8 نومبر 2006ء کا دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس وقت میں کالج کا طالب علم تھا اور حسب معمول کالج جارہا تھا۔ درگئی (ضلع مالاکنڈ) بازار کے مرکزی چوک پہنچتے ہی ہماری گاڑی کی طرف ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور پھر دھماکے کی آواز۔ ہم نے اس وقت تک خودکش دھماکے کا نام تک نہیں سنا تھا لیکن کالج پہنچنے پر معلوم ہوا کہ درگئی کے پنجاب رجمنٹ سنٹر پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب فوجی جوان معمول کی تربیت حاصل کر رہے تھے۔ کالج سے رجمنٹ سنٹر کا راستہ قریباً 10 منٹ میں طے کیا تو دور سے ہی خون آلود لاشیں نظر آنا شروع ہوگئیں، قریب جانے کی ہمت نہیں پڑی، دور ہی دور سے ‘تماشا’ دیکھ کر ہم ہسپتال پہنچ گئے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہسپتال میں زخمیوں کو خون کی اشد ضرورت ہے۔ وہاں پر قیامت صغریٰ کی کیفیت تھی۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں اور زخمی تڑپ تڑپ کر فریاد کررہے تھے۔ 9 نومبر کو سنا کہ یہ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولہ میں واقع ایک دینی مدرسے پر اس حملے کا ردعمل تھا جس میں 82 لوگ مارے گئے تھے۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر 2001 میں امریکہ کی افغان مداخلت اور پاکستانی افواج کی طالبان کے حوالے سے اپنائی گئی دوغلی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی میں شدت نوے کی دہائی میں اس وقت آئی جب تکفیری جہادی تنظیموں کے اراکین نے دیگر مسالک کے پیروکاروں کے خلاف حملے شروع کیے۔ لیکن دہشت گردی کی حالیہ لہر 2001 میں امریکہ کی افغان مداخلت اور پاکستانی افواج کی طالبان کے حوالے سے اپنائی گئی دوغلی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ خصوصاً کشمیر جہاد پر پابندی عائد کرنے اور دوسری طرف افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دینے کی وجہ سے پاکستانی جہادی تنظیموں نے بھی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز کیا۔ تاہم پاکستان بھر میں دہشت گردی کو غیر ضروری عوامل کی بناء پر ‘جائز’ قرار دیا جاتا رہا۔ ہماری اس وقت کی فوجی قیادت (جو ملک پر حکومت بھی کر رہی تھی) یہ ادراک کرنے میں ناکام رہی کہ طالبان دہشت گرد امریکی حملے سے قبل بھی پاکستانی "اثاثہ” نہیں بلکہ دشمن ہی تھے۔

دہشت گردی کے واقعات پاکستان افواج کی دوسرے ممالک پر دباو ڈالنے کے لیے جہادی تنظیموں کی تشکیل اور سرپرستی کی غلط پالیسی اپنانے کے بعد سے ایک تسلسل سے جاری ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں اعدادوشمار اور معلومات کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں۔ سال 2000 کراچی اور حیدرآباد میں دو بم دھماکوں میں 12 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اگلے سال (2001ء) میں بہاولپور کے ایک گرجا گھر کو نشانہ بنایا گیا جس میں 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ سال 2002ء میں کل 14 بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں کم از کم 92 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک امریکی سفارتکار، اس کی بیٹی اور معروف صحافی ڈینئیل پرل بھی شامل ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات پاکستان افواج کی دوسرے ممالک پر دباو ڈالنے کے لیے جہادی تنظیموں کی تشکیل اور سرپرستی کی غلط پالیسی اپنانے کے بعد سے ایک تسلسل سے جاری ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں اعدادوشمار اور معلومات کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں۔
سال 2003ء میں 8 کے قریب دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے جن میں 50 سے زائد افرادجاں بحق ہوئے۔ اسی طرح سال 2004ء میں 18 دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 200 کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔

سال 2005ء میں دہشتگردی کے قریباً 11 بڑے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 105 کے قریب لوگ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔

سال 2006 میں 657 مختلف واقعات میں 907 سے زائد لوگ مارے گئے۔ ان واقعات میں 40 فرقہ وارانہ واقعات بھی شامل تھے۔

سال 2007ء میں دہشت گردی کے تقریباً 1503 واقعات رونما ہوئے جن میں 20 خودکش دھماکے بھی شامل تھے جن میں سے زیادہ تر میں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں 3448 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سال 2008ء میں 2148 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ہلاکتوں کی تعداد 973 بتائی گئی ہے۔

سال 2009ء میں 2586 کے قریب واقعات رونما ہوئے جن میں سے زیادہ تر فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر کئے گئے حملے تھے۔ ان حملوں میں 3021 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ۔

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران ہزاروں لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں، لیکن ہم نے سانحہ پشاور سے قبل مذہبی بنیادوں پر جاری دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی جرات مندانہ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
سال 2010ء پاکستان کے لیے ایک خونی سال ثابت ہوا جس میں 2000کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔

سال 2011ء میں بھی پاکستان محفوظ نہ رہا اور قریباً 400 سے زائد افراد دہشت گردی کے مختلف واقعات میں لقمہ اجل بنے۔

سال 2012ء ایک بار پھر پاکستان کے لیے ایک خونی سال ثابت ہوا جس میں دہشت گردی کے تقریباً 214 واقعات رونما ہوئے۔ اسی سال ایک ہی دن میں کئی حملے پاکستانی عوام نے دیکھے اور ہزاروں لوگ اسی واقعات میں لقمہ اجل بنے۔

سال 2013ء میں قریباً 72 ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو صرف رپورٹ کیا گیا لیکن ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

سال 2014ء وہی بدقسمت سال ہے جس میں آرمی پبلک سکول پشاور کے ساتھ ساتھ 8 جون کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ، واہگہ بارڈر، پاکستان نیوی کے پی این ایس ذوالفقار، ایس ایس پی چوہدری اسلم اور کوئٹہ کے پی اے ایف بیس پر حملہ بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اس سال 315 سے زائد افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

سال 2015ء ختم ہونے کو ہے لیکن یہ سال بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان، قبائلی علاقہ جات، اقلیتوں اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک خونی سال ثابت ہوا ہے جس میں 206 کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اب تک دہشت گردی کے ہاتھوں پچاس سے ستر ہزار تک افراد گنوا چکا ہے۔

یہ مختصراً وہ واقعات ہیں جو پاکستانی یا بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیے گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں اسی تعداد میں لوگ دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں بلکہ کئی ایسے علاقے اب بھی ہیں جہاں تک ذرائع ابلاغ کی رسائی ممکن نہیں اور نہ ہی وہاں پر ہونے والے واقعات ہم تک پہنچ سکے ہیں۔

یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے اورپتہ نہیں کب تک جاری رہےگا۔ پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران ہزاروں لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں، لیکن ہم نے سانحہ پشاور سے قبل مذہبی بنیادوں پر جاری دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی جرات مندانہ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ خٰیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں جاری آپریشن اور اس سے پہلے ہزاروں لوگ اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لاکھوں بے سر و سامان اور بے یار و مددگار مختلف کیمپوں اور خیموں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہم نے سانحہ پشاور اور ضرب عضب سے پہلے ایسے ہی سنحات کو سازش، غیر ملکی ہاتھ، امن مذاکرات اور مذہب کے نام پر دہشت گردی قرار دینے اور متحد ہونے سے انکار کیا، 16 دسمبر 2014 سے قبل نہ تو پاکستانی میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کا بیڑا اٹھایا اور نہ ہی کسی نے کوئی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ہم ابھی بھی بے گھر افراد کے نام پر وصول ہونے والے فنڈز کے صحیح استعمال پر آمادہ نہیں، فاٹا میں اصلاحات کے لیے فعال نہیں اور مذہبی دہشت گردی کے خلاف امن پسند بیانیے کی تشکیل و ترویج کے لیے متحرک نہیں۔

یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ہرگز کسی کی نیت پر شک کا اظہار کرنا نہیں بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ 16 دسمبر 2014ء سے پہلے بھی بہت سے لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں ان کی قربانی بھلانا ان کی ارواح کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
16 جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور پاک فوج کے ترجمان (ڈی جی آئی ایس پی آر) کے مطابق اس دوران 3400 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، ان کے 837 خفیہ ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں اور خفیہ اطلاعات کی بنیا د پر 13200 آپریشن کیے گئے ہیں جن میں 183 خطرناک دہشت گرد مارے گئے جبکہ 21193 گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کارروائیوں میں 488 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق جبکہ 1914 زخمی ہوچکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں کارروائیاں، گرفتاریاں اور دہشت گردوں کی ہلاکتیں دہشت گردوں سے پاک ایک خوش کن تصویر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن اس آپریشن کی شفافیت پر بھی لوگوں کی طرف سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں دہشت گرد مارے جاچکے ہیں تو میڈیا یا عام لوگوں کی نظروں سے کیو ں اوجھل ہیں؟ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان تفریق کی پالیسی ترک کی گئی ہے یا نہیں؟ اگر دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی گئی ہے اور اب وہ کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو پھر کراچی، کوئٹہ، پشاور، پارا چنار اور لاہور میں دہشت گردانہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟

یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ہرگز کسی کی نیت پر شک کا اظہار کرنا نہیں بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ 16 دسمبر 2014ء سے پہلے بھی بہت سے لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں ان کی قربانی بھلانا ان کی ارواح کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اگر ہم اے پی ایس کے شہداء کی یاد میں سکولوں کو ان کے ناموں کے ساتھ منسوب کررہے ہیں، عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، شمعیں روشن کی جا رہی ہیں، بڑے بڑے سیمینار کرائے جا رہے ہیں لیکن شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ ان بچوں کی شہادت کے بعد ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایسے واقعات کو آئندہ روکنے کے قابل ہو گئے ہیں؟ کیا یہ طے کیا جا چکا ہے کہ مستقبل میں ہماری ریاست جہادی تنظیموں کی سرپرستی نہیں کرے گی؟ یہ سوالات میں آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں اور درخواست بھی کروں گا کہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی یاد کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے اس جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

Leave a Reply