پچھلےچندسالوں میں الباکستانیوں کی ایک بےمثال اور یکتا قسم وجودمیں آئی ہے جوخودکوروشن خیال کہتی ہے۔ یہ ندرت پسندعام انسانوں کی طرح نظر تو ضرور آتے ہیں مگر خبردار!دھوکےمیں ہرگز مت آئیے گا؛ اپنی ہئیت کذائی سے یہ ہومو سیپین (Homosapien)ہی معلوم ہوتے ہیں مگران کے ڈی این اےمیں نجانےکہاں خرابی آ گئی جو آج یہ اس حالت کوپہنچ گئےہیں۔ دیگر بنی نوعِ انسان کی طرح یہ بھی زمین پرہی چلتے ہیں مگر انکے دماغ سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچ چکے ہیں- انکے ہونٹ عام انسانوں جیسے ہوتے ہیں مگر جواول فول یہ بکتے ہیں،اس سےان کے گلابی ہونٹوں کی رنگت سیاہ ہوچکی ہے۔ انکی چال بھی سب سے نرالی ہے، ایسے چلتے ہیں گویا زمین پہ نہیں بلکہ عرشِ بریں پرٹہل رہے ہوں۔ یہ کل کے خود پسند، مغرب زدہ لونڈے، ہمیں سمجھائیں گے کہ اس ملک کی اصلاح کیسےکرنی ہے؟
ملک کے طول و عرض میں پھیلے روشن خیالوں کی تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر قرینِ قیاس ہے کہ اس نامرادوبا کے جرثومےنہایت تیزی سےالباکستان کی شہ رگ میں پھیل رہے ہیں اورمملکت خداداد کو”لادینیت” جیسے مہلک طاعون میں مبتلا کررہے ہیں۔ ان روشن خیالوں کےلچھن دیگر تمام نفوسِ آدم سے مختلف ہیں، ہر چیزبارےطرح طرح کے سوالات پوچھیں گے، آپ ہی بتائیے بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہوا؟ نافرمان قوموں کی طرح ہر بات میں مین میخ نکالنے میں بھی یہ موئے ماہر ہیں، ان کا توقبلہ و کعبہ فرنگ اور طور طریق ، چال ڈھال ٹوڈی بچوں کی سی ہے ، سچ ہے کہ انگریز چلے گئےاورانکو پیچھے چھوڑگئے۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے روشن خیالوں کی تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر قرینِ قیاس ہے کہ اس نامرادوبا کے جرثومےنہایت تیزی سےالباکستان کی شہ رگ میں پھیل رہے ہیں اورمملکت خداداد کو”لادینیت” جیسے مہلک طاعون میں مبتلا کررہے ہیں۔ ان روشن خیالوں کےلچھن دیگر تمام نفوسِ آدم سے مختلف ہیں، ہر چیزبارےطرح طرح کے سوالات پوچھیں گے، آپ ہی بتائیے بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہوا؟ نافرمان قوموں کی طرح ہر بات میں مین میخ نکالنے میں بھی یہ موئے ماہر ہیں، ان کا توقبلہ و کعبہ فرنگ اور طور طریق ، چال ڈھال ٹوڈی بچوں کی سی ہے ، سچ ہے کہ انگریز چلے گئےاورانکو پیچھے چھوڑگئے۔
یہی نام نہاد انسانیت دوست کن ٹُٹے، ناس مارے روشن خیال ترقی پسند یہودونصاریٰ کے ایجنٹ ؛پاکستان جیسے خوشحال، ترقی یافتہ اورایٹمی طاقت سے لیس اسلامی قلعہ کو تباہ و برباد کرنے کے مذموم ایجنڈے کو بڑھاوا دے رے ہیں کیونکہ اسلام کا یہ قلعہ اہلِ فرنگ کی آنکھوں میں کانٹے بلکہ شہتیر کی طرح چبھتا ہے۔ اِن روشن خیالوں کا وجود ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد” مدینہ ثانی” الباکستان کو عالمی برادری میں ایک ناکام ریاست بنانا اور اس ملک کے حصے بخرے کرنا ہے۔
یہ لوگ اپنی روشن خیالی کے 100 واٹ کا بلب جلا کر اس ملک کی زیرو واٹ کی روشنی میں سوئی قوم کو جگانا چاہتے ہیں،درحقیقت یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔ یہ لوگ روشن خیالی کی ترویج کے مغربی ایجنڈے کی آڑ میں ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔یہی نام نہاد انسانیت دوست کن ٹُٹے، ناس مارے روشن خیال ترقی پسند یہودونصاریٰ کے ایجنٹ ؛پاکستان جیسے خوشحال، ترقی یافتہ اورایٹمی طاقت سے لیس اسلامی قلعہ کو تباہ و برباد کرنے کے مذموم ایجنڈے کو بڑھاوا دے رے ہیں کیونکہ اسلام کا یہ قلعہ اہلِ فرنگ کی آنکھوں میں کانٹے بلکہ شہتیر کی طرح چبھتا ہے۔ اِن روشن خیالوں کا وجود ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد” مدینہ ثانی” الباکستان کو عالمی برادری میں ایک ناکام ریاست بنانا اور اس ملک کے حصے بخرے کرنا ہے۔
اِن روشن خیالوں کے مطابق الباکستان کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال، بڑھتی ہوئی انتہاپسندی ا ورعدم برداشت، آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن، اقلیتوں کا استحصال اورخواتین کوجنسی طور پر ہراساں کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان وغیرہ جیسے فرضی دکھڑے شامِل ہیں۔ یہ لوگ اس طرح کی بدگمانیاں پیدا کر کے درحقیقت ثبوت دے رہے ہیں کہ یہ بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور الباکستان جیسی صالح، نیکو کار اوربے ضرور قوم کے کِردار پر داغ لگا کر اسکی عزت کو بازارِ حسن میں کوڑیوں کے دام بیچنا چاہتے ہیں۔
ناکام ریاستوں کی فہرست میں الباکستان کا دسواں نمبر ہے لیکن یہ بات آپ اورمیں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سروے سب بکواس اور جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں، ٹوپی ڈرامہ ہوتا ہے سب، اسلام اور الباکستان کو بدنام کرنے کا مغربی پروپیگنڈا ہے۔الباکستان میں انقلاب کی فراوانی کے ہوتے ہوئے آپ خود بتائیں کہ کیا ہم خدانخواستہ ایک ناکام ریاست ہیں؟ کیا ہم لوگوں کو سہولیات نہیں دیتے، طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اپنے ملک کی سرزمین پر نوگو ایریاز بننے دیتے ہیں؟ ایک محبِ وطن اور سچے الباکستانی کی طرح یقیناً آپ کا جواب ہو گا نہیں۔
انتہا پسندی دراصل اغیار کی جانب سے تراشی ہوئی اصطلاح ہے جو سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے گھڑی گئی ہے تاکہ ان کے دل میں وطن مخالف جذبات پیدا ہوں۔ کیا ہم انتہا پسند ہیں؟ ارے بھئی جب ہر ملک ہمارے خدا کا ہے تو ہرملک ہمارا ہی ہوا ناں؟ اب یہ چھوٹی سی بات ان پاجی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، آپ ہی بتائیں کہ اگر ایک شخص بار بار کہنے پر بھی آپ کی بات نہیں مانتا تو آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ اسکو تھپڑ رسید کیا جائےیا اسکو ‘کسی’ طرح سے منوا لیا جائے تومبارک ہو آپ سچے پاکستانی ہیں۔
ایک اورآواز جواس بداندیش گروہ سےتعلق رکھنے والے گماشتوں کی صفوں سے بلند ہوتی ہے، وہ آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن ہے۔ ابھی پچھلے دنوں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کی جانب سے لال بینڈ کے فیس بک پیج کو بلاک کر دیا گیا تھا، اسی طرح کے اور بھی کئی پیج بلاک ہیں۔ ہاں تو غلط کیا ہے اس میں؟ کسی کو کچھ بھی بولنے دیں؟ سیانے کہتے ہیں کہ کسی کو زیادہ نہیں بولنے دینا چاہئے ورنہ ایک دن وہ آپ کے خلاف بھی بول سکتا ہے۔ اسی سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ایسے تخریبی پیجز کو رفاہِ عامہ کیلئے بلاک کر دیا جانا ضروری ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے وغیرہ؛ یہ سب مغربی باتیں ہیں میاں، تم مشرقی ہو اور مشرقی بن کر رہو۔
ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آپ سب کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ایسے کسی بھی روشن خیال شخص سے ہوشیار رہیں اور نظر پڑنے یا معلوم ہونے کی صورت میں نزدیک ترین محافظِ نظریہِ الباکستان سے رابطہ کریں اور اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیں تاکہ ایسے ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے اور آپ رات کو چین کی نیندسوسکیں۔
اِن روشن خیالوں کے مطابق الباکستان کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال، بڑھتی ہوئی انتہاپسندی ا ورعدم برداشت، آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن، اقلیتوں کا استحصال اورخواتین کوجنسی طور پر ہراساں کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان وغیرہ جیسے فرضی دکھڑے شامِل ہیں۔ یہ لوگ اس طرح کی بدگمانیاں پیدا کر کے درحقیقت ثبوت دے رہے ہیں کہ یہ بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور الباکستان جیسی صالح، نیکو کار اوربے ضرور قوم کے کِردار پر داغ لگا کر اسکی عزت کو بازارِ حسن میں کوڑیوں کے دام بیچنا چاہتے ہیں۔
ناکام ریاستوں کی فہرست میں الباکستان کا دسواں نمبر ہے لیکن یہ بات آپ اورمیں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سروے سب بکواس اور جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں، ٹوپی ڈرامہ ہوتا ہے سب، اسلام اور الباکستان کو بدنام کرنے کا مغربی پروپیگنڈا ہے۔الباکستان میں انقلاب کی فراوانی کے ہوتے ہوئے آپ خود بتائیں کہ کیا ہم خدانخواستہ ایک ناکام ریاست ہیں؟ کیا ہم لوگوں کو سہولیات نہیں دیتے، طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اپنے ملک کی سرزمین پر نوگو ایریاز بننے دیتے ہیں؟ ایک محبِ وطن اور سچے الباکستانی کی طرح یقیناً آپ کا جواب ہو گا نہیں۔
انتہا پسندی دراصل اغیار کی جانب سے تراشی ہوئی اصطلاح ہے جو سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے گھڑی گئی ہے تاکہ ان کے دل میں وطن مخالف جذبات پیدا ہوں۔ کیا ہم انتہا پسند ہیں؟ ارے بھئی جب ہر ملک ہمارے خدا کا ہے تو ہرملک ہمارا ہی ہوا ناں؟ اب یہ چھوٹی سی بات ان پاجی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، آپ ہی بتائیں کہ اگر ایک شخص بار بار کہنے پر بھی آپ کی بات نہیں مانتا تو آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ اسکو تھپڑ رسید کیا جائےیا اسکو ‘کسی’ طرح سے منوا لیا جائے تومبارک ہو آپ سچے پاکستانی ہیں۔
ایک اورآواز جواس بداندیش گروہ سےتعلق رکھنے والے گماشتوں کی صفوں سے بلند ہوتی ہے، وہ آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن ہے۔ ابھی پچھلے دنوں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کی جانب سے لال بینڈ کے فیس بک پیج کو بلاک کر دیا گیا تھا، اسی طرح کے اور بھی کئی پیج بلاک ہیں۔ ہاں تو غلط کیا ہے اس میں؟ کسی کو کچھ بھی بولنے دیں؟ سیانے کہتے ہیں کہ کسی کو زیادہ نہیں بولنے دینا چاہئے ورنہ ایک دن وہ آپ کے خلاف بھی بول سکتا ہے۔ اسی سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ایسے تخریبی پیجز کو رفاہِ عامہ کیلئے بلاک کر دیا جانا ضروری ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے وغیرہ؛ یہ سب مغربی باتیں ہیں میاں، تم مشرقی ہو اور مشرقی بن کر رہو۔
ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آپ سب کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ایسے کسی بھی روشن خیال شخص سے ہوشیار رہیں اور نظر پڑنے یا معلوم ہونے کی صورت میں نزدیک ترین محافظِ نظریہِ الباکستان سے رابطہ کریں اور اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیں تاکہ ایسے ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے اور آپ رات کو چین کی نیندسوسکیں۔
Leave a Reply