یہ رش پرنس روڑ پر واقع ایک فوٹو کاپی کی دکان پر ہے جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اشتہارات کی نقول کے حصول کے لئے دھکم پیل میں مصروف ہے۔ جب سے عدالت کی جانب سے بلوچستان کے محکموں میں ملازمین کی بھرتی پرعائد پابندی ہٹا ئی گئی ہے بلوچستان کی ہر فوٹی کاپی شاپ پر ایسا ہی رش ہے۔عدالتی حکم کے بعد سے مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے اخبارات میں ’’روزگار کے مواقع‘‘ کے اشتہارات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان سرکاری اشتہارات کے باعث فوٹو کاپی کی دکانیں اور اخبارات کے اسٹال سرکاری ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
اشتہارات کی نقول کے حصول کے لیے انہیں قطاروں میں لگے رہنے ، انتظار کرنے اور ہر دوسرے تیسرے دن پھر کسی نئے اشتہار کی نقل حاصل کرنے کے لیے دکانوں کے چکر کاٹنے پر ایک محفوظ مستقبل کی وہ امید مجبور کیے ہوئے ہے جو سرکاری ملازمت کے ساتھ مخصوص ہے۔یہ معاملہ محض بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے نوجوان انہیں سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دکانداروں کا کاروبار چل نکلا ہےاوراخبار مالکان کو اشتہارات کی مد میں فائدہ ملنا شروع ہو گیا ، رہا سوال بے روزگار نوجوانوں کا تو وہ ان دکانداروں کے مستقل گاہک بن چکے ہیں۔
اشتہارات کی نقول کے حصول کے لیے انہیں قطاروں میں لگے رہنے ، انتظار کرنے اور ہر دوسرے تیسرے دن پھر کسی نئے اشتہار کی نقل حاصل کرنے کے لیے دکانوں کے چکر کاٹنے پر ایک محفوظ مستقبل کی وہ امید مجبور کیے ہوئے ہے جو سرکاری ملازمت کے ساتھ مخصوص ہے۔یہ معاملہ محض بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے نوجوان انہیں سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دکانداروں کا کاروبار چل نکلا ہےاوراخبار مالکان کو اشتہارات کی مد میں فائدہ ملنا شروع ہو گیا ، رہا سوال بے روزگار نوجوانوں کا تو وہ ان دکانداروں کے مستقل گاہک بن چکے ہیں۔
یہ بیروزگار نوجوان نہ اخبار کا پہلا صفحہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں بیک پیج سے کوئی سروکار ہوتا ہے بلکہ اخبار لیتے ہی پہلی نطر میں اشتہارات والے صفحہ کو چھان مارتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کا حصول یقیناًایک ایسا پل صراط ہے جو ہر ڈگری ہولڈر کو پار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے اشتہارات کی نقول کا حصول یا مستقل اخبار کا خریدا ر ہونا ضروری ہے جس کے بعد اپنی اہلیت، مزاج اور ضرورت کے مطابق ملازمت کا انتخاب اور اس کے بعددرخواست دینے کا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے جس کی ابتداء متعلقہ دستاویزات کی فوٹوکاپیوں سے ہی ہو جاتی ہے۔متعلقہ دستاویزات کی نقول کے بعد ان کی تصدیق کی غیر ضروری شرط پوری کرنے کے لیے سرکاری اداروں کے حاضر سروس اہلکاروں کے دفاتر کے متواتر چکر کاٹنے اور تحریری امتحان کی فیسیں اور ڈاک خرچ کی ادائیگی کے بعد بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے تحریر امتحان یا انٹرویو کے لیے سرکاری بلاوا موصول ہو گا یا نہیں۔
پرنس روڑ کی یہ دکانیں ہوں یا جناح روڑ یا میزان چوک پر لگے اخبارات کے اسٹال ،یہ بیروزگار نوجوان نہ اخبار کا پہلا صفحہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں بیک پیج سے کوئی سروکار ہوتا ہے بلکہ اخبار لیتے ہی پہلی نطر میں اشتہارات والے صفحہ کو چھان مارتے ہیں۔ اس صفحہ کا مطالعہ اسی باریک بینی سے کیا جاتا ہے جس کے ساتھ ان میں سے بعض نوجوانوں نے کمرہ امتحان میں داخل ہونے سے قبل خلاصوں، گائیڈوں اور ٹیسٹ پیپروں کا مطالعہ کیا ہوتا ہے۔بد قسمتی سے اس وقت کوئی سرکاری ملازمت ایسی نہیں جس کے لیے درخواست دینے کے عمل پر ہزار سے پندرہ سو روپے کا خرچ نہ آتا ہو یعنی ایک بیروزگار نوجوان کو اس کی رہی سہی جمع پونجی سے محروم کرنے کا کوئی موقع حکومت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔
پرنس روڑ کی یہ دکانیں ہوں یا جناح روڑ یا میزان چوک پر لگے اخبارات کے اسٹال ،یہ بیروزگار نوجوان نہ اخبار کا پہلا صفحہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں بیک پیج سے کوئی سروکار ہوتا ہے بلکہ اخبار لیتے ہی پہلی نطر میں اشتہارات والے صفحہ کو چھان مارتے ہیں۔ اس صفحہ کا مطالعہ اسی باریک بینی سے کیا جاتا ہے جس کے ساتھ ان میں سے بعض نوجوانوں نے کمرہ امتحان میں داخل ہونے سے قبل خلاصوں، گائیڈوں اور ٹیسٹ پیپروں کا مطالعہ کیا ہوتا ہے۔بد قسمتی سے اس وقت کوئی سرکاری ملازمت ایسی نہیں جس کے لیے درخواست دینے کے عمل پر ہزار سے پندرہ سو روپے کا خرچ نہ آتا ہو یعنی ایک بیروزگار نوجوان کو اس کی رہی سہی جمع پونجی سے محروم کرنے کا کوئی موقع حکومت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔
سرکاری محکموں کو خالی آسامیوں کے لئے ہزاروں امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، انکی فہرستیں بھی تیار ہیں لیکن سیاسی مداخلت کے باعث ٹیسٹ اور انٹرویو کا عمل تاخیر کا شکارہے۔
بلوچستان میں وقت کے ساتھ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہےاور روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے مایوس نوجوان موجودہ صورتحال میں اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔انکا اعتماد اداروں پرسے اٹھ چکا ہے۔ حکومت وقت کی جانب سے روزانہ مشتہر کی جانے والی خالی آسامیوں پر پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود نہ تحریری امتحان لیے جا سکے ہیں اور نہ ہی انٹرویو کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔
ملازمتوں کے مشتہر کیے جانے کے بعد بھرتی کے عمل میں غیر ضروری تاخیر بہت سی افواہوں کو جنم دیتی ہے۔بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ملازمتوں کے لئے صوبائی سیکریٹریز ،وزر اور حکومت کے اہم اراکین کے درمیان ان بن چل رہی ہے اور سبھی اپنے انتخابی حلقے یا منظور نظر افراد کو بھرتی کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔بااثر افراد کے “معاملات ” طے نہ ہونے کی وجہ سے بھرتی کے عملی کو لٹکایا جا رہاہے۔سرکاری محکموں کو خالی آسامیوں کے لئے ہزاروں امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، انکی فہرستیں بھی تیار ہیں لیکن سیاسی مداخلت کے باعث ٹیسٹ اور انٹرویو کا عمل تاخیر کا شکارہے۔
رواں ماہ کے دوران بہت سے اداروں نے خالی آسامیوں کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کی تاریخیں اخبارات میں مشتہر کی تھیں لیکن جونہی مقررہ تاریخیں نزدیک آئیں انہیں’’ ناگزیر وجوہات ‘‘کی بناء پرملتوی کر دیاگیا۔بہت سے بلوچ نوجوان جو محض ٹیسٹ دینے یا انٹرویو کی خاطر ایک ہزار یا اس سے زائد کلومیٹر کا سفر اورمالی اخراجات برداشت کرکےکوئٹہ پہنچے تھے انہیں ٹیسٹ او رانٹرویو دیے بغیر واپس جانا پڑا۔ یقیناًان اقدامات سے نوجوانوں کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے اور ان کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ حکومت کو پہلی فرصت میں بے روزگاری جیسے معاشرتی ناسورکے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔سرکاری محکموں میں ملازمتوں کی فراہمی سے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو وفاق کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے بلکہ علاقے کی کوخوشحالی کو یقینی بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن عدالتی حکم کے باوجود نوجوانوں کو درخواست دینے کے عمل سے بار بار گزارنے سے نوجوانوں کا حکومت پر اعتماد کم ہوا ہے۔ گو حکومتی اراکین کے درمیان ذاتی اور سیاسی اختلافات ہر دور میں موجود رہے ہیں اورانہیں اتفاق رائے سے دور کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مفادات کی بنیاد پر نوجوانوں کو بے روزگاررکھنا کسی طرح درست نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلصانہ کوششوں سے بعض معاملات میں بہتری آئی ہے مگر بے روزگاری جیسے اہم مسئلے پر قابو پانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات ابھی تک نہیں کیے جا سکے۔ ہائی کورٹ بلوچستان کو بھی اس معاملہ میں بلوچوں کی داد رسی کرنی چاہیے اور حکومت کو خالی آسامیاں پُر کرنے کی ڈیڈ لائن دینے چاہیے ۔ موجودہ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف صوبے کی خالی آسامیوں پر نوجوانوں کی جلد تعیناتی عمل میں لائے بلکہ وفاقی محکموں میں بلوچستان کے نوجوانوں کی بھرتی میں حائل رکاوٹیں بھی دور کرے تاکہ مقامی نوجوان بیروزگاری کے عفریت سے بچ سکیں۔
ملازمتوں کے مشتہر کیے جانے کے بعد بھرتی کے عمل میں غیر ضروری تاخیر بہت سی افواہوں کو جنم دیتی ہے۔بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ملازمتوں کے لئے صوبائی سیکریٹریز ،وزر اور حکومت کے اہم اراکین کے درمیان ان بن چل رہی ہے اور سبھی اپنے انتخابی حلقے یا منظور نظر افراد کو بھرتی کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔بااثر افراد کے “معاملات ” طے نہ ہونے کی وجہ سے بھرتی کے عملی کو لٹکایا جا رہاہے۔سرکاری محکموں کو خالی آسامیوں کے لئے ہزاروں امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، انکی فہرستیں بھی تیار ہیں لیکن سیاسی مداخلت کے باعث ٹیسٹ اور انٹرویو کا عمل تاخیر کا شکارہے۔
رواں ماہ کے دوران بہت سے اداروں نے خالی آسامیوں کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کی تاریخیں اخبارات میں مشتہر کی تھیں لیکن جونہی مقررہ تاریخیں نزدیک آئیں انہیں’’ ناگزیر وجوہات ‘‘کی بناء پرملتوی کر دیاگیا۔بہت سے بلوچ نوجوان جو محض ٹیسٹ دینے یا انٹرویو کی خاطر ایک ہزار یا اس سے زائد کلومیٹر کا سفر اورمالی اخراجات برداشت کرکےکوئٹہ پہنچے تھے انہیں ٹیسٹ او رانٹرویو دیے بغیر واپس جانا پڑا۔ یقیناًان اقدامات سے نوجوانوں کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے اور ان کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ حکومت کو پہلی فرصت میں بے روزگاری جیسے معاشرتی ناسورکے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔سرکاری محکموں میں ملازمتوں کی فراہمی سے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو وفاق کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے بلکہ علاقے کی کوخوشحالی کو یقینی بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن عدالتی حکم کے باوجود نوجوانوں کو درخواست دینے کے عمل سے بار بار گزارنے سے نوجوانوں کا حکومت پر اعتماد کم ہوا ہے۔ گو حکومتی اراکین کے درمیان ذاتی اور سیاسی اختلافات ہر دور میں موجود رہے ہیں اورانہیں اتفاق رائے سے دور کیا جانا چاہیے لیکن سیاسی مفادات کی بنیاد پر نوجوانوں کو بے روزگاررکھنا کسی طرح درست نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلصانہ کوششوں سے بعض معاملات میں بہتری آئی ہے مگر بے روزگاری جیسے اہم مسئلے پر قابو پانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات ابھی تک نہیں کیے جا سکے۔ ہائی کورٹ بلوچستان کو بھی اس معاملہ میں بلوچوں کی داد رسی کرنی چاہیے اور حکومت کو خالی آسامیاں پُر کرنے کی ڈیڈ لائن دینے چاہیے ۔ موجودہ صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف صوبے کی خالی آسامیوں پر نوجوانوں کی جلد تعیناتی عمل میں لائے بلکہ وفاقی محکموں میں بلوچستان کے نوجوانوں کی بھرتی میں حائل رکاوٹیں بھی دور کرے تاکہ مقامی نوجوان بیروزگاری کے عفریت سے بچ سکیں۔