ماضی میں گستاخانہ خاکوں، لال مسجد، گستاخانہ فلموں، سلمان تاثیر کے بیان سمیت کئی معاملات پر ایسی سنسنی خیز کوریج دیکھنے کو ملی جو بالواسطہ طور پر اشتعال پھیلانے کا باعث بنی۔
زرد صحافت، صحافت کی وہ مسخ شدہ صورت ہے ہے جس میں مصدقہ و غیر مصدقہ خبروں کو سنسنی خیز انداز میں ذرائع ابلاغ کی زینت بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ دیگر خبروں کو چھوڑ کر اس سنسنی خیز خبر کی طرف متوجہ ہوں اور اخبار کی مانگ یا ٹی وی ریٹنگ میں اضافہ ہو۔ زرد صحافت کسی بڑے واقعہ یا کسی حادثے کی ایسی غیر ذمہ دارانہ اور دانستہ طور پر مسالے دار اور چٹ پٹی کوریج کا چلن ہے جو لوگوں میں سنسنی، اشتعال اور خوف پھیلانے کا بعث بنتا۔ زرد صحافی اسکینڈلز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ جب ایک اخباریا ٹی وی چینل اپنی مانگ یا ریٹنگ بڑھانے کے لیے لوگوں میں سنسنی پیدا کرتے ہوئے اشتعال انگیز خبریں چھاپنے اور نشر کرنے کی پالیسی اپناتا ہے تو نہ صرف مثبت صحافتی اقدار مجروح ہوتی ہیں سماج میں انتشار، بے چینی اور نفرت میں اضافہ ہو تاہے۔ ایک چینل یا اخبار کی جانب سے اس قسم کی خبروں کی اشاعت دیگر اداروں کو بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی مقابلے میں ایسی ہی خبریں پیش کریں۔
ماضی میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ صحافت کے باعث ایک ایسی انتہا پسند روش اپنا لی گئی تھی جو دہشت گرد حملوں کی براہ راست کوریج میں بھی تامل کی روادار نہیں تھی۔ ماضی میں گستاخانہ خاکوں، لال مسجد، گستاخانہ فلموں، سلمان تاثیر کے بیان سمیت کئی معاملات پر ایسی سنسنی خیز کوریج دیکھنے کو ملی جو بالواسطہ طور پر اشتعال پھیلانے کا باعث بنی۔ سابق گورنر پنجاب کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے موقع پر پاکستانی میڈیا پر البتہ ایک اور انتہا دیکھنے کو ملی۔ اگرچہ اس واقعے کی رپورٹنگ کے دوران جس بالغ نظری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا گیا اس کے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی معترف نظر آئے مگر اس خبر سے متعلق مکمل بلیک آوٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔متوقع رد عمل کو امن وامان کے قالب میں بدلنے کی خاطر تمام چینلز نے پھانسی کے بعد کی صورتحال کو ٹی وی سکرین پر دکھانے سے مکمل احتراز کیا جس سے ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ کیا کوئی اعتدال کا راستہ موجود ہے؟
Yellow Kidایک ایسا کارٹون تھا جو ایک ہنستا مسکراتا بچہ تھا جس کے اگلے دانت ٹوٹے ہوئے تھے، کان بڑے بڑے تھے اور سر گنجا تھا جو ایک پیلے رنگ کی بڑی سی قمیص پہنے ہوئے تھا۔ یہ کردار اخبارمیں غریب اور متوسط طبقے کے مسائل کو مزاحیہ اور معنی خیز طریقے سے پیش کرتا تھا۔
سنسنی خیز صحافت اور آزاد مگر ذمہ دار صحافت کے مابین توازن کے قیام کے لیے اس موقع پر یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ زرد صحافت کیا ہے اور اس کا آغاز کیوں کر ہوا۔
زرد صحافت کی اصطلاح اس وقت رائج ہوئی جب 1896ء میں William Randolph Hearstاور Joseph Pulitzerکے درمیان اخباری پیشے میں مسابقت کاآغاز ہوا۔ J Pulitzerکےاخبار کا نام New York World اور W.R Hearstکے اخبار کانام New York Journalتھا۔ 1896ء میں J Pulitzer نے Yellow Kid کےنام سے ایک کارٹون (Comic Strip) اخبار میں اُس وقت شائع کیا جب اخبارات میں کارٹونز (Comic Strip) شائع کرنا کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ Yellow Kidایک امریکی کارٹونسٹR.F Outcault کی تخلیق تھا۔ یہ پہلا امریکی کارٹون کردار تھا جو اپنے عہد میں مقبول ترین تھا۔ چونکہ R.F. Outcaultکا تخلیق کردہ کردارMickey Dugan کی قمیص کا رنگ پیلا تھا لہذا اپنے اصل نام کی بجائے Yellow Kid کے نام سے معروف ہوا۔
Yellow Kidایک ایسا کارٹون تھا جو ایک ہنستا مسکراتا بچہ تھا جس کے اگلے دانت ٹوٹے ہوئے تھے، کان بڑے بڑے تھے اور سر گنجا تھا جو ایک پیلے رنگ کی بڑی سی قمیص پہنے ہوئے تھا۔ یہ کردار اخبارمیں غریب اور متوسط طبقے کے مسائل کو مزاحیہ اور معنی خیز طریقے سے پیش کرتا تھا۔ پہلے یہ کردار کارٹونز کے ساتھ ثانوی کردار کے طور پر ظاہر ہوتا تھا بعد میں اپنے مضحکہ خیز شباہت کے ساتھ سب پر سبقت لے گیا اور پورے امریکہ میں Yellow Kidکے نام سے معروف ہوا۔ یہ کردار اتنا مقبول ہو ا کہ اشتہاری کمپنیوں نے سیگریٹ، کھلونے، چیونگم غرض روزمرہ زندگی کی بہت سی چیزوں کی اشتہاری مہم میں اس کو بکثر ت استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اس کارٹون کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے J Pulitzerاور W.R Hearstمیں اخبار ی جنگ شروع ہوگئی۔ اس کارٹون کی شہرت کے باعث دونوں اخبار مالکان میں شدید کاروباری رقابت پید اکر دی۔ بعد ازاں W.R Hearstنے ا س کارٹون بنانے والے کو بھاری تنخواہ دے کر اپنے اخبار میں بھرتی کر لیا۔ جس کے بعد J Pulitzerنے اس کارٹون Yellow Kid کی مشابہت رکھنے والا ایک کارٹون تخلیق کر کے اپنی اخبارمیں چھاپنا شروع کر دیا۔
اس مسابقتی دوڑ نے دونوں اخباروں میں بہت سی اختراعات کو جنم دیا۔ اخباری ایڈیٹرز نےا پنے اخبار بیچنے کے لیے بہت سے تراکیب سوچیں تاکہ شہر کے ہر گلی محلے کی نکڑ پر اسی اخبار کی فروخت ہو۔ وہ Yellow Kidکارٹون کے ذریعے بہت سی فرضی اور من گھڑت خبریں بھی چھاپتے رہے تاکہ دوسرے اخبارات کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
سنسنی خیز رپورٹنگ میں حد سے تجاوز کے باعث صحافت کے معانی و مفہوم ہی بدل دیئے گئے تو اروِن وارڈمین نے اس اخباری کشمکش کو ییلو کڈ جرنلزم کا نام دیا جو بعد میں مختصر ہو کر ییلو جرنلزم رہ گیا۔
اسی عشرے میں جاری امریکہ اسپین جنگ بھی ان دو اخباروں کی رقابت سے متاثر ہوئی اور Yellow Kidنے اس جنگ میں رائے عامہ کو شدید متاثر کیا۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق اس ‘زرد’ صحافت کی وجہ سے امریکہ اسپین جنگ کے دوران امریکہ کے کیوبا سے تعلقات میں گہری دراڑ آگئی۔ W.R Hearstنے کیوبامیں جنگی صورتحال جاننے کے لیے اخباری رپورٹرز کی ایک ٹیم بھیج رکھی تھی جن کی فرضی اور نفرت انگیز رپورٹنگ نے امریکی عوام میں سنسنی اور اشتعال کو جنم دیا۔ W.R Hearst نے اس جنگ کے دوران اپنے اخبار میں کئی نفرت آمیز اور اشتعال انگیز مضامین چھاپے۔ ایک موقع پر جب کیوبا میں موجود ایک اخباری نمائندہ نے اخبار کے مالک W.R Hearstکو ٹیلی گرام بھیجا کہ “اب ادھر کچھ خاص نہیں ہے” تو اخبار کے مالک W.R Hearst نے اپنے مشہور ترین ٹیلی گرام میں جواب دیا کہ “ You furnish the pictures and I’ll furnish the war “۔ W.R Hearst نے اس تمام صورتحال سے جہاں اپنے اخبار کی مقبولیت میں اضافہ کیا وہیں اس نے اپنے اخبار کے ذریعے اس جنگ کو اتنا ڈرامائی رنگ دے دیا کہ امریکی صدر کو جنگ میں حصہ لینے کے سرکاری بل پر دستخط کرنے پڑے۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ اخباری مسابقت کی بنیاد رکھنے والے ان دونوں اخباروں میں سے ایک کے مالک J Pulitzer کے نام پر Pulitzer Award ان صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو دیانت داری اور انتہائی جانفشانی سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔
Yellow Kid سے شروع ہونے والی صحافتی جنگ نے صحافت کے زریں اور اہم اصولوں کو پامال کیا۔ شروع میں دونوں اخبار مالکان Yellow Kidکے دعوے دار تھے کہ وہ اس کارٹون کی ملکیت کے حقوق رکھتے ہیں۔ ایک موقع پر معاملہ اتنا بڑھا کہ عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد فیصلہ ہوا کہ Yellow Kidکا کردار دونوں اخبار شائع کر سکتے ہیں، عدالت کا یہ حیرت انگیز فیصلہ آج بھی معمہ ہے۔ اس فیصلے کے بعد Yellow Kidکی دونوں اخباروں میں اشاعت ہونے لگی۔ مقابلے کی دوڑ اتنی تیزی سے آگے بڑھی کہ دونوں اخباری مالکان نے صحافتی اصولوں کو بری طرح روند ڈالا۔ سالوں تک نیویارک ورلڈ اور نیویارک جرنل اپنے اپنے مفادات اور کاروباری رقابت کے ذریعے صحافت کے پیشے کی حرمت کو داغدار کرتے رہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیویارک پریس کے ایڈیٹر Ervin Wardman نے دونوں اخباروں کی اس صحافتی بددیانتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پہلے نئی صحافت یا ننگی صحافت قرار دیا۔
ہر ٹی وی چینل پر چند سٹیج اداکاروں کو بٹھا کر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے جو ایک زمانے میں پیلی قمیض پہنے ییلو کڈ سے لیا جاتا تھا۔
سنسنی خیز رپورٹنگ میں حد سے تجاوز کے باعث صحافت کے معانی و مفہوم ہی بدل دیئے گئے تو Ervin Wardman نے اس اخباری کشمکش کوYellow Kid Journalism کا نام دیا جو بعد میں مختصر ہو کر Yellow Journalism رہ گیا۔ Yellow Kid نامی یہ کردار 1895ء تا 1898ء نیویارک کے اخبارات میں شائع ہوتا رہا پھر یہ انتہائی مقبول و پسندیدہ کردار لوگوں کے ذہنوں سے آہستہ آہستہ محو ہونے لگا اور پھر وقت کی گرد میں کہیں گم ہوگیا اور آج Yellow Kid نامی معروف کردار R.F Outcault Gallery میں یاد گار کے طور پر موجود ہے اور آج کی صحافت کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہے۔
پاکستانی صحافت بھی کاروباری رقابت کے ہاتھوں اپنی درخشندہ روایات سے محروم ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا ہمارے صحافیوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن آج کاروباری مسابقت کے باعث انہیں اپنے ہی مالکان اور ادارے کی جانب سے صحافتی اقدار کی خلاف ورزی پرمجبور کیا جاتا ہے۔ ہر ٹی وی چینل پر چند سٹیج اداکاروں کو بٹھا کر ان سے وہی کام لیا جا رہاہے جو ایک زمانے میں پیلی قمیض پہنے yellow kid سے لیا جاتا تھا۔ ہمارے صحافتی ادارے بھی ہماری حکومتوں پر پاک بھارت دوستی کے معاملے پراسی طرح سنسنی خیز خبروں اور تجزیوں کے ذریعے سخت گیر پالیسی اپنانے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں جیسے نیویارک جرنل اور نیویارک ورلڈ کی خبریں جنگ کے دنوں میں امریکی انتظامیہ کو جنگ پر اکسا رہی تھیں۔ زرد صحافت سے پاکستانی صحافت تک بہت کچھ نہیں بدلا۔