[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
ریحانے جباری
[/vc_column_text][vc_column_text]
میں نے قتل کیا ہے
ایک مرد کو
جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
نہیں، ایک مرد کی پرچھائیں کو
میں نے قتل کیا ہے
ہاں میں نے قتل کیا ہے
تیز دھار چاقو سے
تا کہ خون بہے
اور بہتا رہے
چوتھی منزل سے
تفتیش گاہ کے تہہ خانے تک
جہاں مجھے کئی بار زندہ مار ڈالا گیا
اور میں نے لکھ دیا
بیانِ حلفی میں
جو انہوں نے کہا
تا کہ بادوک زندہ رہے
اور کسی اور ٹین ایجر کو چیرا توڑا نہ جا سکے
جیل میں اور عدالت میں
موجود ہونے کے باوجود
خدا مجھے نہیں بچا سکا
خدا انسانوں کے لیے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہے
آنکھ کے بدلے آنکھ
کان کے بدلے کان
جسم کے بدلے جسم
لیکن پرچھائیں کے بدلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری، بادلوں کی چھاؤں جیسی،
کم سِن روح کو پھانسی دے دی گئی
دیکھو تو، شب ختم ہونے سے قبل
میری صبح دار پر طلوع ہو چکی ہے
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاں کا محتاج نہیں رہا
ماں! مجھے دفن مت کرنا
قبروں کے شہر میں
ہوا کو دفن مت کرنا
اور ماتمی لباس پہن کر
رونا مت!
میں بے نشان رہنا
اور بے اشک بہنا چاہتی ہوں
اس زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں
جہاں ہوا، ابر اور آنسوؤں کی قبر بنائی جا سکے
مٹی میرا جوف، میرا اُطاق نہیں
ماں! دروازہ کھول
میرا راستہ ختم ہو گیا ہے!!
ایک مرد کو
جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
نہیں، ایک مرد کی پرچھائیں کو
میں نے قتل کیا ہے
ہاں میں نے قتل کیا ہے
تیز دھار چاقو سے
تا کہ خون بہے
اور بہتا رہے
چوتھی منزل سے
تفتیش گاہ کے تہہ خانے تک
جہاں مجھے کئی بار زندہ مار ڈالا گیا
اور میں نے لکھ دیا
بیانِ حلفی میں
جو انہوں نے کہا
تا کہ بادوک زندہ رہے
اور کسی اور ٹین ایجر کو چیرا توڑا نہ جا سکے
جیل میں اور عدالت میں
موجود ہونے کے باوجود
خدا مجھے نہیں بچا سکا
خدا انسانوں کے لیے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہے
آنکھ کے بدلے آنکھ
کان کے بدلے کان
جسم کے بدلے جسم
لیکن پرچھائیں کے بدلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری، بادلوں کی چھاؤں جیسی،
کم سِن روح کو پھانسی دے دی گئی
دیکھو تو، شب ختم ہونے سے قبل
میری صبح دار پر طلوع ہو چکی ہے
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاں کا محتاج نہیں رہا
ماں! مجھے دفن مت کرنا
قبروں کے شہر میں
ہوا کو دفن مت کرنا
اور ماتمی لباس پہن کر
رونا مت!
میں بے نشان رہنا
اور بے اشک بہنا چاہتی ہوں
اس زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں
جہاں ہوا، ابر اور آنسوؤں کی قبر بنائی جا سکے
مٹی میرا جوف، میرا اُطاق نہیں
ماں! دروازہ کھول
میرا راستہ ختم ہو گیا ہے!!
Image: Orkideh
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
Reyhaneh Jabbari
(Naseer Ahmed Nasir)
I have killed
a man
Who wanted to perforate into my body
No, silhouette of a man
I have killed
Yes, I have killed
with a sharp dagger
so that the blood may strain
and keep straining
from the fourth floor
to the basement of the interrogation cell
where I was thrown dead so many times, alive
And I confessed
whatever they asked me to
so that Baaduk may live and
yet another teenager doesn’t
get ripped and broken apart
In spite of being there
in the courtroom and in the prison
God was unable to save my skin
God is ordained by His own laws
made for the human beings
An eye for an eye
An ear for an ear
A body for a body
but what is for a shadow?
My fledgling soul was hanged
the soul, which was like the cloud cover
See, before the night ends
my dawn has broken on the gallows
My shadow less body no more needs
the sunshine or the shade
O mother! Do not inter me
In this necropolis
do not burry the wind
And don’t weep over me
wearing the mourning dress
I want to remain unmarked
and want to set sail tearless
Nowhere on this Earth is the place, where
The wind, the cloud and the tears can be buried
I do not belong to the dust
O mother!
Open the door
my trail has ended…!
(Translated from Urdu into English by Kamran Awan)