فلسطینی شاعر محمود درویش کی ایک نظم کا ترجمہ

زمین ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے
ہمیں دھکیل رہی ہے ایسی گلیوں میں
جہاں دیوارسے دیوار لگتی ہے
سو گذرنے کا یہی اک رستہ ہے
کہ ہم اپنے اعضا کاٹ کر پھینک دیں

زمیں ہمیں بھینچ رہی ہے
کاش ہم اس زمیں پر اگی
کوئی فصل ہی ہوتے
اسی میں گرتے ، اسی سے اگ آتے

کاش زمین ماں ہوتی
ماں جیسی مہرباں ہوتی
کاش ہمارے وجود پتھر ہوتے
ان سے آئینے تراش کر ہم اپنے خوابوں کا عکس بن جاتے

ہم نے دیکھا ہے ان لوگوں کا چہرہ
جن کےبچوں کا خون
اپنی روح کے دفاع کی آخری جنگ میں
ہمارے ہاتھوں سے ہو گا
ہم ان کے بچوں کا بھی ماتم کرتے ہیں

ہم نے دیکھا ہے ان لوگوں کا چہرہ
جو ہمارے بچوں کو
اس آخری پناہ گاہ سے بھی دیس نکالا دیں گے

آخری سرحد کے بعد بھلا کوئی کہاں جائے
آخری آسمان کے بعدپرندے
کس جانب پرواز کریں ؟

ہوا کے آخری چھونکے کے بعد
پھول کہاں جا کر سانس لیں ؟

ہم اک لہو رنگ چیخ سے دے جائیں گے
اپنے ہونے کا ثبوت
ہم اپنے گیتوں کے ہاتھ کاٹ دیں گے
لیکن ہمارا بدن گاتا ہی رہے گا

ہمارا مرنا یہیں ہر ہے
اسی آخری مقام پر۔۔۔۔۔
یہیں پر ہمارا خون اگائے گا
زیتون کا درخت

Leave a Reply