لکھی گئیں تھیں ۔
معاشرتی رشتے مضبوط کرنے کے حوالے سے بھی یہ جگہیں خاصی شہرت رکھتی تھیں ۔ سکاٹ ہینے نامی ایک تحقیق کار کے مطابق پیرس میں کیفے کی تعداد بڑھنے سے شادیوں کی شرح میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ اور ان شادیوں میں سے قریباً ایک چوتھائی میں کیفے مالکان بطور گواہان شامل ہوئے۔یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ بد قسمتی سے ہما رے ہاں زیادہ تر عوامی جگہیں ایسی ہیں جہاں عورت کا پایا جانانایاب ہے چناچہ شادی کی نوبت ہی نہیں آتی۔
لندن کے کافی ہاؤسز بھی ادبی و سماجی سرگرمیوں کا ایک مضبوط پسِ منظر رکھتے ہیں ۔ کئی نامور شعراء اور ادیب حضرات کے خطوط بھی انہی جگہوں پر آیا کرتے تھے۔ اور یہاں تخلیق ہونے والا ادب کافی ہاوس لٹریچر کے نام سے مشہور ہوا۔
سترہویں صدی میں جڑ پکڑنے والی یہ روایات اب بھی مغربی معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں دن بدن کمزور پڑتی اس ثقافت کو سنبھالا دینے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ ایسے حالات میں اب بھی کچھ جگہیں موجود ہیں جہاں لوگ مل بیٹھ کر آزادی سے اظہار خیال کر سکتے ہیں اورنہ صرف اپنے اندر کا حبس نکال سکتے ہیں بلکہ اجتماعی معاشرتی مقالمے میں کارآمد خیالات کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔
پرانے لاہورپرنظر دوڑائیں تو شاہی قلعے کے سامنے حضوری باغ میں باذوق افراد جمع ہوا کرتے تھے اور شعر وشاعری کا دور چلتا یا سیا سی حالات پربحثیں ہوتیں ۔ مگر جب سے باغ میں بیٹھنے پر پابندی لگی تو یہ محفلیں بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس منتقل ہو گئیں ۔ اگرچہ اب یہاں کی رونق کم ہوگئی ہے مگر سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ انارکلی کے چائے خانوں میں اب بھی شعراء کرام اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ دل حضرات اکٹھے ہوتے ہیں ۔ شہر کے پوش علاقوں کی جانب آئیں توماڈل ٹائون میں واقع فیض گھر کی سرگرمیاں سماجی تعلق کی اس روایت کو مضبوط کرتی نظر آتی ہیں ۔گارڈن ٹائون میں انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈسیکولر اسٹیڈیز فلم سکریننگ ، لیکچرز اور مباحثے منعقد کرواتا رہتا ہے۔ گلبرگ میں واقع بول کیفے کا مقصد بھی عام لوگوں خصوصاً نوجوانوں میں بحث کی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔اسی جانب کیفے گل خانہ بھی ہے جو بادی ٔالنظر میں تو تاریخی نوادرات اور آرٹ کی گیلری نظر آئے گی مگر یہاں تعلیمی اداروں کے طلباء اور دیگر افراد کا آنا جانالگا رہتا ہے ۔ فلم کی تاریخ اور پرانے لاہور میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ خوب جگہ ہے۔یہاں کے منتظم طاہرملک یزدانی کی ان موضوعات پر طویل مگر دلچسپ اور معلومات سے بھرپور گفتگو ادھر آنے والوں کو ایک بار واپس ضروربلاتی ہے۔
سماجی سرگرمیا ں اور بحث و مباحثے حقیقی دنیا سے اٹھ کر انٹرنیٹ کی دنیا کو منتقل ہورہے ہیں ۔مگر بات وہیں آن ٹھہرتی ہے کہ کیا سائبر رابطوں سے جذبات و احساسات کی گرمی دوسروں کو پہنچ سکتی ہے تو جواب یقینا نہیں میں ہے۔سائنسی ترقی کی رفتار بلا شبہ معجزاتی ہے مگر براہِ راست انسانی رابطوں کا بہرحال کوئی متبادل نہیں تلاشا جا سکا۔ برقی رابطوں کے اپنی ترقی کی انتہا کو چھو لینے کے بعد بھی انسانی ہاتھ کی حدّت مصافحے سے ہی محسوس کی جائے گی ۔
وفاقی دارلحکومت میں ایسی سرگرمیوں کا مرکز ’’کچھ خاص‘‘ کے نام سے بنا ایک کیفے ہوتا ہے۔ نیشنل لائبریری اسلام آباد میں بھی کچھ افراد باقاعدگی سے سٹڈی سرکل کی طرز پر محفلیں سجاتے ہیں ۔ سول جنکشن نامی ہوٹل میں کھانے کے ساتھ سیاسی حالات بھی زیرِبحث رہتے ہیں ۔
کراچی میں یوں تو کیفے ، کلبوں اورچائے و کافی ہاؤسز کی بھرمار ہے مگر’’ الاؤ‘‘ کافی ہاؤس کی خاصیت یہ ہے کہ موسیقی کیساتھ ساتھ بیٹھنے اور گفتگو کرنے کی آزادی لوگوں کو اپنا فارغ وقت یہاں بِتانے کے لیے کھینچ لاتی ہے۔اس کے علاوہ آرٹ کے دلدادہ افراد مجموعہ آرٹ گیلری میں بھی اکٹھے ہوتے ہیں ۔
پشاور میں قہوہ خانوں کی تاریخی روایت اب بھی زندہ ہے۔شہر بھر کے سینکڑوں قہوہ خانوں پر حُقّے اور سماوار کے گرد بیٹھکوں کا لمبا دور چلتاہے۔ ان جگہوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عرصے تک ٹی وی اور ریڈیو پر’’قہوہ خانہ‘‘ کے نام سے پروگرام نشر کیے جاتے رہے۔
کوئٹہ میں بھی قہوہ خانو ں کی ثقافت سانس لیتی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچی اور پشتو زبان کے مراکزمیں بھی مختلف پروگرام منعقد ہوتے ہیں ۔ بلوچستان کا ادارۂ ثقافت بھی ایسی سرگرمیوں کا میزبان بنتارہتا ہے۔
یہ تو تھی چند شہروں کی صورتحال۔ لیکن حقیقتِ احوال یہ ہے کہ نئے دور کے نئے انداز ، اب یہ سماجی سرگرمیا ں اور بحث و مباحثے حقیقی دنیا سے اٹھ کر انٹرنیٹ کی دنیا کو منتقل ہورہے ہیں ۔مگر بات وہیں آن ٹھہرتی ہے کہ کیا سائبر رابطوں سے جذبات و احساسات کی گرمی دوسروں کو پہنچ سکتی ہے تو جواب یقینا نہیں میں ہے۔سائنسی ترقی کی رفتار بلا شبہ معجزاتی ہے مگر براہِ راست انسانی رابطوں کا بہرحال کوئی متبادل نہیں تلاشا جا سکا۔ برقی رابطوں کے اپنی ترقی کی انتہا کو چھو لینے کے بعد بھی انسانی ہاتھ کی حدّت مصافحے سے ہی محسوس کی جائے گی ۔سو آج ہمیں شدت سے ان جگہوں اور ایسی روایات کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ملنے ،ان کو جاننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کریں ۔ بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور متشدد روّیوں کے پس منظر میں یہ ناگزیر ہے ۔

ہمارے لیے لکھیں۔