Laaltain

زمینی خوبصورتی اور انسانی کردار

17 نومبر، 2015
Picture of شبیر رخشانی

شبیر رخشانی

youth-yell-featured

زمین سے اگر قدرتی مناظر نوچ لیے جائیں تو یقیناً زندگی کی خوبصورتی برقرار نہیں رہ سکتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ صبح اٹھتے ہی اگر آپ کی نظریں کسی سبزہ زار پر پڑ جائیں تو یقیناً آپ کے دماغ کے دریچے کھل سکتے ہیں اور آپ کھل کھلا سکتے ہیں۔ انسان اور ان پیڑوں کا یہ رشتہ صدیوں پرانا ہے اور اس رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے اب ہمیں جدوجہد کرنا ہو گی۔ پوری دنیا میں ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے درخت اگانے اور جنگلات کو بچانے کی مہمیں چلائی جا رہی ہیں۔

 

ایک دن راہ چلتے اچانک میری نظر ایک ایسے درخت پر پڑی جو دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مکمل خشک ہو چکا تھا۔ آس پاس چند درخت ایسے بھی نظر آئے جنہیں سڑک کی توسیع کی خاطر کاٹ کر زمین سےاس کی خوبصورتی چھین لی گئی تھی۔ چند دیوہیکل مشینیں اس ززمین کو روندنے اور تارکول بچھا کر ان درختوں کا نام و نشان مٹا دینے کو تیار کھڑی تھیں۔ قدرت زمینوں کی شباہت دیکھ کر وہاں کے موسموں کے مطابق خودرو درختوں کی افزائش کرتی ہے، اسی قدرت نے انسان کو عقل اور شعور بخشا ہے لیکن اب یہی انسان اسی قدرت اور قدرت کے باقی بیٹوں اور بیٹیوں کو زہریلا کرنے اور مٹا دینے پر تلا ہوا ہے۔ کیا انسانی ضروریات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ سرسبز درختوں کو تہس نہس کیا جائے؟

 

ترقیاتی منصوبوں، تعمیرات اور ضروریات کے لیے ایسے بھی کئی درخت کٹتے دیکھے ہیں جن کے آس پاس میرا بچپن، میرے علاقے کے کئی نوجوانوں، بزرگوں بلکہ کئی نسلوں کا بچپن گزرا تھا۔ اپنے علاقے کے ایسے درختوں سے جڑی میری یادیں تو محض 20 یا22 سال پرانی ہیں لیکن انسان سے ان کا رشتہ کئی صدی پرانا تھا۔ بچپن ہماری یادوں کا سمندر ہوتا ہے۔ میری یادوں میں ابھی تک ایک درخت اگا ہوا ہے جو بلوچی زبان میں ’’کبڈ‘‘ کہلاتا ہے )خدا جانے باقی زبانوں میں اس کا کیا نام ہوگا(۔ کبڈ ایک خودرو درخت ہے جو گرمیوں میں ایک مخصوص میوہ بھی یہاں کے مکینوں کو بلامعاوضہ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے علاقے میں ‘کبڈ’ کے علاوہ کئی اور میوہ دار درخت جیسے ’’جگر‘‘، ’’کلیڑ‘‘ وغیر بھی اگتے ہیں۔ ‘کبڈ’سے حکیموں کے دواخانے بھی چلتے ہیں اور راہگیروں کی وقت گزاری کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے پتوں اور خشک انار کو پیس کر بدہضمی کے شکار لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ مگر اب ان درختوں کا شاید ایک ہی مصرف رہ گیا ہے کہ انہیں کاٹ کر جلا لیا جائے یا ان کی جگہ ایک اور سڑک بچھا دی جائے۔ کبڈ پر جون جولائی میں پھل لگتا ہے جسے مقامی زبان میں ’’پیرو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس موسم میں پھل سے اس درخت کی شاخیں لد جاتی ہیں۔ بچپن میں ہم ‘مزری’ سے بنے چھوٹے چھوٹے کٹورے، جن کے دونوں کناروں پر مزری سے بنی ہلکی رسی باندھ دی جاتی تھی، گلے میں لٹکائے صبح ہوتے ہی میوے کی تلاش میں درختوں کا رخ کرتے۔ اپنی پہنچ کے مطابق چھوٹا سا درخت منتخب کرکے اس پر چڑھ جاتے تھے اور اپنے کٹورے اور شکم ‘پیرو’ سے بھر لیتے۔ میں اس لیے چھوٹے درخت کا انتخاب کرتا تھا کہ مجھے اونچے درختوں پر چڑھنے سے ڈر لگتا تھا۔

 

آس پاس چند درخت ایسے بھی نظر آئے جنہیں سڑک کی توسیع کی خاطر کاٹ کر زمین سےاس کی خوبصورتی چھین لی گئی تھی۔ چند دیوہیکل مشینیں اس ززمین کو روندنے اور تارکول بچھا کر ان درختوں کا نام و نشان مٹا دینے کو تیار کھڑی تھیں۔
مگر اب یہ منظر خال خال ہی نظر آتے ہیں، انسان نے جنگلات اور جنگلی حیات کی دنیا اجاڑ کر اپنے شہر بسائے ہیں، جنگلی حیات کا پیچھا پہاڑوں تک کرکے کئی نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ انسان اور بے زبانوں کا رشتہ پرانا ہے لیکن صنعتی دور نے اس رشتے کو عدم توازن کا شکار کر دیا ہے۔ اب جنگل اور جنگلی حیات کارخانوں کا پیٹ بھرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ اس لیے جنگلوں اور پہاڑوں میں مقیم یہ جانور یا تو پناہ کے لیے اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں یا پھر کسی نہ کسی انسانی سرگرمی کا شکار ہو چکے ہیں۔
تحصیل جھاؤ کسی زمانے میں جنگلی حیات کا ایک وسیع مسکن تھا۔ انسانی آبادی کم تھی لیکن پھر بے تحاشا شکار نے مختلف نسل کے جانور نایاب کر دیئے۔ خرگوش، ہرن، چیتا، تیتر، بٹیر غرض ہر نسل کے جانور کھلے عام پھرت تھے۔ بعض جگہوں کے تو نام تک انہی جانوروں کے مساکن کی وجہ سے رکھے گئے جیسے ہفتاری کوہ وغیرہ۔ بڑے جنگلات کے علاوہ چھوٹے چھوٹےخودرو جنگلات بھی پائے جاتے تھے۔ انہی جنگلات کی وجہ سےبارشیں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔ علاقے میں صنعتی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد یہاں کے مکینوں نے درختوں کی کٹائی کا کام بڑے پیمانے پر شروع کر دیا اور یوں بارشوں کا سلسلہ کم ہوگیا۔ یہ جنگلات سیلاب کی شدت بھی کم کرتے تھے لیکن اب کبھی بارش ہو تو ندی نالے فوراً چڑھ جاتے ہیں۔ شکارگاہوں کی تعمیر کی وجہ سے جنگلی حیات چند مخصوص علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں یوں ان حیوانوں کے فضلہ جات سے درختوں کی افزائش کا قدرتی عمل بھی رک گیا ہے۔ حیوانی سرگرمیوں کے خاتمے کی وجہ سے بیجوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کا عمل بھی رک گیا ہے۔ جنگلات کی بڑھوتری کا عمل رکنے سے موسمیاتی بحران پیدا ہونا بھی ایک لازمی امر تھا۔ آئندہ نسلوں کے لیے بلوچستان کے طول و عرض میں آنے والی یہ تبدیلیاں خطرے کی ایک گھنٹی ہیں۔

 

بچپن میں ہم ‘مزری’ سے بنے چھوٹے چھوٹے کٹورے، جن کے دونوں کناروں پر مزری سے بنی ہلکی رسی باندھ دی جاتی تھی، گلے میں لٹکائے صبح ہوتے ہی میوے کی تلاش میں درختوں کا رخ کرتے۔
تحصیل جھاو میں میری ملاقات ایک مقامی شخص اکبر سے ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ وہ تعلیم سے محروم تھا لیکن جنگلات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی پر 20 برس ابوظبی میں محنت مزدوری کرنے والے اکبر کا کہنا تھا کہ دبئی میں درخت کاٹنا ایک قانونی جرم سمجھا جاتا ہے۔ درختوں کے کاٹنے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ دبئی میں درختوں کی پیدوار بڑھانے کے لیے وہاں کی حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کے مکین بھی کوشاں ہیں۔ کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ صحرا کو خوبصورت بنانا ہے تو درخت اگانے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہاں سڑکوں کی تعمیر کے دوران اگر کوئی درخت درمیان میں آجائے تو درخت کو کاٹا نہیں جاتا بلکہ سڑک کا رخ موڑا جاتا ہے۔

 

وہ ادارے جو جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور بقاء کے لیے کام کر تے ہیں، ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیشتر جنگلات محض کاغذوں میں ہی ہرے بھرے ہیں زمین پر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہ صرف سرکاری اداروں پر عائد ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر اس فرد پر بھی جو اس ماحول میں سانس لے رہا ہے اور جسے صاف ہوا اور صاف فضا کی ضرورت ہے۔
آئندہ نسلوں کے لیے میری واحد نشانی میرے اپنے ہاتھوں سے لگایا وہ پیڑ ہےجو سرسبز بھی ہے اور صبح کا آغاز میں اسی کے دیدار سے کرتا ہوں۔ اس درخت پر پر چڑیو ں کا ایک غول ہر صبح چہچہا کر میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔ جب تک میری زمین پر میرے قدم موجود ہیں انہیں اس پیڑ پر آنے، بیٹھنے اور چہچہانے کی آزادی ہے۔ آئیے ہم سب آنے والی نسلون کے لیے ایک سرسبز زمین چھوڑ کر جانے کے لیے اپنے حصے کے درخت اگائیں۔ پھر دیکھیے کہ دنیا کس قدر حسین ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *