Laaltain

ریفری‎

9 ستمبر، 2016
Picture of جنید الدین

جنید الدین

‘م’ نامی سڑک کے کنارے پر واقع ‘ص’ نامی رہائشی پلازے کی پہلی منزل کے نکڑ والے کمرے میں جو اپنے مثلث نما یعنی ٹیڑھے نقشے کی وجہ سے وکٹر ہیوگو کے عظیم ناول کبڑے عاشق کے مرکزی کردار کواسمودو کی یاد دلاتا تھا، میں، کیکاوس، سوموار کی صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے پیشاب کرنے کےلئے بستر سے اٹھا اور پیشاب کر کے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ تو چارپائی پہ سویا ہوا ہے۔ سونے والے نے یعنی اس نے خود ہی سبز رنگ کا ٹراؤزر پہن رکھا تھا جس کی پنڈلی کی باہرلی طرف پیلے اور سیاہ رنگ کی دھاریاں بنی ہوئی تھیں۔ عام طور پر اس طرح کے ڈیزائن دار ٹراؤزر کھلاڑی پہنتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کرکٹ اور ہاکی کے ہوتے ہیں۔ اس ٹراؤزر کے اوپر اس نے نیلے رنگ کے کپڑے کی ڈھیلی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے ڈیزائن سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ بازار سے کم قیمت کسی ایسے درزی سے سلی ہوئی ہے جو زمانے کی رفتار سے تھک کر بڑھے بوڑھوں کے کپڑے سینے تک محدود ہو چکا ہے۔

 

اگر وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا اور جتنا بھی صاف ہوتا تو وہ اس بو کو نہ بھگا سکتا جو صرف ایک غیر مذہب ہی سونگھ سکتا ہے۔
تقریباً پانچ فٹ آٹھ انچ کا بائیس سالہ نوجوان ستتر کلو کی جسامت سے کسی آلو کی بوری کی طرح بستر پہ پڑا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے اسے یعنی خود کو جگانے کی ناکام کوشش کی اور بالآخر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ اس نے سگریٹ جلائی جو وہ اکثر رات کو دوستوں سے چوری چھپے اپنے بستر کے نیچے رکھ دیا کرتا تھا تاکہ صبح نہار منہ اس کو پی سکے۔ ایک دن کلاس میں اس نے ایک لیکچرر سے سنا تھا کہ سگریٹ دو ہی وقت مزہ دیتی ہے، ایک بستر سے اٹھ کر نہار منہ اور دوسرا رات کو سوتے وقت۔ اگر چہ لیکچرر کے بر خلاف اس نے دو سے زیادہ پینے والی عادت کو نہ چھوڑا مگر اس کے ٹائم ٹیبل کو مان لیا اور اب اس پہ ہی عمل پیرا تھا۔ ایک دو کش لیتے ہی سگریٹ نے اس کے دماغ کے غنودگی زدہ گھوڑے کو جگا دیا جو کہ اکثر نوجوان اور فلسفی سوچتے ہیں اور اس کا رخ اس نوجوان کے چہرے کی طرف مڑ گیا۔ اگر وہ سگریٹ نہ پی رہا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یقینناً اسے بستر پہ اپنے آپ کو پڑے دیکھ کر جھر جھری آ جاتی۔ پتلے بغیر کنگھی کیے ہوئے بال جن کو دھوئے ہوئے نجانے کتنے دن ہو چکے تھے، کھلا منہ اس کے اندر بغیر برش ہوئے پیلے دانت اور بڑھی ہوئی داڑھی اور مونچھیں جو موٹے نقوش پہ اور بھی بھدی لگنے لگتی ہیں۔۔۔۔ بالکل داتا دربار کے باہر فٹ پاتھ پر پڑے کسی ملنگ کی مافک جس کے بالوں سے مٹی نکال دی گئی ہو اور صاف اور مکمل کپڑے پہنا دیے گئے ہوں۔۔۔۔ اسے اس کے دوستوں کے متعلق تشویش ہونے لگی کہ کیا یہ ہم مذہبی تھی جو وہ اسے اس حال میں بھی برداشت کر رہے تھے یعنی اگر وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا اور جتنا بھی صاف ہوتا تو وہ اس بو کو نہ بھگا سکتا جو صرف ایک غیر مذہب ہی سونگھ سکتا ہے۔ اس نے گئے دنوں میں اس کے ہاں کام کرنے والے عیسائی جونی سائی کو یاد کیا جس کے برتن اس کے گھر والوں نے باقی مزارعوں کے برعکس علیحدہ رکھے تھے یا وہ نوجوان مارکسسٹ جن کے نزدیک دوسرے انسان سے نفرت صرف طبقاتی تقسیم کے معاملے میں ہوتی ہے جیسا عظیم کامریڈ میکسم گورکی نے کہا تھا کہ لوگ یا تو ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔۔۔ تمام محنت کش ہمارے دوست ہیں اور تمام سرمایہ دار و جاگیر دار ہمارے دشمن۔۔۔۔ کیا سب ہاسٹل میں رہنے والے مارکسی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں؟ نہیں مگر زیادہ تر!

 

وہ ایسے ہی بہت ساری باتیں سوچ رہا ہوتا مگر اتنے میں اس کے بستر پہ لیٹے نوجوان کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے کسی لمحے کا انتظار کیے بغیر اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور اس کے بستر پہ کیا کر رہا ہے؟ اس نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی بہروپیا ہے جس نے ٹی وی اور تھیٹر کی وجہ سے اپنا اصل کام چھوڑ کر چوری چکاری شروع کر دی ہے اور اب بھی اپنے پرانے فن سے مدد لیتا ہے۔۔۔ مگر اس نے اسے بالکل نظرانداز کر دیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ اس نے اس کے ساتھ والے بستر پہ لیٹے وسیم کو جگانے کی کوشش کی جو اس کی ہی یونیورسٹی میں ماحولیات میں گریجوایشن کر رہا تھا مگر اس نے بھی کوئی جنبش نہ کی۔ تھک ہار کر وہ بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو باتھ روم جاتے دیکھا۔ دس پندرہ منٹ بعد وہ باہر نکلا اور کپڑے پہننے لگ گیا۔ اس نے اسے کہا کہ آج حبس اور گرمی بڑھ گئی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ نہا لے لیکن جواب ندارد اسے رہ رہ کر اس پہ غصہ آ رہا تھا۔۔ تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے نے وسیم کو جگایا کہ دروازہ بند کر لے اور باہر نکل گیا۔

 

اسے لگا کہ اس کا وزن اس کے گناہوں سے بھی زیادہ ہے اور شاید اس کی بخشش صرف اپنا آپ اٹھائے رکھنے سے ہی ہو جائے گی۔
سڑک پر پہنچنے پر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دوست کا انتظار کیے بغیر جو گاڑی سے یونیورسٹی جاتا تھا، بس پر جائے گا اور ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔ ٹکٹ لینے کے بعد جب وہ بس کی طرف جانے کے لئے سیڑھیوں کی جانب بڑھا تو دیکھا کہ بجلی نہ ہونے کے سبب وہ بند پڑی ہیں اور پیدل اوپر جانے کے خیال سے اس کا سانس رکنے لگا۔ اسے لگا کہ اس کا وزن اس کے گناہوں سے بھی زیادہ ہے اور شاید اس کی بخشش صرف اپنا آپ اٹھائے رکھنے سے ہی ہو جائے گی۔ وہ اکثر آخرت میں ملنے والی سزا کا دنیا ہی میں ہونے والی معمولی قسم کی چیزوں سے موازنہ کیا کرتا تھا جیسے وہ اپنے ایک دوست بلال کو کہتا تھا کہ وہ آخرت کا عذاب دنیا میں گھٹیا موبائل استعمال کرنے کی صورت میں بھگت رہا ہے۔۔۔۔۔ آخر اس نے ہمت باندھی اور اوپر چڑھنے لگا۔ اوپر پہنچ کر اس نے ٹوکن چیک کروایا اور آگے بڑھ گیا۔ ابھی پلیٹ فارم پہ پہنچا ہی تھا کہ گاڑی آ گئی. دروازہ کھلا اور اندر داخل ہو گیا. کیکاؤس بھی ساتھ ہی تھا مگر کوئی بھی اسے دیکھ یا محسوس نہیں کر رہا تھا۔ گاڑی کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور رش کی وجہ سے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ یہ تمام بھیڑ جس میں زیادہ تر تعداد داتا صاحب، شاہ عالمی چوک اور اردو بازار میں کام کرنے والوں کی تھی اپنی وضح قطح سے صاف پہچانی جا سکتی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے رنگوں والی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے جن کے بارے آسانی سے بتایا نہیں جا سکتا اکثر دیہاتوں میں اسے سفیانے یا ٹسری رنگ کی طرز کے نام دیے ہوتے ہیں اور پاؤں میں چائنہ کے جوتے، سستی چپلیں اور اکثر کے موبائل نوے کے عشرے کے ہندی گانوں کی ٹیون لیے بج اٹھتے۔ ان میں سے کوئی بھی سارے راستہ نہ اترا اور بالآخر اس کا سٹاپ آ گیا۔ کیکاؤس بھی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے باہر نکلا اور خود کے ساتھ ہو لیا۔ نیچے اتر کر اس نے سڑک پار کی۔ بے ہنگم اژدھام کی وجہ سے سڑک پار کرنا اسے فتح کرنے جیسا لگتا تھا اور یونیورسٹی میں داخل ہو گیا۔ داخل ہوتے ہی ایک چوکیدار نے اسے روک لیا اور کارڈ دکھانے کا تقاضہ کیا۔ اس نے کارڈ نکالا اور بغیر کسی تاثر کے چوکیدار کے آگے کر دیا۔ کیکاؤس نے خود کو انتہائی غصہ سے دیکھا اور کہا کہ اسے چوکیدار کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ بہت عرصہ سے یہاں سے گزر رہا ہے اور اس کا یوں اس طرح روکے جانا اس کے وجود کی نفی ہے کہ کوئی بھی اس کے بارے میں نہیں سوچتا۔ مگر اسے کوئی جواب نہ دیا گیا۔

 

چوکیدار سے نپٹ کر وہ غسل خانے گیا تاکہ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے منہ دھو لے کہ کچھ تازہ لگ سکے اور اس شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا جس کے بارے میں اسے لگتا تھا کہ وہ اسے کافی اچھا دکھاتا ہے۔ وہ شیشوں کی نفسیات اور شکل کے معاملے میں اکثر پریشان رہا کہ اس کا چہرہ کیسا ہے کیا وہ اتنا ہی پیارہ ہے جتنا اس شیشہ میں نظر آتا تھا یا اتنا ہی بھدا جتنا کہ ساتھ والے شیشہ میں۔ منہ دھو کر وہ باہر نکلا اور اس راستے سے کلاس میں جانے لگا جہاں وہ کم سے کم کسی کو نظر آسکے۔ اور کلاس میں چلا گیا۔ کلاس ختم ہونے پر بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے وہ باہر نکلا اور صحن میں لگے ہوئے بینچ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا جہاں اور بھی لڑکے جمع تھے۔ اس خوف سے کہ کوئی اسے مذاق کا ہدف بنائے اس نے کوشش کی کہ باتوں کو کسی اور موضوع کی طرف موڑ دے اور کامیاب ہو گیا۔

 

چوکیدار سے نپٹ کر وہ غسل خانے گیا تاکہ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے منہ دھو لے کہ کچھ تازہ لگ سکے اور اس شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا جس کے بارے میں اسے لگتا تھا کہ وہ اسے کافی اچھا دکھاتا ہے۔
کیکاؤس کا غصہ اب چرچراہٹ میں تبدیل ہونے لگا تھا۔ وہ باقی لڑکوں کو ورغلانے لگا کہ اسے بےعزت کریں، جگتیں لگائیں مگر کوئی بھی اس کی باتوں میں نہ آیا۔ بالآخر وہ ان کے پاس سے اٹھا اور لائبریری چلا گیا اور فلسفہ وجودیت کے اوپر لکھی ایک کتاب پڑھنے لگا۔ وہ بھی اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس نظریہ کے اوپر لکھے ناولوں کے ورق کھنگالنے لگا۔ وہ جوں جوں انہیں پڑھتے گیا توں توں اسے ان کے کرداروں سے نفرت ہونے لگی۔ ایک ایک کردار اسے منافقت کا مینار لگ رہا تھا جسے جاننے اور نا جاننے والے سبھی پر شکستہ (رشک اور حسد کے ملے جلے تاثر) نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ سب زندگی سے اتنے تنگ تھے تو مر کیوں نہیں گئے انہوں نے دوسروں کو کیوں ورغلایا کہ زندہ رہنا قابل نفرت ہے۔ آخر دوستوئفسکی اور چیخوف نے ان سے بدتر زندگی گزاری تھی لیکن اس کے باوجود اس سے محبت کی حالانکہ وہ دونوں اپنے سے زیادہ دوسروں سے پیار کرتے تھے۔ اس نے دعا کی کہ اے پروردگار اس لڑکے کو جلدی سے اس سنسان کونے سے اٹھا تاکہ یہ ناامیدی کے اس حصار سے جو ان کتابوں نے کھینچ دیا تھا باہر نکلے۔ وہ یہ دعا مانگ ہی رہا تھا کہ لڑکے نے جیب سے موبائل نکالا۔ اس پہ ایک پیغام آیا ہوا تھا جس میں لکھا تھا کہ نیچے آؤ کھانا کھانے چلتے ہیں۔ اس نے کتاب بند کی اور نیچے دوست کے پاس چلا گیا۔ اس کے پہنچنے پر دو اور لڑکے جمع ہو گئے جو ان کے مشترکہ دوست تھے اور چاروں کینٹین کی طرف چل پڑے۔کینٹین پہنچ کر انہوں نے کھانے کا آرڈر دیا اور کھانے لگے۔ اس سب کے دوران کیکاؤس اپنے آپ کو ایک طرف بیٹھ کے دیکھتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے باقیوں سے اجازت لی اور اپنی رہائش گاہ پر جانے کے لئے چل پڑا۔

 

رہائش گاہ پر جا کر آرام کرنے کے خیال سے وہ خاصا پرجوش لگ رہا تھا، اس نے دعا مانگی کے بجلی نہ ہو تاکہ سیڑھیاں چڑھنے کے بہانے اس کا کھانا ہضم ہو جائے اور تھک بھی جائےلیکن اب کی بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، بجلی ہونے کی وجہ سے وہ ان پر کھڑا ہوا اور یک لخت اوپر پہنچ گیا۔ ٹکٹ کاؤنٹر پہ کوئی مسافر کھڑا نہ ہونے کی وجہ سے اس نے آسانی سے ٹکٹ لی اور بس پہ سوار ہو گیا۔ صبح کے قابل نفرت مسافر اب اتنے باعث نفرت نہیں لگ رہے تھے۔ شاید اسکی وجہ کم رش ہی تھا۔ سٹاپ پر پہنچ کر وہ نیچے اترا اور فلیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ فلیٹ کے لالچی چوکیدار نے جو اکثر اس سے سو پچاس مانگ لیا کرتا تھا اسے سلام کیا جس کا جواب اس نے ہاتھ ہلا کر دیا۔

 

کمرے میں پہنچتے ہی اس نے دروازہ بند کیا۔ کنڈی لگائی اور کپڑے اتار کے سو گیا۔ کیکاؤس نے کچھ دیر اس کے سونے کاانتظار کیا اور آنکھ لگتے ہی اس کے جسم میں گھس گیا۔

 

کچھ دیر بعد پورے دن کے حالات کو لے کر ان دونوں کرداروں نے آپس میں باتیں شروع کردیں جیسے فلسفی اوشو اور سوال کرنے والوں کے درمیان ہوتی ہیں۔ اس دوران اس کے جسم نے آخری سوال کیا کہ کب تک ہمیں اس طرح جینا ہو گا؟ یہ بوجھ کب تک اٹھائے رکھنا ہے؟

 

جب تک چار آدمی تمہیں اٹھا کر قبرستان تک نہیں چھوڑ آتے۔ اس نے جواب دیا اور دونوں خاموش ہو گئے۔

Image: Rook Floro

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *