پاکستان کو بطورریاست اور معاشرہ بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔تاہم رائج الوقت بیانیے میں مسائل کی فہرست دیکھیں تو سخت گیر سماجی رویے، مذہبی اخلاقیات کادوہرا پن، عورت دشمنی، بے قابو آبادی اور تیسری جنس کی تکالیف جیسے عنوانات اس میں معدوم نظر آئیں گے۔ ایسے میں پاکستانی فلم جیسی نایاب جنس اگر ان مسائل کو اجاگر کرے تو اس سے زیادہ خوشگوار احساس پاکستان میں کم ہی نصیب ہوتا ہو گا۔ یہ احساس شعیب منصور کی نئی فلم’ بول‘ دیکھنے پر ہوا۔ اگرچہ شعیب منصور کی ہر تخلیق اپنی مثال آپ ہے مگر فلم ’بول‘ سماجی ذمہ داری، حقیقت نگاری اور کثیر جہتی مفاہیم کی بدولت ان سب میں سر فہرست ہے۔ چند ایک کمزوریاں شناخت کی جاسکتی ہیں مگر شاید وہ کاروباری نقطہ نظر سے ضروری تھیں ۔ان کے سوا فلم فنی کارکردگی اور سماجی شعور کو یکجا کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس نے ان تاثرات کو ایک بار پھر جھٹلایا ہے کہ پاکستان میں اچھے فلم ساز نہیں یا عوام معیاری سینما دیکھنا نہیں چاہتی۔
اگرچہ شعیب منصور کی ہر تخلیق اپنی مثال آپ ہے مگر فلم ’بول‘ سماجی ذمہ داری، حقیقت نگاری اور کثیر جہتی مفاہیم کی بدولت ان سب میں سر فہرست ہے۔ چند ایک کمزوریاں شناخت کی جاسکتی ہیں مگر شاید وہ کاروباری نقطہ نظر سے ضروری تھیں ۔ان کے سوا فلم فنی کارکردگی اور سماجی شعور کو یکجا کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس نے ان تاثرات کو ایک بار پھر جھٹلایا ہے کہ پاکستان میں اچھے فلم ساز نہیں یا عوام معیاری سینما دیکھنا نہیں چاہتی۔
بول زندہ کرداروں پر مبنی ایک حساس کہانی ہے۔ مرکزی کردار ’حکیم صاحب‘ بنیادی طور پر معاشرے کا وہ کردار ہے جسے ہم عُرف عام میں ’مولوی‘ کہتے ہیں ۔ یہاں وضع قطع اور مذہبی عقا ئد کو دخل نہیں بلکہ اس سے مراد احساسات سے عاری، بند نظام فکر کا وہ پیروکار ہے جو اپنی فکر پر نظرثانی اور سمجھوتے پر تیار نہیں ۔ مگر وقت کی دوڑ میں وہ اپنے اعمال تلے کُچلا جاتاہے۔ شعیب منصور نے پاکستانی فلموں کی ایک اور روایت کو توڑا ہے ۔ مولوی جو اس فلم کا ولن ہے اسے سکرین پر نہ صرف سب سے زیادہ وقت دیا گیا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی اُلجھنوں کو انسانی انداز میں سمجھانے کی کوشش
بھی کی گئی ہے۔ مولوی کے ہاتھوں اس کی بیوی اور بیٹیاں استحصال اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں ۔
بیٹیوں کو قابو میں رکھنے اور اپنی مخنث اولاد کے وجود سے گھر کو پاک کرنے کے خبط میں وہ ایسی پیچیدگیوں میں اُلجھتا ہے کہ معاشرے کے کمتر ترین سمجھے جانے والے طبقے کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتا ہے۔ مگر حیران کن بات ہے کہ اپنی سوچ کی ناکامی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔فلم میں اگرچہ اچھے اور بُرے کرداروں کی روایتی خلیج موجود ہے مگر ہر کردار حقیقی رنگ میں اپنی حد بندیوں کے ساتھ نظر آتا ہے جیسے فلم کی کہانی بیان کرنے والی حکیم صاحب کی صاحبزادی اپنی تمام تر عقل اور حکیم صاحب کی دست درازیوں کے خلاف مزاحمت کے باوجود مخنث کو مردوں کی طرح عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔یہ بھی دکھایا ہے کہ ہمارے ہی معاشرے میں جہاں نام نہاد شرفاء بھی بیٹی کو انسان کا درجہ نہیں دیتے، وہاں کئی گھرانوں میں اس کی اہمیت مرکزی ہے۔ ہیرا منڈی کا کنجر اپنی تمام برائیوں کے ساتھ اخلاقی معیارمیں حکیم صاحب سے بلند نظر آتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ناخوش ہے۔ اس ناخوشی میں مالی وجوہات بنیادی حیثیت نہیں رکھتیں ۔درحقیقت مو لویانہ ذہنیت جو معاشرے میں انتہائی گہرائی تک سرایت کر چکی ہے، بنیادی طور پر انسانی خوشی کی دشمن ہے۔ یہ بات کہنا اور منوانا شاید مشکل ہے مگر ’بول‘ میں ایسی کمال فنکاری سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انکار ممکن نہیں ۔
سینما میں یہ فلم دیکھنا بذات خود ایک اہم عمرانیاتی تجربہ ہے۔ اگرچہ کرداروں کے مثبت اور منفی پہلو شروع سے ہی واضح کر دیے جاتے ہیں مگر گھریلو تشدد پر ناظرین کے بے حس تبصرے اور ایک مخنث سے جنسی زیادتی پربلند قہقہے ہماری اجتماعی اخلاقی سطح کے بارے میں چشم کُشا ہیں ۔ تاہم شعیب منصور کی فنکارانہ صلاحتیوں کا ایک اور ثبوت سامنے آتا ہے جب فلم کے نصف سے پہلے ہی مظلوم کرداراپنی تکلیفوں کا اتنا گہرا تاثر چھوڑتے ہیں کہ باقی ماندہ حصے کے دوران ہال میں گہری ہمدردانہ خاموشی چھائی رہتی ہے۔اور جب مظلوم کردار صدائے بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں تو تالیوں کا شور اس کی گواہی دیتا ہے کہ فلم کا مقصد پورا ہوا ہے۔
’بول‘ گرجدار لہجے اورنحیف آواز میں کیے جانے والے سوالات کے درمیان مکالمہ ہے جس میں حتمی بقاموخر الذکر کو ہی ہے۔یہ ہمارے گھروں کے تاریک کونوں میں ہونے والی ان ذیادتیوں پربے لاگ تبصرہ ہے جن سے ہمارا اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے۔
فیض صاحب نے اپنی نظم ’بول‘ کے ذریعے لفظ ’بول‘ کو سیاسی مفہوم دیا تھااور عمومی طور پر یہ آمرانہ حکومت کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ رہاہے۔ شعیب منصور نے اس کے مفہوم کو وسیع کرتے ہوئے ان تمام برائیوں کو اس کے دائرہ عمل میں لانے کی کوشش کی ہے جنہیں عموماً کلچر، خاندان، مذہب اور اخلاقیات کے نام پر روا رکھا جاتا ہے۔مثلاً منصوبہ بندی کے بغیر بچے پیدا کرنا۔ یہ جتنا بڑا مسئلہ ہے اتنا ہی زیادہ نظر انداز بھی ہے۔ اور اگر بات شروع ہو تو مذہب کے نام پر روک دی جاتی ہے۔ ’بول‘ میں صحیح طور پربغیر منصوبہ مندی بچے پیدا کرنے کو جُرم کہا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے ۔اس احساس ذمہ داری کے بغیر ایک صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
’بول‘ گرجدار لہجے اورنحیف آواز میں کیے جانے والے سوالات کے درمیان مکالمہ ہے جس میں حتمی بقاموخر الذکر کو ہی ہے۔یہ ہمارے گھروں کے تاریک کونوں میں ہونے والی ان ذیادتیوں پربے لاگ تبصرہ ہے جن سے ہمارا اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ انسانی حساسیت کا بیان ہے جو فلم میں شامل کیے گئے سجاد علی کے گانے کی صورت میں بہتر طور پر واضح ہوتا ہے۔
دن پریشاں ہیں ، رات بھاری ہے
زندگی ہے کہ پھر بھی پیاری ہے

One Response

  1. shariq

    han bat to such hi kahi hai magar yahan b ik ehsas hua hai k app b lgbt par bus mukhtasir bat kar saktay hain is par mufasil bat nahi kar sakay it maeks me feel k liknay walay b likhtay huay mehsos kartay hain k its a taboo topic jub app yeh feel karain gay to awami rai ki tashkeel e nau kis tara say mumkin hai coz its totally natural but still its a taboo…. i can regret only

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: