حکومت پاکستان اور طالبا ن کے درمیان جاری مذاکرات پہلے دن سے ہی متنازعہ ہیں۔ حکومت طالبان کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ خلوص دل کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جبکہ طالبان کو ہمیشہ ہی حکومت کی نیت پر شک رہتاہے۔کبھی مذاکراتی کمیٹیاں بہت گرم جوشی دکھاتی نظر آتی ہیں تو کبھی انتہائی سست روی کا شکار نظر آتی ہیں ۔کبھی جنگ بندی ہو جاتی ہے تو کبھی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس پوری کہانی میں جو غالب فریق ہے وہ طالبان گروہ ہی ہیں جب ان کا دل کرتا ہے مذاکرات کی کامیابی کے گن گانا شروع کر دیتے ہیں اور جب دل کرتا ہے حکومتی بد نیتی کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری جمہوری حکومت کھسیانی بلی کی طرح منت سماجت کرنا شروع کر دیتی ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں ، ہماری نیت پے شک نا کیا جائے ، ہم آپ کوخدا کا واسطہ دیتے ہیں، جو حکم صادر فرمائیں ہم بجا لائیں گےجبکہ طالبان اس مقدس جمہوری حکومت کو دھمکی پے دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی لایعنیت پر اگر کوئی پاکستانی شہری انگشت نمائی کرے تو فوراً ہی طالبان کمیٹی کے نمائندئے حرکت میں آ جاتے ہیں کہ مذاکرات کے دوران نوک جھونک ایک معمول کی بات ہے ، ابھی یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلے ہی ہوتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب بانفس نفیس مخاطب ہوتے ہیں کہ طالبان کے بیانات میں تلخی و نرمی کا آنا جانا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اور اس سے مذاکراتی عمل پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
مذاکراتی عمل کے بے نتیجہ ہونے کی ایک بڑی وحہ حکومتی اور عوامی سطح پر طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لئے قوت ارادی کی کمی اورطالبان حملوں کا خوف ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے انہونی ٹالنا چاہتی ہیں اور طالبان کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار ہیں تاہم طالبان کی جانب سے خود کو مضبوط اور صف آرا کرنے کا عمل جاری ہے۔
طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے باوجود اسلام آباد کی فروٹ منڈی میں دھماکہ ہو جاتا ہے ، کراچی میں طالبان مخالف پولیس انسپکٹر شفیق تنولی سمیت چار لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ، پشاور اور مردان میں پولیس موبائل پر حملہ کر کے متعدد پولیس اہلکاروں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا جاتا ہے مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور "سب اچھا ہے” کی گردان دہرائی جاتی ہے۔شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کے جواب میں جب آرمی حرکت میں آتی ہے اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں پر حملہ کرتی ہے تو طالبان کے حامی پاکستان آرمی کو امن کے راہ میں بڑی روکاٹ شمار کرتے نظر آتے ہیں اور اس بات پر اصرارکرتے ہیں کہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان آرمی باقاعدہ مذاکراتی عمل میں شامل ہو ۔
مذاکراتی عمل کے بے نتیجہ ہونے کی ایک بڑی وحہ حکومتی اور عوامی سطح پر طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لئے قوت ارادی کی کمی اورطالبان حملوں کا خوف ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے انہونی ٹالنا چاہتی ہیں اور طالبان کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار ہیں تاہم طالبان کی جانب سے خود کو مضبوط اور صف آرا کرنے کا عمل جاری ہے۔ مذاکرات میں طالبان دلچسپی صرف زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ امریکی انخلاء کے بعد پاک افغان بارڈر پر موجود زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنی امارت اسلامیہ میں شامل کر سکیں ۔
مذاکراتی عمل سے متعلق ابہام بھی مذاکرات سے متعلق کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے میں ناکامی کی وجہ ہے۔ مذاکرات کس سے، کب تک اور کن شرائط کی بنیاد پر ہوں گے اس بارے میں ہر فریق مختلف رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور ملک میں امن آ گیا ہے، تاہم خیبر پختون خواہ کی حکومت میں عمران خان کے اتحادی جماعت اسلامی کے رکن اور کالعدم شدت پسندتنظیم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور رابطہ کار پروفیسر ابراہیم نے بی بی سی اردو سروس سے انٹرویو میں کہا کہ اصل مذاکرات ابھی شروع بھی نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت وقت طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کر رکھا ہے جس پر فوج کے اندرونی حلقوں اور پاکستان کے عام شہریوں میں گہری تشوش پائی جا رہی ہے۔ جبکہ جہادی لشکروں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماء یہ بیانات دے کر حکومت کو خوفزدہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر حکومت نے مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نا کیا تو ملک تباہی کے کنارے پر پہنچ سکتا ہے ۔حتی کہ یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرنے والے ملک اور قوم کے دشمن ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے کہ ملک و قوم کے دشمن کون ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں میں شیعہ، سنی، ہندو، احمدی ، اور عیسائی نظر آتے ہیں جن کے گھروں میں کٹے ، جلے اور مسخ شدہ لاشے ہیں جو طالبان کی کھلی جارحیت کا نشانہ بنے اور وہ پاکستانی فورسز پولیس، فوج اور ایف سی کے شہداء کے خاندان ہیں جو اپنے عزیزوں کے لہو کا خراج مانگتے ہیں۔ عجیب منطق ہے کہ ہزاروں شہداء کے لواحقین تو ملک دشمن ہیں اور جو طالبان کے ہمنوا ہیں ، سیاسی پیشواء ہیں اور ان کے نام نہاد ایجنڈے کی تکمیل کرنے والے ہیں وہ محب وطن ہیں جو طالبان کی طرف سے ریاست کے اندر ریاست کے ایجنڈے کے حامی ہیں۔
مذاکراتی عمل کے بے نتیجہ ہونے کی ایک بڑی وحہ حکومتی اور عوامی سطح پر طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لئے قوت ارادی کی کمی اورطالبان حملوں کا خوف ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے انہونی ٹالنا چاہتی ہیں اور طالبان کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار ہیں تاہم طالبان کی جانب سے خود کو مضبوط اور صف آرا کرنے کا عمل جاری ہے۔ مذاکرات میں طالبان دلچسپی صرف زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ امریکی انخلاء کے بعد پاک افغان بارڈر پر موجود زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنی امارت اسلامیہ میں شامل کر سکیں ۔
مذاکراتی عمل سے متعلق ابہام بھی مذاکرات سے متعلق کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے میں ناکامی کی وجہ ہے۔ مذاکرات کس سے، کب تک اور کن شرائط کی بنیاد پر ہوں گے اس بارے میں ہر فریق مختلف رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور ملک میں امن آ گیا ہے، تاہم خیبر پختون خواہ کی حکومت میں عمران خان کے اتحادی جماعت اسلامی کے رکن اور کالعدم شدت پسندتنظیم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور رابطہ کار پروفیسر ابراہیم نے بی بی سی اردو سروس سے انٹرویو میں کہا کہ اصل مذاکرات ابھی شروع بھی نہیں ہوئے ہیں۔ حکومت وقت طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کر رکھا ہے جس پر فوج کے اندرونی حلقوں اور پاکستان کے عام شہریوں میں گہری تشوش پائی جا رہی ہے۔ جبکہ جہادی لشکروں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماء یہ بیانات دے کر حکومت کو خوفزدہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر حکومت نے مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نا کیا تو ملک تباہی کے کنارے پر پہنچ سکتا ہے ۔حتی کہ یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرنے والے ملک اور قوم کے دشمن ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے کہ ملک و قوم کے دشمن کون ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں میں شیعہ، سنی، ہندو، احمدی ، اور عیسائی نظر آتے ہیں جن کے گھروں میں کٹے ، جلے اور مسخ شدہ لاشے ہیں جو طالبان کی کھلی جارحیت کا نشانہ بنے اور وہ پاکستانی فورسز پولیس، فوج اور ایف سی کے شہداء کے خاندان ہیں جو اپنے عزیزوں کے لہو کا خراج مانگتے ہیں۔ عجیب منطق ہے کہ ہزاروں شہداء کے لواحقین تو ملک دشمن ہیں اور جو طالبان کے ہمنوا ہیں ، سیاسی پیشواء ہیں اور ان کے نام نہاد ایجنڈے کی تکمیل کرنے والے ہیں وہ محب وطن ہیں جو طالبان کی طرف سے ریاست کے اندر ریاست کے ایجنڈے کے حامی ہیں۔
مذاکرات کس سے، کب تک اور کن شرائط کی بنیاد پر ہوں گے اس بارے میں ہر فریق مختلف رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور ملک میں امن آ گیا ہے، تاہم خیبر پختون خواہ کی حکومت میں عمران خان کے اتحادی جماعت اسلامی کے رکن اور کالعدم شدت پسندتنظیم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور رابطہ کار پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اصل مذاکرات ابھی شروع بھی نہیں ہوئے ہیں۔
شدت پسند گروہوں سے سیاسی جماعتوں کی وابستگی اور بین الاقوامی دباو پر طالبان سے متعلق فیصلے کئے جانا بھی ایک تشویش ناک امر ہے۔ معروف کالم نگار نذیر ناجی نے اپنے ایک کالم میں اس بات کاتذکرہ کیا ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کی آڑ میں سعودی بادشاہوں سے کیے ہوئے اپنے وعدے کی تکمیل کر رہی ہے جس کے بدلے میں ڈیڑھ ارب ڈالر وصول کیے ہیں ۔ نذیر ناجی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ اب تک آٹھ ہزار طالبان افغانستان، ایران، اور عراق کے راستے شام پہنچ چکے ہیں اور وہاں بشارالاسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی افرادی قوت میں اضافہ کر رہے اور جو کہ پاکستان کی حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ تحریک منہاج القران کے سر پرست ڈاکڑ طاہرالقادری نے ایک نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان در حقیقت مسلم لیگ نواز کی نجی ملیشیاء ہے اورحکومت کبھی بھی ان کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھا سکتی جبکہ ایسا ہی الزام پنجاب حکومت پر اکثر لگایا جاتا ہے کہ وہ صوبے میں دہشتگردگروہوں کی حمایت کر رہی ہے ۔ اس وجہ سے ملکی سطح پر اداروں کے اندر ایک واضح خلیج نظر آ رہی ہے۔ مصحف علی میر ائیر بیس پر منعقدہ ایک تقریب جس میں اردن سے خریدے گئے 5 ایف سولہ طیاروں کی ٖفضائیہ کے بیڑے میں شمولیت کے موقع پر پاک فضائیہ کےسر براہ چیف مارشل طاہر رفیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ طالبان کیخلاف کارروئی کیلئے پوری طرح تیار ہیں ، حکومت جو بھی ٹاسک دے گی پاک فضائیہ کامیابی کے ساتھ اسے پورا کرے گی۔ اسی نوعیت کے بیانات پاک آرمی بھی دے چکی ہے کیونکہ ان کو معلو م ہے کہ مسلح طالبان کے ساتھ مذاکرات ریاست پاکستان کے مفاد کے برعکس ہیں اور یہی سوچ ہر ایک روشن فکر اور معتدل پاکستانی کی ہے کہ طالبان اسلحے کے زور پر حکومت کو مجبور کر کے اپنے انتہاء پسند ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں جبکہ حکومت سب اچھا ہے کا گیت گا رہی ہے اور اس گیت کو سن کو یوں لگتا ہے جیسے ایک اور روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔۔۔
Leave a Reply