چوہدری نثارکی جانب سے مولانا عبدالعزیز کے حوالے سے سینیٹ میں دیے جانے والے بیان کے جواب میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں مولانا عبدالعزیز کے خلاف درج کی جانے والی دو ایف آئی آرز کی نقول جمع کروائی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 30 دسمبر کو سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبد العزیز کے بارے میں کہا تھا کہ "مولانا عبد العزیز کے خلاف تو کوئی کیس ہی نہیں ہے تو پھرپولیس مولانا عبدالعزیز کو کب تک پکڑ کر رکھ سکتی ہے”۔ مولانا عبد العزیز کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ نہ صرف دہشت گردوں کا حامی ہے بلکہ خود بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں شامل رہا ہے۔ لال مسجد کے یہ شدت پسند مولانا عبد العزیز اپنے خلاف قائم مقدمے میں ضمانت کروانے سے سرعام انکار کرتے رہے ہیں۔ پوری سول سوسائٹی مولانا عبد العزیز کی گرفتاری کے لیے احتجاج کر رہی ہے لیکن وہ پوری آزادی کے ساتھ سول سوسائٹی کے لوگوں کو دھمکانے اور دہشت گرد تنظیموں اور ان کے مذہبی نظریات کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں مذہبی جنون اور بربریت کا پرچار بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں یہاں آپریشن ہوا جس میں فوج کے کئی جوان ان دہشت گردوں کا نشانہ بنے، کئی گھر اجڑ گئے لیکن قاتل آج تک دندناتے پھر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان شہید جوانوں کی شہادت حکمرانوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔

چوہدری نثارکی جانب سے مولانا عبدالعزیز کے حوالے سے سینیٹ میں دیے جانے والے بیان کے جواب میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں مولانا عبدالعزیز کے خلاف درج کی جانے والی دو ایف آئی آرز کی نقول جمع کروائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ایک ایف آئی آر خود وزارت داخلہ کی جانب سے اکتوبر 2014ء میں درج کروائی گئی تھی۔ بعدمیں پولیس کی درخواست پر عدالت نے مولاناعبدالعزیز کو اشتہاری قرار دیا، جمع کروائے گئے دستاویزی ثبوت میں پولیس کا وہ بیان بھی شامل ہے جو عدالت میں عبدالعزیز کی روپوشی کے حوالے سے دیا گیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ سینیٹ میں ان اشتہارات کی کاپی بھی جمع کروائی گئی جو لال مسجد کے سابق خطیب کو اشتہاری قرار دینے کے لیے اخبارات میں شائع ہوئے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ پی ٹی اے کا وہ خط بھی سینیٹ میں جمع کروایا گیا ہے جس میں تمام موبائل کمپنیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ "جمعے کو خطبے کے وقت لال مسجد کے اردگرد کے علاقوں میں موبائل سروس بند رکھیں”۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سارے دستاویزی ثبوت موجود تھے تو پھر ان سے لاعلمی کا اظہار کیوں کیا گیا۔ "کیا وزیر داخلہ لاعلم تھے، ڈرے ہوئے تھے یا پھر مولانا عبدالعزیز کے ساتھ ملے ہوئے تھے؟”

مولانا عبدالعزیز نے دسمبر 2015ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 150 کے قریب بچوں کے قتل عام کی مذمت سے گریز کیا تھا جس کے بعد پاکستانی قوم میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے جمع کروائیں گئی ان تمام دستاویزات کو وزارت داخلہ بھجوا دیا ہےاور ساتھ ہی وزیر داخلہ کی 30 دسمبر والی تقریر کی کاپی بھی بھیجی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے وزیر داخلہ سے پوچھا ہے کہ آپ کے بیان اور ان دستاویزات میں موجود حقائق میں بڑا تضاد ہے، اس تضاد کی وضاحت کی جائے۔ نومبر 2015ء میں وفاقی حکومت نے قانون نافد کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کیونکہ ان کی سرگرمیاں امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ اس سلسلے میں سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کہتے ہیں کہ "مولانا عبدالعزیز کئی بار حکومت کی رٹ چیلنج کر چکے ہیں، انہیں طالبان اپنی مذاکراتی کمیٹی کا رکن نامزد کر چکے ہیں، اس کے بعد بھی چوہدری نثار اگر یہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ گچھ یا ان کے خلاف تحقیقات یا کسی قسم کی کارروائی کی ضرورت نہیں تو یہ غیر ذمہ دارنہ رویہ ہے”۔ چوہدری نثار کا مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسی واضح اور شفاف پالیسی ہے، مولانا عبدالعزیز سے متعلق بہت غلط بیانی کی گئی، تمام ریکارڈ قوم اور سینیٹ کے سامنے رکھوں گا۔

مولانا عبدالعزیز نے دسمبر 2015ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 150 کے قریب بچوں کے قتل عام کی مذمت سے گریز کیا تھا جس کے بعد پاکستانی قوم میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مولانا نے معافی مانگی تو حکومت نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اسی سلسلے میں لال مسجد کے باہر ہونے والے مظاہرے کے دوران سماجی کارکنان کو لال مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے ذریعے دھمکایا گیا تھا۔ چند مہینے پہلے پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے وزرات داخلہ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے انتہاپسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ تعلقات جڑواں شہروں کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اس معاملے پر پس و پیش سے کام کیوں لے رہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ لال مسجد کے عبدالعزیز ریاست کی طاقت سے خوفزدہ کیوں نہیں؟ جواب سیدھا سیدھا ہے کہ مولانا عبدالعزیز نہیں ڈریں گے کیوں کہ ریاست ڈر گئی ہے، ریاست کے عوام سہم گئے ہیں، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان سینکڑوں افراد کے قاتلوں کے مقدمات کی سماعت کے تصور سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں جبکہ ریاستی ادارے اپنی حفاظت میں مصروف ہیں۔ سینکڑوں ایسے مدارس آج بھی بے دھڑک چلائے جا رہے ہیں جن کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی رپورٹیں خود وزارت داخلہ اور خفیہ اداروں نے جاری کی ہیں۔

مولانا عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جذبہ جہاد کے شوق کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ جہاد میں اگر حالات کا تقاضا ہو تو پھر پچھے ہٹنا جرم نہیں، حکومت کی زمین پر مساجد اور مدارس بنانا جائز ہے۔ لال مسجد کے زیر سایہ مزید 28 مدارس کام کر رہے ہیں۔ 550 ملازمین کی تنخواہوں پر ماہانہ 28 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ 28 مدارس ملک بھر میں کام کر رہے ہیں اور ان کے اساتذہ، معلمات اور دیگر عملے کی تنخواہیں تقریباً 28 لاکھ روپے بنتی ہیں جو باقاعدگی سے دی جارہی ہیں لیکن مولانا عبدالعزیز نے اپنے ذرائع آمدن نہیں بتائے۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کو ہر ماہ تنخواہ مل جاتی ہےجبکہ دوسری طرف بہت سارے سرکاری اداروں میں کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ہے، جس کی ایک مثال "پاکستان اسٹیل مل” ہے۔

باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے سے لاتعلق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم حقیقتاً دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیت چکے ہیں
باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے سے لاتعلق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم حقیقتاً دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیت چکے ہیں مگر سیکورٹی اداروں پر بے جا تنقید سے ہمارا مورال گر رہا ہے یوں ہم نفسیاتی محاذ پر جنگ ہار رہے ہیں۔ یہ کیسی فتح ہے جس کا ذکر آرمی چیف کی طرف سے ابھی تک نہیں کیا گیا۔ یہ کیسی فتح ہے جس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتل پر عوام سے یہ شکوہ کیا جائے کہ تم لاشوں پر کیوں ماتم کر رہے ہو؟ جہاں تک نفسیاتی محاذ پر پسپائی کا تعلق ہے، تو کیا جب مولانا عبدالعزیز ریاست جمہوریت اور فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے، اس وقت ہم نفسیاتی محاذ پر کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ جب جماعت اسلامی کا سابق امیرمنور حسن پاکستانی فوجی کو شہید ماننے سے انکار کر دیتا ہے اس وقت بھی نفسیاتی محاذ پر ہمیں کوئی اثر نہیں پڑتا، داعش کے گروہ جب زیر زمیں سرگرمیوں میں اپنا نیٹ ورک وسیع کر رہے ہوتے ہیں تب بھی اور چارسدہ جیسے سانحات ہوتے ہیں تب بھی نفسیاتی محاذ پر ہم صحت مند ہوتے ہیں۔ مگرجب عوام اپنے پیاروں کے غم میں ماتم کرتے ہیں اور صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟ تو اس سوال کے پوچھے جانے سے ہمارا یہ نفسیاتی محاذ کمزور پڑ جاتا ہے۔

لگتا ہے آج کل چوہدری نثار کے ستارے گردش میں ہیں، ایک طرف ان پر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کے لئے دباو بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹایا جائے، سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمات کے ثبوت سینیٹ میں پیش کیے جانے کے بعد سینیٹرز نے چوہدری نثار پر سخت تنقید کی کہ وزیر داخلہ نے مولانا عبدالعزیز کے حوالے سے ایوان کو گمراہ کیا ہے۔ لال مسجدکے معاملے میں ہر پیش رفت حکمرانوں کی لاچارگی، ابہام اور نامرادی کی غمازی ہی کرتی ہے۔ ان تمام معاملات پر وزیر داخلہ کے بیانات نہ صرف متضاد ہیں بلکہ دہشت گردوں کےلیے ان کی "ہمدردی” کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ شاید ان کے مشورے پر ہی مولانا عبدالعزیز نے عدالت میں حاضر ہوکر اپنی ضمانت منظور کروائی ہے۔ اپنی ضمانت کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے مولاناعبدالعزیز نے چارسدہ اوراے پی ایس واقعہ کی شدید مذمت کی، ساتھ ہی انہوں نے پرویز مشرف کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پرویز مشرف سمیت لال مسجد کے تمام کرداروں کو معاف کرنے کا اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے کریں گے۔

مولانا عبدالعزیز جو پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا ہے، وہ اپنی ضمانت کے لیے عدالت میں بھی حاضر ہو جاتا ہے اور اپنے شدید مخالف پرویز مشرف سمیت لال مسجد کے تمام کرداروں کو معاف کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ایسا کیوں؟ ایسا شاید اس لیے ہے کہ مولانا عبدالعزیز کے ہمدرد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے لیے کافی مشکلات بڑھا لی ہیں، آنے والے دنوں میں یقیناً ان کے مخالف ان کے لیے مزید مشکلات بڑھانے کی کوشش کریں گے، ان کو ابھی سینٹ کو بھی جواب دینا ہے جہاں ان کے سیاسی مخالفین کی اکثریت ہے۔ وزیراعظم نو از شریف کو اگر اپنے غیر ملکی دوروں اور نمائشی منصوبوں کے افتتاح سے فرصت مل جائے تو اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور مولانا عبدالعزیز کے گٹھ جوڑ پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو ان کی حکومت کے لیے بہتر ہوگا۔

Leave a Reply