Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

زرد صحافت اور سنسنی خیزی

test-ghori

test-ghori

29 دسمبر, 2015
جہاں تک زرد صحافت کا تعلق ہے تو یہ وہ صحافتی چلن ہے جو تحقیق و منطق سے عاری، مصالحہ جات سے بھاری اور بے بنیاد خبروں بلکہ افواہوں کو بطور خبر پیش کرتا ہے۔ زرد صحافت کی آبیاری میں، سنسنی خیزی، ہلڑ بازی، سخت زبان، طنزیہ جملے اور چھوٹی باتوں کا بھی ہوّا بنانا شامل ہے
منہ کالا کروا ہی لیا ناں! مزید معلومات کے لیئے دیئے گئے لنک پر کلک کیجیئے!
شرم و حیا کو تار تار کر ڈالا! مزید جاننے کے لیئے یہاں کلک کیجیئے!
قوم کی لٹیا ڈبو دی! دیکھیے ایک اور شرم ناک حرکت فلاں سیاستدان کی!
فلاں سیاسی پارٹی کی اصلیت سامنے آگئی، بقیہ صفحہ 8 کالم 9 پر پڑھیئے۔
قربِ قیامت کے آثار نمودار! مزید تفصیلات 9 بجے کے خبر نامے میں!
جانیئے! کہاں کھیلی، کیوں کھیلی، کس نے کھیلی، کس سے کھیلی، خون کی ہولی! خون کی ہولی!
پانی سے چلنے والی گاڑی ایجاد! نوبل پرائز ہمارا ہوا! فلاں صوبہ! فلاں دھرتی کا سپوت زندہ باد!
بھگوڑی بیوی، آشنا کے ساتھ فرار! پیچھے چھوڑ دی شوہر کی مردہ لاش!
آپ مانیں یا نہ مانیں منرجہ بالا سطریں حقیقی خبروں اور سرخیوں سے ماخوذ ہیں۔ اور ان کے بنانے والے ذرا بھی شرمندہ نہیں ہیں!

آپ کو مندرجہ بالا کوتاہیوں کے حق میں دیئے جانے والے انتہائی مقبول دلیل کی مثال دیتا ہوں، بقول کئی ’میڈیا پرسنز‘ کہ: ’آزاد میڈیا ایک شیر خوار، نونہال ہے، جس کے قیام کو صرف 12 سال ہی بیتے ہیں۔ اب اس طرح کا ناتجربہ کار ’میڈیا‘ غلطیاں نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔‘ اس بیانیے میں12 سال پرانے سے مراد، جیو نیوز سے شروع ہونے والا دور ہے۔ ایسے بیان دینے والے افراد صحافی نہیں، البتہ صنعتِ ابلاغ کے ملازمین ضرور ہوتے ہیں۔ یہ ایک صنعت کو جسے عاقل، بالغ افراد چلا رہے ہیں، انسانی بچے سے تشبیہہ دیتے ہیں جو عام منطقی مغالطوں کی ایک بھدی مثال ہے۔ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا اور اس بناء پر ذرائع ابلاغ کو غیر ذمہ دارانہ صحافت کی گنجائش نہیں دے سکتا۔

میرے خیال میں تو برِ صغیر میں صحافت کوئی 160 سالی پرانی حقیقت ہے۔ تحریک آزادی میں ہماری بے باک صحافتی روایت کا گراں قدر حصہ ہے۔ اس پیشے کی اہمیت کے پیش نظر بابائے قوم نے بھی ایک اخبار کی داغ بیل ڈالی تھی! یہ جو ہمارا سرکاری ٹی۔وی ہے، یہ بھی ابتداء میں ایک غیر سرکاری منصوبہ تھا لیکن بعد میں اسے قومیا لیا گیا تھا۔ اگر اشارہ دیگر نجی اداروں کی طرف تھا تو، شالیمار ٹیلی وژن نیٹ ورک بھی بہت پرانا ہے، پھر نجی ریڈیو چینلز کی بھی بھرمار رہی ہے۔ اور اگر رونا پیشہ ور صحافیوں کا ہے تو صحافت کی تعلیم کئی دہائیوں سے دی جا رہی ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں کئی تعلیمی اداروں نے صحافت کی اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کیا ہے۔ پریس کلب جاکر پتہ کرلیجے کتنے اخبارات روزانہ چھپتے ہیں، کسی بزرگ صحافی سے پوچھ لینا سنسر شپ کیا ہوتی ہے، اور یہ بھی کہ سچ بولنے پر کیسی کیسی سزائیں ملی تھیں۔ روح کانپ جائے گی! اگر دیسی اخبارات پر اعتبار نہیں، تو بی-بی-سی ورلڈ نیوز، رائٹر اور اے-ایف-پی کا پوچھ لینا، ان اداروں پر تو اعتبار ہے ناں! ان میں بھی مقامی صحافی حضرات نے ہی خدمات انجام دی تھیں اور دے رہے ہیں، اور عالمی معیار کے مطابق صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، لہٰذا یہ دلیل کے میڈیا تو ننھا منّا ہے غلط ثابت ہوتی ہے۔

ہر چینل ایک کارپوریٹ ادارہ ہے جو پیسہ کمانا چاہتا ہے، یہ پیسہ، اشتہارات کی بدولت کمایا جاتا ہے۔ اشتہار چلانے والی کمپنیاں یہ نہیں دیکھتیں کہ کیا ‘دِکھ’ رہا ہے، وہ تو بس یہ پوچھتی ہیں کتنا ‘دِکھ’ رہا ہے۔
جہاں تک زرد صحافت کا تعلق ہے تو یہ وہ صحافتی چلن ہے جو تحقیق و منطق سے عاری، مصالحہ جات سے بھاری اور بے بنیاد خبروں بلکہ افواہوں کو بطور خبر پیش کرتا ہے۔ زرد صحافت کی آبیاری میں، سنسنی خیزی، ہلڑ بازی، سخت زبان، طنزیہ جملے اور چھوٹی باتوں کا بھی ہوّا بنانا شامل ہے۔ آج کے دور میں، زرد صحافت انتہائی معیوب لقب ہے اور یہ غیر معیاری سے لےکر، نا تجربہ کار اور غیر اخلاقی صحافت تک کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ سنسنی خیزی سے مراد، ادارت کا وہ غیر معیاری طریقہِ کار اور ترجیحات ہیں جن کے ذریعے عام خبریں، حقائق اور معاملات کو عوام کے سامنے مبالغے کی حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً دو اہم شخصیات کی ملاقات کو حکومت کے دھڑن تختے تک پہنچا دینا۔

لوگوں کے جذبات سے کھیلنا، حقائق کو چھپانا یا بڑھا چڑھا کر بتانا، کسی واقعے کا صرف ایک رخ دکھانا یا بیان کرتے وقت معاملے کو سراسر بدل ڈالنا۔ مثلاً ایک جگہ، پولیس کے لیئے مختص نشستوں کو خالی دکھانا اور فوراً کہہ دینا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل ہیں، حالانکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت کسی مسئلے کو نمٹا رہے ہوں یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دے کر جا چکے ہوں۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی بھی بات کی تصدیق نہ ہوسکی اور ادارے کو بدنام کردیا گیا۔ مزید نقصان اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی دوسرا چینل اس سے بھی زیادہ آدھی اور ادھوری ‘خبر’ پیش کرتا ہے اور سارا زور صرف سبقت لے جانے پر ہوتا ہے۔ سچائی سے کسی کا کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ ایسی رپورٹنگ سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہوتا ہے، صرف وقت ضائع ہوتا ہے۔ سنسنی خیزی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جنسی جرائم یا بے بنیاد سکینڈلز کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا جائے کہ پڑھنے والا اسے لذت کے حصول کے لیے پڑھے۔ اس ضمن میں جسمانی نمائش، گلیمر یا جنسی کج رویوں کی تبلیغ کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔

زرد صحافت کم و بیش، زر پرستی کی پیداوار ہے۔ ہر چینل ایک کارپوریٹ ادارہ ہے جو پیسہ کمانا چاہتا ہے، یہ پیسہ، اشتہارات کی بدولت کمایا جاتا ہے۔ اشتہار چلانے والی کمپنیاں یہ نہیں دیکھتیں کہ کیا ‘دِکھ’ رہا ہے، وہ تو بس یہ پوچھتی ہیں کتنا ‘دِکھ’ رہا ہے۔ جو چینل زیادہ دکھتا ہے، اس کا ایئر ٹائم اتنا ہی مہنگا بکتا ہے۔ یہ زیادہ دِکھنا ٹی-آر-پی یا ٹارگٹ ریٹنگ پوائنٹ سسٹم کے ذریعے ماپا جاتا ہے۔ اس نظام کا مقصد یہ ناپنا ہوتا ہے کہ کون سا چینل کس وقت زیادہ دیکھا گیا، اور بس! یہ سسٹم یہ نہیں ناپ سکتا کہ اگلے نے بعد میں چینل، یا اس پر چلنے والے پرگرام کی تعریف کی یا اس کو گالیاں دیں۔

میڈیا صرف اشتہار بنانے اور چلوانے والے اداروں کی مرضی کا محتاج لگتا ہے اور صحافت کا وقار سرمایہ پرستی کے سامنے مجروح لگتا ہے۔
پاکستان میں ٹی آر پی کا نظام بھی ناقص اور بے حد محدود ہے۔ پاکستان بھر میں کم و بیش 600 سے 800 گھرانوں میں یہ سسٹم نصب تھا، سنا ہے کہ حال ہی میں یہ تعداد 1000 سے 2000 تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی گنتی کے ان گھرانوں میں جو چینل زیادہ دیکھا جا رہا ہےفرض کر لیا جاتا ہے کہ وہی پورے پاکستان نے دیکھا! ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹی آر پی نظام کی تمام تر تنصیب شہری علاقوں میں ہے دیہی علاقہ جات کے رحجانات ماپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں۔
اس نظام میں نمونے کا اس قدر مختصر ہونا ایک بہت بڑ ا مسئلہ ہے! سائنس و تحقیق بالخصوص عمرانیات میں کہا جاتا ہے کہ جتنا زیادہ وسیع اور متنوع نمونہ تحقیق کے لیے منتخب کیا جائے گاتحقیق کے نتائج اسی قدر معتبر ہوں گے۔ نمونے کے انتخاب کی شرح کی حد بھی مقرر ہے اور وہ حد ہے، 10 تا 20 فیصد۔ پاکستان بھر کے گھرانوں میں دیکھے جانے والے پروگراموں اور ٹی وی چینلوں کا اگر اندازہ لگانا ہے تو کلُ آبادی کا کم از کم 10 فیصد نمونہ منتخب کیا جانا چاہیئے۔ 22 کروڑ عوام کا دس فی صد دو کروڑ بیس لاکھ بنتا ہے، کہاں دو کروڑ بیس لاکھ اور کہاں محض دو ہزار۔۔۔۔ تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

اس ناقص نمونے کی بنیاد پر شروع کیے گئے ٹی وی پروگراموں کا معیار نہایت پست ہے۔ اس ضمن میں کئی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں جن میں سے ایک، ’آزاد، خودمختار اور ذمہ دار‘ ذرائع ابلاغ اور صحافت کی ترویج و تبلیغ ہے۔ سند یافتہ صحافیوں کی بھرتی کے باوجود زیادہ تر افراد بنیادی صحافتی اخلاقیات سے ناواقف ہیں یا انہیں اہمیت ہی نہیں دیتے جس کی ایک بڑی وجہ میڈیا مالکان کا کاروباری پس منظر ہے۔ آپ کسی بھی نام نہاد میڈیا پرسن سے پوچھ لیں وہ آپ کو اس بارے میں ککھ نہیں بتا سکے گا! اس کی تان جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے پر آکر ٹوٹ جائے گی۔ پاکستان میں دھکم پیل کر کے میڈیا حکومتی اثر سے آزاد و خودمختار تو ہوگیا ہے، لیکن ذمہ دار بالکل نہیں۔
چند ادارے میڈیا کو حقیقی طور پرآزاد و ذمہ دار بنانے کے لیئے کوشاں ہیں، لیکن ان کی کاوشوں کو مزید تقویت پہنچانےکی ضرورت ہے۔ جو ادارے اس کاوش میں سرِ فہرست ہیں ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:

Individualland’s FIRM – Free Responsible & Independent Media
Mishal Pakistan’s Pakistan Media Credibility Lab
IoBM’s PCMF – Pakistan Citizens Media Forum

ان اداروں کی موجودگی خوش آئیند ہے، لیکن ان کا اثر و رسوخ بے حد محدود ہے۔ میڈیا صرف اشتہار بنانے اور چلوانے والے اداروں کی مرضی کا محتاج لگتا ہے اور صحافت کا وقار سرمایہ پرستی کے سامنے مجروح لگتا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ صحافت ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں وہی کردار ادا کرے جو اس کو زیب دیتا ہے تو ہمیں صحافت کو اشتہارات کی غلامی سے آزاد کروانا ہوگا!