زمانہ اپنی سختیوں کے ساتھ کھڑا ہے
اس کے ہاتھ میں چابک ہے
اس کے پیروں میں کچلنے کی طاقت ہے
مگر کس کو ؟
کیا ان کو جو اپنے مقدر کی کھڑکی کھولے بیٹھے ہیں
ایک عرصہ درازسے
جھانک رہے ہیں باہر
اپنے اس وقت کے انتظار میں
کہ کب زمانہ ان سے بھی سمجھوتہ کرے گا
ان سے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر کہے گا
باہر آؤ
تم میرے پاؤں تلے کچلے نہیں جاؤگے
تمہیں تمھارے حصے کی روٹی ملے گی
تمھارے تن کا کپڑا اب کسی دوسرے کو نہیں دیا جائے گا
آؤ باہر آؤ
پہلے تو وہ حیران ہو کر سنیں گے یہ کس کی آواز ہے
پھر وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے اس یقین کے ساتھ
کیا وہ بھی یہ آواز سن رہے ہیں
وہ جو ایک عرصہ دراز سے زمانے کے مہربان ہونے کا انتظار کر رہے ہیں
زمانہ اپنی بتیسی نکال کر ہنسے گا
اور کہے گا ہاں آؤ باہر
باہرتو آؤ
پہلے میری شرطیں سنو
پہلے میرے آگے جھکو
اپنی اپنی ناک رگڑو
پھر دیکھو میری رعائیت
پھر دیکھو میرا کرم
پھر دیکھو
وہ بھوکے پیٹ سہم جائیں گے
پہلے ایک دوسرے کا منہ تکیں گے
پھر اپنی اپنی کھڑکیاں بند کر لیں گے
Image: Karen Owsley Nease